Baseerat Online News Portal

حق گوئی وبے باکی کے تاجدارحضرت ولی

 

محمد نافع عارفی

کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار

رابطہ نمبر:9304145459

سورج توروزغروب ہوتا ہے،شام تو روز ہی ہوتی ہے،لیکن کوئی شام ایسی ہوتی ہے جس کے دامن میں ایک تاریخ سماجاتی ہے،ایک عہد کا سورج ڈوبتا ہے،علم وفن کی کرنیں سمٹ جاتی ہیں،ایک زمانہ اپنادورپورا کرتا ہے،بہت ساری امیدیں دفن ہوتی ہیں،ہمت جواب دے جاتی ہے،بہت سے مضبوط دل و دماغ والے بھی دل گرفتہ اورپژمردہ ہوجاتے ہیں،عالم ہستی پر سنناٹا سا چھا جاتا ہے،ایسا ہی کچھ 3/اپریل 2021مطابق 20شعبان 1442ھ کو ہوا،جب حرکت وعمل،فکرونظر،قلم وزبان،سیاست وتصوف،ذکروفکرکا آفتاب دن کے اجالے میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا،یعنی حضرت منت کے سچے جانشین،قطب عالم حضرت محمد علی مونگیری کے علم و ہنر کے وارث،ان کی فکرونظرکے امین حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے اس دنیا کو الوداع کہا اوررفیق اعلی کے دامن میں ہمیشہ کے لیے پناہ لی۔اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند کرے،ان کے زلات کو حسنات میں بدل دے اورملت کو ان کا غم سہنے کی سکت عطا کرے۔

جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ حضرت ولی ایک عظیم خانوادہ کے فر دفرید اورعظیم باپ کے لائق وفائق بیٹے تھے،ان کاامتیاز جرأت وبے باکی اورحق کے معاملے میں دوٹوٹ اوربے لاگ موقف اپنا ناتھا،اللہ تعالی نے مولانا کو جہاں بہت سارے اوصاف حمیدہ سے نوازاتھا،وہیں ایک خاص صفت جو انہیں دوسروں میں ممتاز بناتی ہے،ان کا قوت فیصلہ تھا،وہ پوری قوت سے کسی بھی معاملہ میں فیصلہ لیا کرتے تھے،اس سلسلے وہ کسی کی پرواہ نہیں کیا کرتے تھے،اورہمیشہ اپنے فیصلے کی پشت پناہی فرمایا کرتے تھے،یہ الگ سی بات ہے کہ کبھی کبھی ان کے فیصلے بہت سارے اہل فکر ونظرکی رائے کے موافق نہیں ہواکرتے تھے،لیکن مولانا رحمانی اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے،وہ جس بات کو حق جانتے تھے اس کا اظہا رپوری جرأت سے کیا کرتے تھے اوراس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت انہیں کبھی پیچھے ہٹنے پرمجبور نہ کر سکی۔

حضرت مولاناسیدمحمد ولی رحمانی ایک علمی خانوادہ میں -جس کا اقبال پورے برصغیرمیں آفتاب نصف النہار کی طرح بلند تھا- 5/جون 1943کو پیدا ہوئے،انہوں نے اپنے عظیم باپ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے آغوش تربیت میں اپنا بچپن گزارا، حضرت امیرشریعت رابع کی گود ان کی پہلی درسگاہ اوران کا جامعہ ان کا پہلا مدرسہ تھا،جن کے صحن میں مولانا نے علم وفکر کی منزلیں طے کیں،علم کی پیاس نے شدت اختیار کی تواپنے داداجان کے خوابوں کی تعبیر دارالعلوم ندوۃ العلماء پہونچے اوریہاں وقت کے ممتازعلماء اوراہل فن کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا،ندوہ میں اپنے دل ودماغ کو جلا بخشنے کے بعد ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن اورہندوستان ہی نہیں،بلکہ برصغیرمیں شریعت اسلامی کامحافظ یعنی فکرونظرکا تاج محل دارالعلوم دیوبندکے قافلہ ئ علم میں شامل ہو گئے،اورعلوم اسلامی اوربطورخاص علم حدیث سے اپنے سینہ ئ دل کو معمورکیا،یوں تومولانا رحمانی راہ علم کے ان مسافروں میں تھے،جن کا علمی سفر آخری سانس تک جاری رہا،لیکن 1961میں دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور1964میں دارالعلوم دیوبند سے رسمی طورپر علم کی تکمیل کی سند حاصل کی،ندوہ نے انہیں زبان ہوشمند اوردیوبند کی روحانی فضا نے انہیں دل ارجمند سے نوازا،رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد 1967میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ جامعہ رحمانی مونگیرمیں اپنے مسند درس سجائی اورعلم وسنت کے جام چھلکائے،جامعہ رحمانی مونگیر کے دارالافتاء کو بھی آپ نے عزت بخشی،آپ کے فتاوے آپ کی فقہی بصیرت اورفقہ اسلامی قرآن وسنت پرگہری نظر اورعمیق مطالعے پر شاہد عدل ہیں،1969میں جامعہ رحمانی کے ناظم بنائے گئے اوران کے دورنظامت میں ہی جامعہ رحمانی نے ملکی شہرت حاصل کی،آپ اس کے نظام میں نت نئے تجربے کئے اوراسے جدید تقاضوں سے آراستہ کیا،ادھراخیر کے سالوں میں جامعہ رحمانی کی درس گاہوں کوٹکنالوجی سے آراستہ کیا،اوروہ تمام چیزیں مہیاکرائیں،جو عصرجدید کاتقاضہ ہے،مولانا رحمانی کی تشنگی علم ابھی بھی باقی تھی توانہوں نے 1970میں ایم اے کیا۔

