Baseerat Online News Portal

حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے۔۔

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
مدینہ طیبہ مرکز اسلام اور مہبط وحی ہے،جسے خدا وند قدوس نے اپنے پیا رے نبی ﷺکے لیے بطو ر ہجرت گاہ منتخب فر مایا ہے،جو سو ختہ دل عشاق کے لیے قرارِ قلب و جاں اور مجموعی حیثیت سے پناہ گاہِ دین وایماں ہے۔اسی ارض طیبہ سے خلوص وللٰہیت،ایثار وسخاوت،جواںمردی وشجاعت،عزیمت واستقامت کے ایسے شیریں اور روح پرور چشمے پھوٹے؛جن سے عالم انسانیت نے سیرابی حاصل کی،جس کے مطلع ِنور سے علم وفضل کے ایسے آفتاب و ماہ تاب طلوع ہوئے؛جن کی ضیا بار کرنوں سے جہالت وبے دینی کے اندھیرے کافور ہوگئے، جہاں کی مسجد ومکتب سے ایسے نیک طینت تلامذہ کی تربیت کا اہتمام ہوا جن کے انفاس کی گرمی سے مردہ دل اقوام و ملل کو حیات نو ملتی رہی۔یہ وہ مقدس سرزمین ہے جہاں اسلام کی چمن بندی ہوئی،جہاں سے اسلام محفوظ طور پر دنیا کے چپے چپے میں پھیلتا رہا،جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم،آپ کے ہدایت یافتہ خلفاء اور ہزاروں جاں نثار قیامت تک کے لیے آرام فرما ہیں،پھرنبوی پیشین گوئی کے مطابق قرب قیامت ایمان سمٹ سمٹ کر یہیں پناہ گزیں ہوگا۔ایسی بابرکت سرزمین پر فحاشی کو فروغ دینے اورعریانیت کے مراکز قائم کرنے کا منصوبہ(جیساکہ میڈیا کے ذریعہ معلوم ہوا) کس درجہ افسوس ناک، دل و دماغ کوورطۂ حیرت میں ڈالنے والا اور سوہانِ روح و جاں ہے۔
ایک وقت تھا جب سعودی عرب کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سینما ہال کھولنے کی اجازت نہیں،جس کا بنیادی سبب حرمین شریفین کا تقدس اور دنیا بھر کے مسلما نوں کی اس سے جذباتی وابستگی تھا؛لیکن افسوس کہ گذشتہ دنوں سعودی حکومت کی جانب سے ارض مدینہ میں سینما ہال قائم کرنے کا اعلان کیا گیا،خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو؛مگرذرائع کے مطابق نئے منصوبوں کے تحت اس پاکیزہ سرزمین پر 10سینماہالوں کے علاوہ 28 دکانیں، 32 ریستوران اور تفریح کے لیے دو مقامات شامل ہیں،سعودی میڈیا کا کہنا ہے کہ جنوری 2022ء تک ان منصوبوں کی تکمیل ممکن ہے۔
مدینہ منورہ میں سینما ہالوں کی تعمیر کے اعلان کے ساتھ ہی مسلمانوں میںشدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،عالم اسلام کے معروف عالم دین،شیخ الاسلام حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر‘‘امانۃ منطقۃ المدینہ المنورۃ’’کی جانب سے مدینہ منورہ میں سینما ہال کھولنے کے ٹویٹ کے ساتھ ان الفاظ میں اپنے رنج و افسوس کا اظہار کیا کہ’’ اب مدینہ منورہ میں بھی دس سنیما ہال قائم کرنے کا منصوبہ! انا للہ وانا الیہ راجعون! الفاظ اس پر صدمے کے اظہار سے عاجز ہیں، الیس منکم رجل رشید؟‘‘(کیا تم میں کوئی ایک بھی ڈھنگ کا آدمی نہیں؟)۔
واضح رہے کہ ایک نیوز پورٹل(اردو اسلام ٹائمز) کے مطابق سعودی عرب میں 2018ء میں سینما ہال کا باقاعدہ افتتاح ہوا اور گذشتہ صرف تین سالوں کے دوران سعودی عرب کے مقامات پر متعددسینما گھر کھولے گئے، جبکہ آئندہ سالوں میں مزیدسینما ہال کھولنے کا امکان ہے۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق تین سالوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ سینما کے ٹکٹ فروخت کیے گئے،جبکہ جدہ میں میوزیکل فیسٹول کے عنوان سے موسیقی کا میلہ بھی سجایا گیا، جس میں دنیا بھر سے موسیقاروں نے شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈانس فیسٹول دسمبر 2019ء میں منعقد کیا گیا۔ جو 3 دن جاری رہا، اس میں چار لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ 2019ء میں ریسلنگ کا پہلا میچ بھی منعقد ہوا۔ بتلایا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030ء کے تحت ملک کو قدرے آزاد خیال اور عوامی زندگی سے مذہب کا عمل دخل کم کرنے کے لیے اس طرح کے اقدمات کئے ہیں۔
