Baseerat Online News Portal

خارجہ پالیسی: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں  ؟ (دوسری قسط)

 

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر   مودی ایودھیا میں جس وقت  بھومی پوجن میں کررہے تھے  سری لنکا   میں انتخاب ہورہا تھا۔ دوسرے دن  پارلیمانی انتخابات کے نتائج  مودی جی کے لیے بری خبر لے کر آئے  کیونکہ  وزیر اعظم مہندا راج پاکسے کی زیرقیادت سری لنکا پڈوجانا پیرامونا (ایس ایل پی پی) نے  زبردست فتح  حاصل  کرلی ۔ 225 نشستوں کے لئے ہونے والے الیکشن  میں ایس ایل پی پی نے 145 نشستوں پر جیت درج کرکے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی ۔اس کی حامی جماعتوں کو بھی 5نشستیں ملی ہیں۔حزب اختلاف کے رہنما ساجت پریمداسا کی زیرقیادت سماگی جن بلاوگایہ (ایس جے بی) کو 54 نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور  تامل سیاسی جماعت  ایٹاک کو صرف   10 سیٹیں ملیں۔

 پچھلے سال نومبر کے صدارتی الیکشن میں وزیر اعظم کے بھائی  گوٹابایا راج پاکسے منتخب ہوئے تھے۔  وہ ایک سخت گیر ریٹائرڈ سینیئر فوجی افسر ہیں  اور موجودہ   وزیر اعظم مہندا راج پاکسے کے دور صدارت میں سیکرٹری دفاع بھی  رہ چکے ہیں ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے  سری لنکا  میں راج پاکسے خاندان کا بول بالہ ہے۔ نومنتخب صدرنے اس سال مارچ میں اپوزیشن کی اکثریت والی پارلیمان توڑ دی اور  نئے الیکشن کا اعلان کر دیا ۔ یہ انتخابات25 اپریل کو ہونے تھے  لیکن کورونا کی وبا کے باعث اس  5اگست کو منعقد ہوئے  ۔ ایک زمانے میں نیپال کی طرح سری لنکا بھی ہندوستان  کا اہم  پڑوسی اور تجارتی و سفارتی حلیف تھا  لیکن تامل باغیوں کے معاملے میں مبینہ بھارتی مداخلت سے دونوں ملکوں کے تعلقات  کشیدہ ہوگئے ۔ مہندا راج پاکسے کے پچھلے دور اقتدار میں انہوں نے معاشی اور فوجی مراسم میں ہندوستان پر چین کو  ترجیح دی۔ اسی دور میں سری لنکا نے چین کے تعاون سے ایک بڑی بندرگاہ کا کام شروع کیا۔ بعد میں حکومت اپنے حصے کی ادائیگی نہیں  کر سکی اور 2017 میں  بندرگاہ کا کنٹرول ایک چینی کمپنی کے ہاتھوں میں چلا گیا ۔

مہندا راج پاکسے  2015کی اپنی انتخابی   ہار کے لیےہندوستان کو  ذمہ دار مانتے  ہیں ۔ اس بار وزیر اعظم مودی  نے راج پاکسے کے دوبارہ منتخب ہونے پر  مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک  مل کر باہمی تعلقات  اورخصوصی روابط کو عظیم بلندیوں پر پہنچا ئیں گے۔  اس کا مثبت جواب وزیر اعظم راج پاکسے کی جانب سے بھی  آیا ہے  لیکن  گزشتہ  نومبر کے صدارتی انتخاب کے بعد بھی  یہ ہوا مگر بات آگے نہیں بڑھ سکی ۔ چین ایک ایک کرکے   ہندوستان کے  حلیفوں پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔ نیپال کے بعد   اس نے دوسرے  سب سے بڑے حلیف بنگلہ دیش کو بھی بڑی حدتک اپنا ہمنوا بنالیا ہے ۔ اس  مقصد کے حصول کی خاطر چین نے    معیشت کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے عالمی کساد بازاری کے اس دور میں  بنگلہ دیش کی  کئی مصنوعات پر  ٹیکس ختم کردیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین کو بنگلہ دیش کے اندر اربوں ڈالر  ٹھیکے  مل گئے ۔ ان میں سلہٹ  کے ہوائی  اڈ ے کی تعمیر کا پروجیکٹ  بھی شامل ہے۔ہندوستان کی  سرحد سے قریب   یہ ایک  حساس علاقہ ہے ۔ ہندوستانی حکومت کے اعتراض  کی پروا کیے بغیربنگلہ دیش نے  وہ ٹھیکہ چینیوں کو دے دیا۔

