Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا ولی رحمانی بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

عاقل حسین
موبائیل۔9709180100
میل۔[email protected]

اللہ پاک دنیا میں اپنے بندوں کو بھیجتا ہے تو اس کی رہنمائی کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے رہنما کوبھی بھیج دیتا ہے جو اپنی قوم وملت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ کی بھی فکر کرسکے اور قوم وملت کے ساتھ ملک و وطن کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرے۔ ایسی ہی شخصیت کےحامل آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے امیر شریعت اور سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی بھی تھے، مولانا رحمانی ایک فرد اور ایک شخض نہیں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔ان کے دم قدم سے کئی اداروں میں زندگی کی تب و تاب تھی جنہوںنے سیاست سے لیکر معاشرت تک ہر حلقہ اور ہر شعبہ میں ایک الگ مثال قائم کر دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ مولانا رحمانی ریاست بہار کے مونگیر کی سرزمین پر 5؍جون 1943؍ کو پیدا ہوئے۔ انھوںنے ابتدائی تعلیم خانقاہ رحمانی مونگیر میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ دارالعلوم سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا لوٹے اور اس کے بعد تلکا مانجھی بھاگل پور یونیورسٹی سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ ایسے اوصاف کے حامل تھے جنہوںنے دینی حلقہ کے ساتھ ساتھ صحافت اور سیاست میں بھی منفرد شناخت قائم کی۔ یہی وجہ تھی کہ ایٹمی سائنٹسٹ بھارت رتن سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام بھی ان کے دیوانہ تھے۔ اے پی جے عبدالکلام 31؍مئی 2003؍ کو خانقاہ مونگیر آئے اور انہوںنے جامعہ رحمانی کی چار منزلہ تعلیم گاہ کا فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا۔ اس کے بعد خانقاہ کے کتب خانہ میں تقریباً 1؍گھنٹہ تک رکے۔ اس دوران اے پی جے عبدالکلام نے خانقاہ کے لائبری میں رکھی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مولانا ولی رحمانی سے کافی دیر تک بات چیت کی اور ان کے افکار و خیالات اور ان کے تعلیمی اور تعٹیری وژن سے بہت متأثر ہوئے۔ کلام صاحب نے سائنسی شعبہ میں مہارت حاصل کر رکھی تھی مگر مولانا ولی رحمانی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اور میدان صحافت اور سیاست میں بھی کافی عبور رکھتے تھے۔ انھیںخدا نے بے انتہاء صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ حضرت مولانا ولی رحمانی سال 1965؍ میں ہفتہ واری میگزین ’نقیب‘ کے ایڈیٹر بنے۔ جامعہ رحمانی میں 1966؍ سے 1977؍ تک تدریسی خدمات انجام دی۔ پرنسپل کی حیثیت سے انہوںنے جامعہ رحمانی کو نئی بلندی تک پہنچایا۔ سال 1974؍ سے 1994؍ تک مولانا ولی رحمانی بہار قانون ساز کائونسل کے رکن رہے۔ وہ سال 1984؍ اور 1990؍ میں دو مرتبہ قانون ساز کائونسل کے ڈپٹی اسپیکر بھی بنے۔ قانون ساز کائونسل کا ممبر رہتے ہوئے انہوںنے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے پسماندہ وکمزور طبقات کے لئے آواز بلند کی۔والد بزرگوارکے بعد سال 1991؍میں جامعہ رحمانی کے سرپرست اور خانقاہ رحمانی کےسجادہ نشیں بنائے گئے۔سجادہ نشیں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکا تہم کو مولانا نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد 29 ؍نومبر2015 میں امارت شرعیہ کے امیر شریعت کیلئے ایسے وقت میں منتخب کیا گیا جب پورا ملک فسطائی طاقتوں کے نشانہ پر تھا۔ سال 1991؍ تا جون 2015؍ تک مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری رہے۔ جون 2015؍ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے کارگذار جنرل سکریٹری رہے۔ اپریل 2016؍ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کےجنرل سکریٹری بنائے گئے۔ اس کے بعد وہ تاحیات مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے۔