امریکہ کا معتدل اسلام:
آج سے کوئی پندرہ سال قبل امریکہ کے مشہور تحقیقی ادارے (RAND Corporation)نے اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے ایک تازہ ترین رپورٹ پیش کی تھی۔کہاجاتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ کی تیاری میں تین سال کا طویل عرصہ لگا جو۲۱۷ صفحات پر مشتمل ہے اوراس کا عنوان ہے ’’اعتدال پسند مسلم معاشرے کا قیام‘‘ (Building Moderate Muslim Networks) اس رپورٹ میں اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے جس جارحانہ انداز میں زہر افشانی کی گئی ہے وہ امریکہ اور اہل مغرب کے مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کا آئینہ دار ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ عصر حاضر میں مغرب نواز اعتدال پسند مسلم قیادت کو کس طرح ابھارا جائے، مسلمانوں کو ان کے اصلی سرچشمے یعنی قرآن وسنت سے کس طرح برگشتہ کیا جائے، سیکولرزم اور مغربی افکار کو مسلم معاشروں میں کس طرح پروان چڑھایا جائے، وہ کون سے وسائل ہیں جو مسلم نوجوانوں کے دلوں میں ان کے مذہب کے تعلق سے شکوک وشبہات پیدا کرسکتے ہیں، اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جائے کہ ان کی پستی اور زبوں حالی سے نجات صرف اور صرف امریکی اعتدال پسند اسلام کو اپنانے میں مضمر ہے۔مطلوبہ ”اعتدال پسند اسلام” کی یہ لہردرج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
ا۔ شریعت اسلامیہ کو کسی صورت نافذ نہ ہونے دیا جائے۔
۲۔ عورت اپنا فرینڈ‘‘ (نہ کہ شوہر) اختیار کرنے میں آزاد ہو گی۔
۳- مسلم اکثریتی ممالک میں دیگر مذہبی اقلیتوں کو اونچے حکومتی عہدوں پر آنے کا حق حاصل ہو گا۔
۴۔ لبرل تحریکات اور تنظیموں کی حمایت ہو گی۔
۵۔ صرف دودینی یا اسلامی نقطہ نظر قابل قبول ہوں گے:
الف۔ ایک روایتی یار سمی دینداری جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ عام بازار می آدمی کی طرح روٹین کے مطابق نماز وغیرہ پڑھتا رہے، اور اس سے آگے نہ بڑھے۔
ب۔ صوفیانہ دینداری پر مبنی وہ نقطۂ نظر بھی قابل قبول ہے، جو صرف قبروں کی نماز، دعاؤں اور پھول چڑھا کر اپنی دینداری کا قائل ہے۔
لہذا جب تک یہ دونوں نقطۂ نظر اپنی ان رسمی کارروائیوں میں مگن ہیں، اور اپنے اسلاف کی حقیقی روایات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں، تب تک ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
اس تناظر میں غور کیاجائے تو اعتدال پسند اسلام کے حوالے سے محمد بن سلمان نے جتنی کچھ اصلاحات کی ہیں وہ سب مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے رحم وکرم پر مملکت کومزعومہ ترقی سے ہم دوش کرنے کی ناروا کوشش ہے۔
حرمین شریفین وحدتِ ملت کا عنوان:
دینِ اسلام میں ایسی کئی بنیادیں موجود ہیں جو اسلامیان عالم کی وحدت کابیّن ثبوت ہیں، جیسے حرمین شریفین اورحج کے مناسک و اعمال کہ مختلف خطوں اور علاقوں کی تمیز کے بغیر، رنگ و نسل کے امتیاز سے بالاتر اور فرقہ و مسلک کی شناخت سے بے نیاز ہوکر سب ’’لبیک اللّٰہم لبیک‘‘کی صدائیں بلند کیے پراں پراں اور کشاں کشاں حجاز مقدس کا سفر کرتے ہیں، حرمین شریفین وہ نکتۂ وحدت ہے جس کی خاطر پوری اُمتِ مسلمہ ہمہ وقت متحد ہونے کے لیے تیاررہتی ہے۔ حرمین شریفین کے ساتھ احترام و تقدس کے انہی جذبات کی وجہ سے حرمین شریفین کی خادم حکومت، سعودی عرب کے لیے اُمتِ مسلمہ انتہائی احترام و عقیدت کے جذبات رکھتی ہے اور سعودی حکومت کے بعض سیاسی مسائل کو بھی اُمتِ مسلمہ دینی معاملہ سمجھ کر ردِ عمل دیتی ہے۔ پھر چوں کہ بڑی حد تک وہاں اسلامی قوانین کا نفاذ،حجاب و پردے کا اہتمام،فرائض دین کا التزام اور دیگر اسلامی شعائر کا تحفظ امر مشاہد ہے؛اس وجہ سے اس تعلق میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے؛مگر پچھلے چند سالوں سے نئے ولی عہدشیخ محمد بن سلمان مملکت سعودیہ کو بہ زعم خویش جس معتدل اسلام کی کھائی میں جھونک رہے ہیں،وہ اسلام اور اس کی پاکیزہ تعلیمات کے ساتھ گھناؤنا مذاق اور درپردہ دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی مذموم سازش ہے؛جس کا اندازہ درج ذیل نئی اصلاحات و ترمیمات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے،بہ ایں سبب اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس سلسلے میں کھل کر احقاق حق کیا جائے،سعودی حکومت کو آئینہ دکھایا جائے اور مسلمانوں کو ان منصوبہ بند سازشوں سے آگاہ کیاجائے۔
سعودی عرب تازہ ترین اصلاحات کے آئینے میں:
21/جون 2017ء کوسعودی حکم راں شاہ سلمان نے ولی عہد محمد بن نائف کو تمام عہدوں سے بر طرف کرتے ہوئے اپنے 31 سالہ صاحبزادے محمد بن سلمان کو ولی عہد اور وزیر دفاع مقرر کیا اور نائب ولی عہد کے فرمائشی عہدہ کو ختم کر دیا-(ڈان نیوز 6/نومبر 2017) محمد بن سلمان کی ولی عہدی سے لے کر آج تک مملکت میں کم و بیش ہر شعبہ ہائے زندگی میں غیرمعمولی اصلاحات ہو چکی ہیں۔چند قابل ذکر اصلاحات ذیل میں مذکور ہیں:
26 ستمبر 2017:ایک شاہی فرمان کے ذریعے خواتین کی ڈرائیونگ پر عشروں سے عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا۔
24 اکتوبر 2017:ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ’فیوچر انویسٹمنٹ‘ کی افتتاحی تقریب میں عہد کیا کہ وہ مملکت کو معتدل اسلام کی طرف واپس لائیں گے۔
18 اپریل 2018:سینما پر 35 سالہ پابندی ختم کر کے ریاض میں پہلا کمرشل مووی تھیٹر کھولا گیا اور ’بلیک پینتھر‘ فلم دکھائی گئی۔
10 مئی 2018:سعودی عرب نے پہلی مرتبہ کینز فلم فیسٹیول میں شرکت کی۔
12 جنوری 2018:سعودی عرب میں فٹ بال کی شائقین خواتین کو پہلی دفعہ جدہ میں ہونے والے میچ میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
29 جولائی 2019:ایک شاہی فرمان کے ذریعے خواتین کے سفر پر لگی پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ 21 سال یا اس سے بڑی عمر کی خواتین کو کچھ ہی دن بعد خود مختارانہ سفر کی اجازت مل گئی۔
20 اپریل 2020:مملکت کی عدالتِ عظمیٰ نے کوڑوں کی سزا ختم کر دی۔
خلاصۂ کلام:
سعودی عرب کی حکومت کوچاہیے کہ وہ ارض حرمین کو اس طرح کی گندگی اور نحوست سے پاک رکھے،اپنے آبا کی اسلام کے تئیں قربانیوں کو یادکرے اور مغرب کی مکاری و عیاری کو سمجھنے کی کوشش کرے؛اس لیے کہ نبی پاک ﷺکا ارشاد ہے: میرے رب نے مجھے گانے بجانے کے آلات نیز مزامیر یعنی بانسری وغیرہ کو مٹانے اورختم کرنے کا حکم دیاہے۔(مسند احمد) آل سعود کی حکومت اس بات کو سمجھے کہ مکہ اور مدینہ مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اور امت مسلمہ کا مشترکہ سرمایہ ہے، کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔ بلاشبہ امت مسلمہ اسلام کے مقدس ترین شہر کی حرمت کی توہین پر خاموش نہیں رہے گی اور نہ رہنا چاہیے۔
اخیر میں ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم کے ان معنی خیزاشعار پر گفتگو ختم کرتا ہوں ؎
ہمیں تاریخ پھر افسانۂ عبرت سناتی ہے
یہ امت اکثر اپنوں ہی کے ہاتھوں چوٹ کھاتی ہے
وہی دیتے ہیں دھوکا رہنما جن کو بناتی ہے
مزار ِحضرت اقبال سے آواز آتی ہے
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
کلیم اب کیا جیو گے ڈوب مرنے کا مقام آیا

Comments are closed.