Baseerat Online News Portal

جمعہ نامہ: عائشہ کی ویڈیو میں امت کی تصویر

 

ڈاکٹر سلیم خان

احمد آباد کی دوشیزہ عائشہ  نے  اپنی  ویڈیو کے ذریعہ امت کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا۔  اس میں اپنی صورت دیکھنے کے بجائے  کچھ لوگ اس بیچاری  کو جنت نصیب یا جہنم رسید کرنے میں لگ گئے حالانکہ یہ  ہماراکام نہیں ہے ۔ اس بابت حضرت عیسیٰ ؑ کا  دعائیہ  جواب ہے:’’اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ‘‘۔  انسان اپنے اندر بہت ساری بیماریاں پالتا رہتا ہے لیکن جب کوئی بڑامرض اس کو دھر دبوچتا ہے تو چھوٹی موٹی بیماریاں  بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔  کورونا کی وباء کے دوران یہ  مشاہدہ عام تھا ۔ عائشہ کی خودکشی جن بیماریوں کو ابھار کرباہر   لے آئی ان میں سے ایک جہیز کی لعنت ہے۔ اس غیر اسلامی رسم کی بیخ کنی لازمی ہے مگر  بدقسمتی سے سوادِ اعظم   اس سےنجات حاصل کرنے کے بجائے لت پت رہنا چاہتا ہے۔  ایک سوال یہ بھی  ہے کہ  کیا یہی واحد  مسئلہ ہے کہ  اگر وہ حل ہوجائے ایسی واردات نہیں ہوگی؟ شاید نہیں۔

  یہ بات سامنے آچکی ہے کہ عائشہ کے لیاقت علی خان  نے اپنے داماد کے مطالبات کو پورا  توکیا مگر اس میں اضافہ ہوتا چلاگیا ۔ وہ اگر مزید مطالبات کو پورا کردیتے تب بھی  کیا گارنٹی  ہے  کہ اضافہ نہیں ہوتا؟ حدیث میں آتا ہے  انسان کےحرص و ہوس کا گڑھا تو  قبر کی مٹی سے ہی بھرےگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ غیر کے مالِ حرام کی محبت میں مبتلا عارف  کا  دل اپنی زوجہ کی   محبت سے خالی  تھا جبکہ عائشہ  اپنے خاوند کودیوانہ وار چاہتی    تھی۔   اس یکطرفہ محبت کا  ویڈیو میں  ذکرہے۔ انسان دوسروں کی محبت اپنے  دل سے نکال پھینکنے پرتو قدرت رکھتا ہےلیکن کسی اور کو خود سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا ۔ یہ بات اگر کوئی عائشہ کو سمجھا دیتا تو شاید وہ ایسا انتہائی قدم نہیں اٹھاتی ۔  زندہ لوگوں کے لیے اس موت  میں یہ پیغام ِعبرت ہے۔

محبت ازدواجی زندگی کی بنیاد  ہے لیکن اسے اللہ کی محبت کا تابع ہو نا چاہیے۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا اوروں کو اس کا ہمسر قرار دیتے ہیں اور ان سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح خدا سے کرنی چاہیے۔ مگر جو صاحب ایمان ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔  بیوی اور خاوند کے درمیان اندھی محبت سے بیجا توقعات اور  حزن و یاس جنم لیتے ہیں ۔ اس کا شکارفرد کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ میرے ایک شناسائی نے دوران تعلیم  ایک امیر کبیر کی بیٹی  سے محبت کی شادی کی ۔ خسر نے اس کو گھر داماد بناکرعیش کا سارا سامان مہیا کردیا لیکن بات نہیں بنی۔ وہ  طلاق کے بعد  ایک معمولی ملازمت کرکے پر مسرت  نئی ازدواجی زندگی گزاررہا ہے ۔  زوجہ کا بھی نکاح ثانی ہوگیا ہوگا ۔ ان دونوں  کے تعلقات منقطع ہوگئے لیکن  کسی  کو خودکشی کا خیال تک نہیں آیا۔     وہ  اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں کیونکہ  ان  کی محبت جنونی نہیں بلکہ   حقیقت پسند تھی ۔

فرمانِ ربانی  ہے کہ :’’ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے‘‘۔ یعنی کامل  انحصار صرف  خداپر ہونا چاہیے۔ آگے فرمایا’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں (ازواج) اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو ۰۰‘‘ یعنی اگر وہ اللہ کی نافرمانی کی طرف راغب کریں تو اس سے بچومگر ان کے ساتھ معافی تلافی  کا معاملہ کرو،ان کی بات دل پر نہ لوکیونکہ :’’ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں‘‘۔عارف کے لیے خسر کا مال اور لیاقت علی  کی خاطر بیٹی کو خوش رکھنے کی  شدیدخواہش   آزمائش بن گئی ۔اس لیےجہیزکے ناجائز مطالبات   کی تکمیل بھی  انجام بدکونہیں  ٹال سکی۔   عارف جیسے لوگوں کے لیے یہ  وعید ہے کہ :’’ جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے ‘‘۔

Comments are closed.