مولانا ولی رحمانی نے ملک اور معاشرہ کو صحیح سمت دینے کیلئے کئی کتابیں بھی لکھیں جس میں ’شاہ ولی اللہ کی سوانح حیات، بیعت عہد نبوی، آپ کی منزل، دینی مدارس، صنعتی تعلیم کا مسئلہ، سماجی انصاف، عدلیہ اور عوام، مرکزی مدرسہ بورڈ اور اقلیتوں کی تعلیم، لڑکیوں کا قتل عام، شہنشاہ کونین کے دروازہ پر، حضرت سجاد مفکر اسلام‘ وغیرہم شامل ہیں۔ مجموعہ رسائل: رحمانی خطبہ ولی، اصلاحی معاشرہ کی شاہراہ، پرسنل لا بورڈ اور ہندوستانی قانون‘ وغیرہم شامل ہیں۔ حضرت مولانا ولی رحمانی نے غریب اور اقلیتی طبقے کے طالب علموں کے لئے انجینئرز، ڈاکٹر، وکیل اور جج بننے کے خواب کو نئی اُڑان دی۔ اس کے لئے انہوںنے سال 2009؍ میں پٹنہ میں ’رحمانی-30‘ کی شروعات کی اور اس کے بہتر نتائج بھی سامنے آئے۔ اس ادارے میں پڑھ کر کثیر تعداد میں طالب علم کامیاب ہوئے۔ رحمانی-30؍ میں بچوں کے قیام، طعام اور کوچنگ کے مفت انتظامات ہیں۔ آئی آئی ٹی اور چارٹر اکائونٹینٹ کی تیاری کرنے والے طالب علموں کے لئے سال 2012؍ میں خصوصی انتظامات شروع کئے گئے۔ سال 2013؍ میں غریب مسلم طالب علموں کے میڈیکل، وکیل اور ججز وغیرہم مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کے لئے بھی مفت کوچنگ کی سہولت فراہم کی گئی۔ حضرت مولانا ولی رحمانی کی کوششوں کے سبب کئی غریب اور نادار طالب علموں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا۔ حضرت نے سال 2002؍ میں مدارس کی حفاظت کے لئے مہم بھی چلائی تھی۔ اس کے لئے مدرسہ اسلامیہ مونگیر میں قومی کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس کا اثر پورے ملک میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد حضرت نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ’دیش بچائو آئین بچائو‘ کے موضوع پر بڑی کانفرنس منعقد کی تھی۔ حضرت کو کئی بڑے ایوارڈ بھی ملے جس میں ’بھارت جیوتی ایوارڈ‘ راجیو گاندھی ایکسلینس ایوارڈ‘ شکشا رتن ایوارڈ‘ سرسید ایوارڈ‘ امام رازی ایوارڈ‘ کے ساتھ ساتھ کولمبیا یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔ اتنا ہی نہیں‘ حضرت کو آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی خطاب کے لئے مدعو کیا تھا۔ حاصل کلام یہ کہ حضرت مولانا ولی رحمانی ایسی شخصیت تھی جن کی خدمات اور کارناموں کا دائرہ کئی میدان تک پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے قدیم و جدید دونوں حلقوں میں اپنی شناخت قائم کی اور مسلم و غیر جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال اشخاص و افراد نے بھی ان کی صلاحیت کا اعتراف کیا۔ وہ ایک بہترین مقرر بھی، ان کے خطاب سے کئی لوگوں نے بے راہ روی سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہوئے غلطیوں کی اصلاح کی اور نیک راستے پر چلنے لگے۔انھوں نے طلاق و نکاح اور جہیز جیسی غیر اسلامی رسومات کے خلاف بھی ملک گیر مہم چلائی اور پورے ملک میں اس خلاف جلسہ اور کانفرنس منعقد کی۔ ان کے اٹھ جانے سے ملت اسلامیہ ایک سپوت سے محروم ہوگئی ہے، ایک ایساسپوت جو ہر محاذ پر خطرات و خدشات کے سامنے سد سکندری کا رول اداکرتا تھا۔ان کی وفات سے ملت اسلامیہ کو یتیمی کے احساس سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ان کی وفات ایک ایسا خلا ہے، جس کی تلافی بظاہر مشکل نظر آتی ہے۔ وہ اس شعر کا مصداق تھے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Comments are closed.