Baseerat Online News Portal

جمعہ نامہ:  مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند  

 

ڈاکٹر سلیم خان

اندھیرے اور جالے کے انسانی اہتمام اور قدرتی انتظام  میں بنیادی فرق  یہ ہے کہ  ایک اچانک ہوجاتا ہے اور دوسرے میں تدریج ہے۔ چراغ  یا بجلی کا قمقمہ ایک دم روشن ہوجاتا ہے لیکن دن چڑھتے چڑھتے چڑھتا ہے اور شام ڈھلتےڈھلتے ڈھلتی ہے۔  ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ آ  خر لیل و نہار کی تخلیق کیسے ہوتی ہے۔ یہ کسی بٹن کے دبنے نمودار نہیں ہوتے۔  زمین کی محوری گردش  دن اور رات بنتے ہیں ۔ اس کا مشاہدہ اگر خلا سے کیا جائے تو  دور بین قرآن مجید کی یہ  آیت سنائے گی :’’  وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘۔  رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کا عمل بتدریج ہوتا ہے  اور اس سےکبھی صبح کی  روشنی  پھیلتی  چلی جاتی ہے اور کبھی رات کا اندھیرا چھاتا چلا  جاتا ہے۔   یہ حسن اتفاق ہے کہ اردو میں روشنی مونث اور اندھیرا مذکر ہے لیکن اگر نور اور تاریکی کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو جنس بدل جاتی ہے۔

تخلیق ِ لیل و نہار سے متعلق یہ بھی فرمایا گیا کہ :’’(اللہ )رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ‘‘۔  رات اور دن کو ایک دوسرے میں پرونا وہی تدریج کے ساتھ  داخل کرنے کی کیفیت ہے ۔ رات اور دن کے تناظر میں اگر اس آیت  کا اگلا حصہ  دیکھیں کہ  :’’ جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو‘‘۔ اس کا تعلق صبح ِدم انسان کے جاگنے اور  رات میں سوجانے سے ہوجاتا ہے  کیونکہ قرآن حکیم میں دیگر مقام پر  ’’نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت ‘‘ بتایا گیا ہے۔    نبیٔ کریم ﷺ نے  نیند سے جاگنے کی  یہ دعا سکھائی ہے کہ:’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کر جاناہے‘‘۔  گویا سونا اور جاگنا بھی زندگی بعد موت  جیسا ہی ہے۔

کائناتِ ہستی کے مالک سے بے نیاز ہوکرگردشِ لیل و نہار   کا مشاہدہ کر نے والے بہت سارے لوگ  خالق  کے بجائے تخلیق کی پرستش میں مبتلا ہوجاتے  ہیں۔ ایسے نادان لوگوںکو مخاطب کرکے فرمایا:’’  وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے چاند اور سورج کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے‘‘۔  یعنی رات اور دن اپنے وقتِ  خاص  میں اس لیے آتے جاتے ہیں کیونکہ ان کو خالق کائنات نے مسخر کرکے ایک نظام لاوقات کا پابند بنا رکھا ہے۔ اس لیے شمس و قمر ربوبیت کے سزاوار نہیں ہیں بلکہ:’’  وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں ۔انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے‘‘۔ یہ معاملہ تو اس دنیائے فانی میں ہے لیکن آگے چل کر  :’’ قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے ‘‘۔ اور یہ بھی بتادیا گیا کہ :’’حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ‘‘

شب و روز کی تخلیق کے لیے داخل کرنا اور پرونا کے علاوہ لپیٹنے کی لفظیات کا استعمال  کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے اُسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ،ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔ آگے فرمایا کہ ان بے جان اشیاء کے علاوہ وہی ساری ذی روح اجناس کا بھی خالق ہے:  ’’اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟‘‘ یعنی جس طرح چاند اور سورج اپنے خالق کی اطاعت کررہے ہیں اسی طرح حضرت انسان کو بھی اللہ رب العزت کی بندگی کرنی چاہیے کیونکہ جو خالق ہے وہی حاکم بھی ہے اور اسی  کا حکم بجا لانا چاہیے۔

Comments are closed.