Baseerat Online News Portal

جمعیۃ علماء ہند : ماضی تابناک مگر حال……..!!!

غفران ساجد قاسمی
چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن
جمعیۃ علماء ہند اپنی عظیم خدمات کی بدولت روشن تاریخ رکھتی ہے، جمعیۃ علماء ہند کا قیام آج سے سو سال قبل ایسے نازک دور میں ہوا تھا جب ملک انگریزی استعمار کے پنجے میں جکڑا ہوا تھا اور مجاہدین حریت وطن عزیز کو انگریزی استعمار سے آزاد کرانے کے لئے جہاد آزادی کی بگل بجائے ہوئے تھے، ایسے نازک وقت میں اکابر علماء امت کی ایک معتد بہ جماعت نے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی کہ منظم اور مضبوط تحریک چلانے کے لیے علمائے امت کی ایک متحدہ جماعت کی تشکیل ہونی چاہیے جس کی قیادت میں وطن عزیز کو انگریزی استعماری طاقتوں سے آزاد کرایا جا سکے اور ملک وملت کو ظالموں کے پنجہ استبداد سے چھڑایا جا سکے، جب ہم قیام جمعیۃ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ جمعیۃ کی تحریک چلانے والے علمائے امت میں سے ہر کوئی اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھا اور ہر شخص امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کا مکمل طور پر اہل تھا، وہ تمام قائدین جو جمعیۃ علماء ہند کے قیام کی تحریک میں شامل تھے، سبھی جہاں ایک طرف علم وفضل اور خلوص و للہیت میں درجہ کمال کو پہونچے ہوئے تھے وہیں دوسری جانب امت مسلمہ کی قیادت کرنے کے لیے انتہائی مدبرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے، آج بھی اس گئے گذرے دور میں جب کہ حکومت نے علمائے ہند اور ملی و دینی تنظیموں کو عام مسلمانوں میں بے اثر کرنے اور غیر مقبول کرنے کی انتہائی کوششیں کرڈالی ان سب کے باوجود عام مسلمانوں میں جمعیۃ علماء ہند کی مقبولیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے بانیان انتہائی مخلص تھے اور ان کی نیتیں خالص تھیں، ورنہ نہ جانے اس ملک میں کتنی تحریکیں اٹھیں، مقبول ہوئیں اور پھر منظرنامہ سے غائب ہوگئیں، یا موجود ہیں تو بس چند شخصیات اور چند شہروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں، لیکن جمعیۃ علماء ہند ابھی بھی اتنی مقبول عام ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کی شاخیں ہندوستان کے گاؤں گاؤں تک پھیلی ہوئی ہیں، کوئی ریاست، کوئی شہر، کوئی قصبہ اور کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں جمعیۃ علماء ہند کی شاخ قائم نہ ہو اور اس کے ممبران و کارکنان نہ ہوں، بہرحال یہ جمعیۃ علماء ہند کی مقبولیت کی علامت اور اس کے بانیان کے اخلاص کی ایک واضح علامت ہے، جس کا انکار ناممکن ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی چند باتیں ایسی بھی ہیں جس کی جانب جمعیۃ علماء ہند کو بہت پہلے ہی توجہ دینی چاہیے تھی لیکن ابھی تک جمعیۃ اس جانب توجہ نہیں دے سکی جس کی وجہ سے موجودہ دور کے نوجوان نسل کے فضلا کو عموماً جمعیۃ اور اس کے قائدین سے شکایت رہتی ہے اور یہ شکایت بہت حدتک بجابھی ہے جس کے ازالہ کے لیے اب بھی جمعیۃ کو آگے بڑھ کر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے، مجھے اسکا وقت اس کو شمار کرانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ تمام کارنامے یقینا قابل تحسین اور قابل تعریف ہیں، اس کے لئے ہندی مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے قائدین کے شکر گزار ہیں۔
اس وقت میرے ذہن میں چند مشورے ہیں جن پر جمعیۃ علماء ہند کو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ باتیں جمعیۃ علماء ہند کے قائدین کے پیش نظر نہیں ہیں، لیکن اپنا فرض سمجھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ جمعیۃ علماء ہند کے بالغ نظر قائدین باالخصوص امیرالہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی صدر جمعیۃ علماء ہند تک اپنی معروضات پہونچا دوں، کہنے کو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی لیکن امت مسلمہ ہندیہ کے ایک فرد اور جمعیۃ علماء ہند کے ایک محب کے ناطے میرا صدر جنعیہ تک اپنی معروضات کو پہنچانا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہوں۔
