Baseerat Online News Portal

جوگندر پال:دیدو نادید

حامداکمل،مدیر ایقان ایکسپریس،گلبرگہ
9449439509
جوگندرپال بیسویں اوراکیسویں صدی کے فکشن نگار ہیںبلکہ وہ فکشن نگار نہیں حیاتِ انسانی کے تفسیر نگار ہیں۔اپنے اندر اور باہر بیک وقت جینے والاآدمی ہی جان سکتاہے کہ وہ کب کہاںتھا۔(یا ہے) اندر سے باہر اورباہر سے اندر کا سفر سلسلہ تنفس سے زیادہ مشکل نہیں لگتا۔ سانس لینا یا چھوڑنا یہ داخل سے خارج اور خارج سے داخل کا سفر نہیں ہے بلکہ اس سے ایک بڑا سلسلہ اور معرکہ جنم لیتاہے تسلسل حیات کا ۔اس لیے جب میں جوگندرپال کو باہر دیکھتا ہوں تو وہ چپکے سے اندر چلے جاتے ہیں اور جب میں ان کے فن کے اندر داخل ہو کرانھیں تلاش کرتا ہوں تو وہ اپنے گائو ں کے چوپال کے آس پاس کم سن بچوں کے ساتھ گُڑ کی بھیلی یا املی کا کتارہ چوستے نظرآتے ہیں۔دراصل یہ پوری تاریخ یا تہذیب کو چوسنے کاعمل زندہ رہنے کا عمل ہے جو فوری ختم نہیں ہوتا یا لمحاتی طورپر کبھی رک جاتاہے۔
جوگندر پال کا یہ عمل ان کے عدم وجود کے باوجود ان کی تحریروں میں جاری ہے۔ پال کی دنیا سے رخصتی کے باوجود اپنے فن میں زندہ ہیں تو یہ روزازل ہی سے فن میں سانس لیتے رہے ہیں۔اپنے فن میں اپنی سانس چھوڑ کر مرنایاوجود کی ہمیشگی کا روپ اختیار کرنا صرف جوگندر پال جیسے فن کاروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جوگندر پال اپنی تحریروں میں جیتے تھے آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
فکشن میں معنوی طورپر زندگی گذارنا آسان نہیں ہے،یہ صرف جینوین فن کاروں کا کام ہے۔ منشی پریم چند،دیویندر ستیارتھی،سعادت حسن منٹو کے بعد عصر جدید کے دیگر حساس فن کاروں میں بھی بعض جینئیس فن کار موجود ہیں۔فن ان کی زندگی ہے یا زندگی فن ہے۔
جوگندر پال نے دو صدیوں کے درمیانی حصہ میں اپنی کائنات تخلیق کرنے کی کوشش کی اس درمیانی حصہ کے سب سے بڑے فکشن نگار جوگندرپال ہیں۔
ان کے ناول،ناولٹ،افسانے اورسب سے بڑھ کر افسانچے جو ایک بوند زندگی کے مظہر ہیں، زندگی کے رموز واسرار کی تفسیر ہیں۔عصرحاضر میں ان رموز واسرار کو جوگندر پال سے بڑا مفسر نہیں مل سکتا تھا۔
عصر جدید کے منفرد فکشن نگار پروفیسر حمید سہروردی نے اپنے استادِ محترم ڈاکٹر عصمت جاوید شیخ کی نگرانی میں عرصہ قبل ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیقی مقالہ’ جوگندر پال:شخصیت اور افسانوی فن‘تحریر کیا تھا۔ انھوںنے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے ’جوگندر پال دید ونادید‘تصنیف کی ہے۔ جو ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے بعد سے آخرتک پال کی تخلیقی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔یہ جوگندر پال کے فن پر اعلیٰ ترین تخلیقی تجزیاتی تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ جامعاتی تنقیدکی انتہائوں کو پار کرتی ہوئی فنی وتخلیقی کائنات کی لامحدود وسعتوں کو چھوتی ہے۔حمید سہروردی نے جامعاتی سطح کی تحقیق کے تخلیقی سفر کا بکمال انہماک جائزہ لیاہے۔وہ جوگندر پا ل کے سفر میں ان کے ساتھ کھو نہیں گئے ہیں بلکہ بیچ بیچ میں اپنے تحقیقی نتائج کے ساتھ باہر آتے رہے ہیں۔اس طرح انھوںنے اس کتاب کو مکمل کیاہے۔ یہ کتاب جوگندر پال کے مکمل تخلیقی سفر،اِدھر اُدھر ان کے قیام اورپھر دم لے کر آگے چلنے کی ایک دستاویز ہے۔یہ ان کی سبھی نگارشات کے مطالعہ کاعطرہے۔حمید سہروردی نے افسانوں اورافسانچوں اور ڈراموں کا انتخاب اس کتاب میں شامل کیا ہے وہ بھی ان کی افسانوی فہم اور تخلیقی اونچائیوں تک رسائی کا ثبوت ہے۔
حمید سہروردی نے اپنے پہلے ورق کے آخر میں جوگندرپال کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیاہے:
’’جوگندر پال مثبت فکر کے رائٹر تھے،وہ زندگی کے اثباتی رویے کی طرف مائل تھے۔وہ پورے معاشرے کو پاک وصاف دیکھنے کے قائل تھے۔احترام آدمیت ان کے نزدیک ایک اہم عنصر تھا۔یہ کتاب جوگندر پال کی تخلیقی سرگرمیوں کا ایک مطالعہ بھی ہے اور فنی وفکری امکانات کی تلاش بھی۔‘‘

Comments are closed.