Baseerat Online News Portal

جمہوریت میں آوازیں سنی جاتی ہیں کٌچلی نہیں جاتیں

محمد قاسم ٹانڈؔوی
موجودہ حکومت کا لایا ہوا ‘شہریت ترمیمی بِل’ جو کہ ایک متنازع بل ہے، اسے اب قانونی شکل مل گئی ہے اور 10/جنوری سے اس کے نِفاذ کا اعلان بھی حکومت کی طرف سے باقاعدہ کر دیا گیا ہے، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حکمراں طبقہ خود کو سب سے بڑا اور ہر قانون سے اونچا تصوّر کئے ہوئے بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے، جو نتائج و عواقب کو صحیح سے سمجھ نہیں پا رہی ہے، ورنہ اس کے مزاج میں اتنا ڈھیٹ پَن اور اکڑ نہ ہوتی جیسا کہ وزیر داخلہ نے پورے طمراق کے ساتھ گھمنڈی لہجے میں کہا ہے کہ: "حکومت اپنے قدم سے ایک انچ بھی ہٹنے والی نہیں ہے، اور این آر سی پورے ملک میں ہو کر رہے گی”۔
اس کے برخلاف ہمیں جو دیکھنے کو مِل رہا ہے وہ یہی ہے کہ بڑے پیمانے پر اس بِل کو عوامی اعتبار سے مسترد کر دینے والی خبریں ہیں اور کسی بھی صورت یہ مذکورہ بِل ملکی عوام کو منظور نہیں ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ پورا ملک سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر اترا ہوا ہے اور کم و بیش ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی ہر طبقے سے وابستہ لوگ اس نئے بِل اور نئے قانون کی مخالفت میں بیک آواز کھڑے ہیں، کیرل سے لےکر کلکتہ تک اور دہلی پنجاب سے لےکر آسام، گجرات اور مہاراشٹر تک ایک ہی صَدائے احتِجاج سنائ دے رہی ہے اور عوام و خواص سب کی طرف سے ایک ہی مطالبہ دہرایا جا رہا ہے کہ جب تک اس بِل اور قانون کی واپسی یقینی نہیں ہو جاتی ہم یوں ہی ڈٹے رہیں گے، مگر طاقت و اقتدار کے نشہ میں چور حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے ہیں کہ وہ اپنی ضِد ہَٹ دَھرمِی اور اَنانِیت کا شکار ہو کر ایوانِ سیاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں حالانکہ انہیں اور ان جیسوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب بھی کبھی کسی نے خود کو وقت کا فرعون و شدّاد تصور کیا ہے یا کوئی اپنے آپ کو خدا کی بَسائ ہوئی زمین کا مالکِ حقیقی سمجھنے لگتا ہے تو اس وقت آسمانی خدا کا قہر و غضب جوش میں آتا ہے اور پھر وہ آنِ واحد میں بِگڑے ہوے دِماغوں کی بتِّی روشن کر اسی ملک کے عوام کے ہاتھوں اس انداز سے ذلیل و رسوا کرنے کا اِنتظام کرتا ہے جو آنے والے حکمرانوں اور خود ساختہ نئے اَذہان و اَفکار کے مالک اَفراد کے لئے تازیانہ عبرت و نصیحت بنا کر بِالآخِر ان کو نسیاً منسیا کر دیتا ہے، اور ظلم و بربریت کا یہ دور گزر جانے کے بعد آنے والی نسلیں جب بھی کبھی ان کی اس ظلم و استبداد سے لبریز احوال و کوائف کی روداد دیکھنا یا پڑھنا چاہتیں ہیں تو وہ ان کو ایک تاناشاہ اور ڈکٹیٹر سے کم پر محمول و محسوس کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ملک کو متعدد ایسے مسائِل در پیش ہیں کہ اگر حکومتی اِداروں میں بیٹھے یہ ذمہ داران و افسران ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کے اِرادوں سے ان کا حل نکالنا چاہیں تو بآسانی ہمارا یہ پیارا ملک اور اس کی امن پسند عوام بہت جلد خوشحالی و ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہو جائیں اور اِس وقت پورے ملک میں جو باہمی اَفرا تفری کا ماحول، حکومت کے خلاف انتشار و اختلاف کی آوازیں اور معیشت کے ڈاؤن ہونے کے سبب نوجوانوں میں بےروزگاری، کسان مزدور کے یہاں غربت و اِفلاس کی چادر نے جو پاوں پھیلا رکھے ہیں، ان سب سے خود بخود خٌلاصِی و نجات مِل جائے۔ اور اگر اس کے باوجود بھی کہیں سے کسی طرح کی آواز اٹھتی ہے یا حکومت کے خلاف کسی طرح کی شورش جنم لیتی ہے تو ان کے حل کرنے میں وہی طریقِ کار اپنایا جانا چاہئیے جس کی اجازت ایک جمہوری حکومت اور سیکولراِزم پر مبنی آئین و دستور فراہم کرتا ہو، جہاں عوام کی آواز کو سنا جاتا ہو، ان کے آئینی حقوق اور جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لئے پوری حکومتی لابی کو سَر جوڑ کر بیٹھنا پسند کیا جاتا ہو۔ ورنہ جہاں طاقت کے زور پر ان کی آوازوں کو پَست کرنا اور آئین و دستور کے معارِض اصول و ضوابِط کو اپنا کر ان کو کٌچل دیا جاتا ہو، وہاں کے عوام کو دھرنا مظاہرہ کرنے یا حکومت کے ذریعے لائے گئے عوام مخالف بِلوں کے خِلاف اپنے آئینی حق کو اِستعمال کرتے ہوئے آوازیں بلند کرنے والوں کو پولیس فورس اور حکومت کے پروردہ آوارہ گرد غنڈوں کی مار کھانے اور ان کو جیل میں ڈال دینے کے فیصلے لئے جاتے ہوں، ایسے حکمرانوں کو عوام جلد سبق سِکھا کر گوشہ عافیت اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور قدرت کے اصول کے مطابق ایسی ظالم و جابر حکومتوں کا سورج جلد غروب ہو جاتا ہے، قبل اس کے کہ عوام کوئی فیصلہ لے یا خدائ نظام انگڑائی لے ایوانِ سیاست میں بیٹھے افراد ہوش کے ناخن لیں اور ذاتی مفادات کے حصول اور اپنے مذہب کے فروغ سے تہی دامن ہو کر ایسی پالیسیاں مرتب کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں جو حقیقتاً ملک و قوم کے مفادات میں بہتر و مناسب ہوں اور جن سے یکساں طور پر خلقِ خدا مستفید ہو۔
(رامپور روڈ ٹانڈہ ضلع رامپور یوپی)

Comments are closed.