ویسے تو کام کے بہت سارے میدان ہیں، لیکن فی الوقت مندرجہ ذیل تین اہم نکات پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے وقت کی اشد ضرورت ہے۔
1. تعلیمی میدان میں کرنے کے کام یہ ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند ملک کی تمام ریاستوں کے تمام شہروں میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ علاحدہ سی بی ایس سی نصاب کے مطابق خالص دینی اسلامی ماحول میں اسکول قائم کرے، جمعیۃ کے لیے یہ کام اس لئے بھی آسان ہے کہ جمعیۃ کی یونٹ ہرضلع میں قائم ہے اور تمام مواقع پر جمعیۃ کی ضلعی یونٹیں مرکز کو رقوم فراہم کرتی ہیں، اسکول کے بجٹ کے لئے جمعیۃ ضلعی یونٹ کو مکلف کرے کہ وہ اس کام کو اپنی سطح پر کرے، انشاءاللہ کوئی بہت مشکل نہیں ہوگا،
آج ہم اور آپ ہمیشہ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہماری بچیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں، ہمارے بچے غیر اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے الحاد پسندی کے شکار ہورہے ہیں، تو اگر ہماری بچیاں اور بچے خالص اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کریں گے تو انشاءاللہ ارتداد اور الحاد کے مسئلے پر قابو پالیا جائے گا۔
اسی طرح ہر شہر میں ایک مسلم ہاسٹل کے قیام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جو بچے گاؤں دیہات سے شہروں میں پڑھنے آتے ہیں انہیں خالص اسلامی ماحول میں تربیت فراہم کی جاسکے۔
2..ارتداد اور الحاد کے پیچھے کی وجوہات میں جہاں بہت سارا عمل دخل مخلوط تعلیمی نظام کا ہے، وہیں ایک بڑا سبب معاشی تنگی کا بھی ہے، ارباب جمعیۃ کو چاہیے کہ وہ مسلم نوجوانوں کے معاشی مسائل کے حل کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان کے لئے مائکرو فائنانس اور چھوٹے چھوٹے روزگار کا انتظام کریں، تاکہ مسلم نوجوان معاشی طور پر مستحکم ہوں گے تو کوئی بھی ان کے دین و ایمان کا سودا نہیں کرسکے گا۔
اسی طرح گاؤں دیہات میں مسلم عورتیں سودی لین دین جیسے حرام کاموں میں ملوث ہیں اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ارتداد کی ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ کے ارباب حل وعقد کو چاہیے کہ وہ دیوبند کے طرز پر ہر شہر اور ہر قصبے میں مسلم فنڈ قائم کرے جہاں غریب اور ضرورت مندوں کو بلا سودی قرض فراہم کیا جاسکے، میں نے گذشتہ دنوں بہار کے کئی اضلاع میں مشاہدہ کیا کہ اس سودی لین دین کی وجہ سے کئی گھر اجڑ چکے ہیں اور کئی جانیں جا چکی ہیں، اس جانب بھی خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے.
3. ہمارے قائدین کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہمارے پاس میڈیا نہیں ہے جو ہماری آواز ایوان حکومت تک پہونچا سکے یا مین اسٹریم میڈیا کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز خبروں کا دفاع کرسکے تو اس سلسلے میں ضرورت ہے کہ جمعیۃ بالواسطہ اپنی نگرانی میں ایسے مختلف میڈیا ہاؤسز قائم کریں جہاں مختلف زبانوں میں مین اسٹریم میڈیا کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا جا سکے اور صحیح اور سچی اور غیر جانبدار خبروں سے عوام کو آگاہ کرسکے، اور یہ کام ملک کی مختلف علاقائی زبانوں میں کرنے کی ضرورت ہے۔
باتیں تو اور بھی ہیں لیکن سردست یہ باتیں کافی ہیں، امید ہے کہ ارباب جمعیۃ علماء ہند میری ان مختصر معروضات پر غور کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے اور صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کو صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے آمین اور امت مسلمہ ہندیہ پر ان کا سایہ تادیر قائم و دائم رکھے آمین۔
گرقبول افتد زہے عز و شرف

Comments are closed.