شاعر اسلام حکیم ودانا اقبال نے کہا تھا:

جلال بادشاہی ہو،کہ جمہوری تماشا

جداہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

امیرشریعت ؒ درکف جام شریعت،درکف سندان عشق کی عملی تفسیر تھے،انہوں نے سیاست کو دین کا ایک جزجانا،چنانچہ سیاست کو چنگیزی سے بچانے کی غرض سے 1974میں مجلس مقننہ کی رکنیت کا حلف اٹھایا،تقریباً 22/سالوں تک ایوان حق وانصاف کی آوازبلندکی،وہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے،ایک ماہر سیاست داں اورعوامی نمائدے کے طورپر بہار کی سیاست میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،سیاست کا دنگل ہویاخانقاہ کی روحانی مجلس،علم وہنرکی انجمن ہویا فکرونظرکی بزم ہر مجلس میں میرمجلس،ہر جگہ سب میں نمایاں،سب سے ممتاز،وہ دوستوں کی محفل میں حریرودیباج کی طرح نرم،تو باطل کے لیے شمشیرآبدارتھے،ان کی گھنگرج سے ایوان سیاست میں زلزلہ برپا ہوجاتا تھا،حضرت رحمانی کا ایک اہم وصف یہ تھا کہ انہوں نے کبھی مصلحت کی چادرمیں حق کی آوازدبنے نہ دی،بلکہ وہ حق بات پورے اعتماد اوروثوق کے ساتھ ہر اسٹیج پر دہرانے کے عادی تھے،ان کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مکمل تصویرپورے طورپر تھی،اس لیے انہوں نے صلح حدیبیہ کے وسیلے سے کبھی بزدلی کا پاٹھ نہیں پڑھایا،راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد کے بین الاقوامی سیرت سیمنار کے پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا:

”کہ صلح حدیبیہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک صفحہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ بدرواحد،حنین وخندق کابھی درس دیتی ہے،اس لیے صلح حدیبیہ کے دامن میں بزدلی کوبڑھاوامت دیجئے،بلکہ ضرورت پڑے تو فضاء بدواحد پیدا کیجئے“۔

بات کہاں سے کہاں نگل گئی،میں تو ذکر ان کی زندگی کے تابندہ نقوش کا ماہ وسال کے اعتبار سے کررہا تھا،تومولانارحمانی نے 1974ہی میں جامعہ رحمانی مونگیرکے ترجمان صحیفہ کی ادارت بھی سنبھالی،اس کے اگلے سال 1975میں زیارت حرمین شریفین کا فرض اداکیا،1979میں روس کا علمی سفرکیا،1984میں پٹنہ سے ”روزنامہ ایثار“جاری کیا،اسے صرف ایک اخبارکیوں کہئے یہ تو مولاناآزادکے”الہلال والبلاغ“کا نیا ایڈیشن تھا،ایک بے باک اخبار جو ملکی اورملی مسائل پر حکومت کی سخت گرفت کیا کرتا تھا،1991میں آپ خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین بنے،2005میں حضرت ا میرشریعت سادس مولانا سید نظا م الدین ؒ نے آپ کو اپنا نائب بنایا،پھر 29/نومبر2015کو حضرت مولانا سید نظام الدینؒ (وفات 17/اکتوبر2015)کی وفات کے بعد دارالعلوم رحمانی ارریہ میں ارباب حل و عقد کے تاریخی اجتماع میں آپ کو بالاتفاق امیرشریعت منتخب کیا گیا۔

