Baseerat Online News Portal

جمعہ نامہ: تحویل قبلہ میں مرعوبیت ومداہنت سے نجات کا پیغام

 

ڈاکٹر سلیم خان

مکہ مکرمہ میں بیک وقت خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنا ممکن تھالیکن مدینہ منورہ کے اندر خانۂ کعبہ جنوب کی طرف اور بیت المقدس شمال کی جانب تھا اس لیے کسی ایک کا انتخاب لازم ہوگیا۔ ہجرت کے بعد ابتدائی مہینوں میں بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی گئی اور پھر جب تحویل قبلہ کا حکم آیا تو خانۂ کعبہ کی جانب رخ موڑ دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کی عبادت کا معاملہ تھا اس لیے کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اس لیے معترضین کے جواب میں ارشادِ ربانی ہے :’’نادان لوگ ضرور کہیں گے ،اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے ، اس سے یکایک پھر گئے ؟‘‘ اس سوال کا آسان سا جواب تو یہ ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے تم کو اس سے کیا غرض ؟ لیکن اس کے جواب میں اس ظاہر پرستی پر ضرب لگائی گئی کہ جو انہیں اعتراض کرنے پر ابھار رہی تھی۔فرمانِ خداوندی ہے :’’ اے نبیؐ ، ان سے کہو : ”مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے ،سیدھی راہ دکھاتا ہے‘‘۔ یعنی عبادت کی روح سمت نہیں اطاعت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جس سمت کی جانب رخ کرکے نماز کا حکم دیں گے ،مومن بندے اسی طرف منہ کرکے عبادت کریں گےکیونکہ مشرق و مغرب اللہ کے ہیں۔

اس موقع پر امت کےاصل تشخص کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا :’’ ہم نے تمہیں ایک ”اُمّتِ وَسَط “بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رُسول تم پر گواہ ہو‘‘۔اس لیے امت وسط ہونےکی حیثیت سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کو ادا کرنے کی جانب توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ ملت اسلامیہ کسی بھی صورت مسائل اور اعتراضات میں الجھ کر اپنے فرض منصبی سے غافل نہ ہو۔ یہاں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے دین حق کا پیغام پہنچانے کا گرُ سکھایا گیا ہے۔ اس کے آگے تحویل قبلہ کی حکمت کا ذکر یوں فرمایا کہ :’’پہلے جس طرف تم رُخ کرتے تھے ، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رُسول کی پیروی کرتا ہے اور کو ن اُلٹا پھر جاتا ہے‘‘ ۔ اس زمانے میں مشرکین مکہ کا مذہبی تقدس خابۂ کعبہ سے اور یہودیوں کا بیت المقدس سے وابستہ تھا ۔اس تناظر میں یہ آیت مخالفین کے مقام تقدس یا نظریات سے مرعوب ہونے والے اہل ایمان کو مخاطب کرتی ہے ۔

مدینہ منورہ میں جب بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی جانے لگی تو مشرکین سے مرعوب گروہ کے آزمائش میں مبتلا ہونے کا امکان پیدا ہوگیا اور جب سمت بدل کر خانۂ کعبہ کی جانب کیا گیا تو یہود سے متاثر لوگوں کے لیےپریشانی کا سامان ہوگیا لیکن آگے اس مصیبت سے محفوظ ومامون اہل ایمان کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ : یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت ، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا ، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے‘‘ اور پھر یہ بشارت بھی دی گئی کہ :’’ اللہ تمہارے اس ایمان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے‘‘۔سلسلۂ کلام میں چند آیات کے بعد عدم مداہنت کی تعلیم اس طرح دی گئی کہ :’’تم ان اہلِ کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آوٴ ، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں، اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دُوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں، اور اگر تم نے اس علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا ہے ، ان کی خواہشات کی پیروی کی ، تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا‘‘۔ اس آیت میں غیروں سے مرعوب ہوکر تذبذب کا شکار ہونے والوں کو وعید سنائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی مخالفین ِاسلام کو راضی کرنے کی خاطر مداہنت کی راہ اختیار کرے تو اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنے والاخود اپنا خسارہ کربیٹھے گا۔ اللہ تعالیٰ امت کو اس فتنہ سے محفوظ رکھے۔

Comments are closed.