راقم الحروف کا حضرت مولانا رحمانی کے خانوادے سے گہرا قلبی ربط رہا ہے،حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے داداجان بانی ندوہ،قطب زماں حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری ؒ اوراس حقیر کے پردادا قطب عالم حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری حضرت مولانا فضل رحماں گنج مرادآبادی کے فیض یافتہ تھے،سیرت محمد علی مونگیری کے مصنف کے مطابق مولانا مونگیری کے سب سے ممتازاورچہیتے خلیفہ حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری ہی تھے،پھر حضرت مولانا رحمانی کے والد محترم امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کی روحانی تربیت حضرت مولانا عارف ہرسنگھ پوری ہی کے ہاتھوں ہوئی،حضرت امیر شریعت رابع کو خلاف و اجازت حضرت ہرسنگھ پوری ہی سے حاصل تھی،جس کا ذکر خودحضرت امیر شریعت رابع نے اپنی کتاب ”حیات عارف“میں کیا ہے،حضرت ہرسنگھ پوری نے اپنے شاگرد خاص اورخلیفہ حضرت امیرشریعت رابع کے لیے تصوف میں ایک کتاب ”کلید معارف“کے نام سے لکھی ہے،یہ کتاب بطورخاص حضرت امیر شریعت رابع کے لیے لکھی گئی تھی،الحمد للہ ”حیات عارف،و”کلیدمعارف“دونوں ہی ایک ہی ساتھ اس حقیر کے تحقیق واضافہ کے ساتھ معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور سے شائع ہو چکی ہے۔حضرت امیر شریعت سابع مرحوم اس حقیر کے والد ماجد حضرت مولانا محمد سعد اللہ صدیقی قاسمی مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول سے بڑئی محبت فرماتے تھے،مدرسہ رحمانیہ کی ذمہ داری جبراًوالد محترم کے سپرد یہ کہتے ہوئی کی کہ یہ آپ کے باپ داداکا لگایا ہوا پودا ہے،اگر آپ اسے نہیں سنبھالیں گے تومیں بھی سرپرست وصدرنہیں رہوں گا،والد محترم جب بھی جامعہ تشریف لے جاتے تو حضرت بڑی محبت واحترام واکرام کا معاملہ فرمایا کرتے تھے،حضرت امیر ؒ باربارہرسنگھ پوربھی تشریف لائے اورجب بھی تشریف لاتے ہم لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک فرماتے جیسے وہ اسی خانوادے کے فرد ہوں۔

حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی پورے ملک میں ایک بے باک قائد اورمفکرکی حیثیت سے پورے برصغیر میں اپنی ممتاز شناخت رکھتے تھے،ان کی علمی،تصنیفی وتالیفی،سیاسی وسماجی اورملی خدمات قیات تک یاد رکھے جائیں گے،ان کے سینے میں ملت کے لیے دھڑکنے والا دل تھا،وہ ہر گھڑی امت مسلمہ کی سرفرازی کے لیے سرگرم عمل رہا کرتے تھے،آپ قلم گوہربارسے متعدد کتابیں اورسینکڑوں مضامین نکلے،ان کتابوں میں مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم،بیعت عہد نبوی میں،شہنشاہ کونین کے دربارمیں،حضرت سجادمفکر اسلام،یادوں کا کارواں،تصوف اورحضرت شاہ ولی اللہ وغیرہ اپنے موضوع پر بڑی وقیع علمی کتابیں ہیں۔

یہ دنیا بے ثبات ہے،اس کے مقدرمیں فناء ہے،دنیا کی ہر شے ایک دن ختم ہوجائے گی،جوآیا ہے اسے جانا ہے،جوزندہ ہے اسے مرناہے،باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے،اللہ ہی کا احسان ہے جوکچھ اس نے عطا کیا ہے اوراللہ ہی پر صبر ہے جو اس نے لے لیا ہے اورہم تو اللہ کے فیصلے سے ہر حال میں راضی ہیں،سواللہ کافیصلہ ہوا اورحضرت ولی ہم سے جدا ہو گئے،اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند کرے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ کو اپنے شایان شان بدلہ عطافرمائے اورپوری ملت کی طرف سے انہیں جزاء خیر عطافرمائے نیز ملت کو ان کے غم کو سہنے کی سکت اوران کا نعم الدل عطا فرمائے۔

Comments are closed.