بنگلہ دیشی  اخبار بھوریر کاگوج کے مطابق  پچھلے سال  وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے  تمام بھارتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔  اس کےبرعکس    چینی انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ چین کی  نیپال والی حکمت عملی بنگلہ دیش میں بھی اپنا اثر پذیری  دکھا رہی ہے۔مودی سرکار کے لیے  بنگلہ دیش کا دورہوکر چین کی گود میں چلا جانا  اس قدر  اہمیت کی حامل  نہیں ہے مگر پاکستان سے  اس کی قربت بے حد   تشویشناک  ہے۔ گزشتہ سال  نومبر میں بنگلہ دیش کے لیے  ہندوستان سے  پیاز کی برآمد معطل ہو گئی ،  اس  کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان سے پیاز  برآمد کرنا شروع کردی  ۔ پچھلے 15 سال میں  یہ پہلا موقع تھاکہ جب  بنگلہ دیش نے پاکستان سے کوئی زرعی جنس درآمد کی تھی ۔    ایک طرف بنگلہ دیش معاشی سطح پر چین اور پاکستان کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے اور دوسری جانب ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات سردمہری کا شکار ہورہے ہیں ۔   بنگلہ دیش کے ایک معروف اخبار نے حال میں یہ حیرت انگیز  انکشاف کیا کہ  وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ہندوستانی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود گزشتہ 4 ماہ  میں ملاقات  کا شرف نہیں بخشا  ۔ ہند بنگلہ تعلقات میں کشیدگی کا یہ بھی ایک  کھلا مظہر یہ بھی  ہے کہ  حکومتِ ہند   نے کورونا کے خلاف جنگ  میں بنگلہ دیش کو جو مدددی اس کو سراہنے تک کی زحمت گوارہ  نہیں کی گئی  ۔

بنگلہ  دیش اور  ہندوستان کے  تعلقات  میں بگاڑ  کے اسباب  معاشی کم اور  سیاسی زیادہ  ہیں ۔  اس کی  بنیادی وجہ  متنازع شہریت ترمیمی بل اور شہریت کا قومی  رجسٹر (یعنی سی اے اے اور این آرسی) ہے۔  مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو شکست دینے کی خاطر امیت شاہ سمیت  بی جے پی رہنماؤں نے دستاویزات سے  محروم  مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیجنے کی دھمکی دینا شروع کردی ۔ اس سے بنگلہ دیش کے کان کھڑے ہوگئے  ۔ پڑوسی ممالک میں  عتاب کا شکار  اقلیتوں  کو ہندوستان لانے  کی پیشکش پر  بھی بنگلہ دیش نے بگڑ کر کہا    کہ ان کے ملک میں  ہندو  معتوب نہیں ہیں ۔  اس کے بعد بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے بہانہ  بناکر اپنا دورہ ٔ ہندملتوی کردیا ۔بنگلہ دیش کو اس بات کا قلق  ہے کہ اس نے تو شمال مشرقی ہندوستان   کے عسکریت  پسند وں کو اپنی سرزمین پر پناہ  دینے کے بجائے گرفتار کرکے   ہندوستان  کے حوالے کردیا لیکن  اس کے عوض حکومت ِ ہند نے  تیستا اور دوسرے دریاؤں کے پانی تک پر معاہدہ کرنے میں پیش رفت  نہیں کی ۔ امفان سیلاب کے وقت بھی حسینہ نے اپنے ہم منصب  مودی کے بجائے ممتا سے گفت و شنید کی تھی  ۔   

بنگلہ دیش  کو یہ شکایت  بھی ہے کہ  روہنگیا مہاجرین کے معاملے میں ہندوستان میانمار  کی حمایت کرتا ہے ۔ اس معاملے میں پاکستان نے بنگلہ دیش کی جانب  دستِ تعاون  بڑھایا ہے ۔ اس تناظر میں شیخ  حسینہ واجد کی  عمران خان کے ساتھ غیر معمولی فون کال  ذرائع ابلاغ میں موضوعِ گفتگو بن گئی۔ ڈھاکہ نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات نہیں  دیں لیکن پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی نے بتایا کہ عمران خان نے شیخ حسینہ کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا اور تنازع کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔اخبار ہندو نے لکھا کہ ہندوستان نے  ڈھاکہ کے کشمیر کو داخلی معاملہ سمجھنے والے موقف کو سراہا۔ دوران ِ گفتگو عمران خان نے  بنگلہ دیش میں کووڈ 19 کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور سیلاب کی تباہی پر افسوس جتایا۔ ان رسمی باتوں سے ہٹ کراس رابطے کا  سب اہم پہلو  یہ ہے کہ عمران   خان نے شیخ حسینہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔

 شیخ حسینہ اگر پاکستان جاتی ہیں تو یہ کسی بنگلہ دیشی سربراہ کا پہلا دورہ ہوگا ۔ یہ   اس لیے غیر معمولی پیشکش ہے کہ اس سال کے  اوائل  تک بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان میں ٹسٹ میچ کھیلنے سے کترا رہی تھی  اور آئی سی سی کے دباو کی وجہ بحالت مجبوری راضی ہوئی  تھی اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ  ۷ ماہ بعد بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جائے گی۔یہ تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوگئی بلکہ اس کے لیے منصوبہ بند  سفارتی  کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں 20 ماہ کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی سفیر کی خالی اسامی پر عمران احمد صدیقی کا تقرر ہوا۔  اس کے بعد سے وہ مسلسل اپنے کام میں لگے رہے یہاں تک کہ  یکم جولائی کو بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کو  بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے محتاط انداز میں  ایک ‘غیر رسمی ملاقات’  قرار دیا گیا ۔ پاکستانی سفیر نے اس کے بعد   کہا تھا کہ ‘ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کے ساتھ تمام شعبوں میں ایک مضبوط رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تاریخ، مذہب اور ثقافت مشترک  ہے۔‘ یہ بیان اس بنگلہ دیش بنانے کے پیچھے کارفرما نظریہ کو سیندھ لگانے والا تھا۔ شیخ حسینہ اور عمران خان کے درمیان رابطہ ہموار کرنے والے سفیر عمران احمد صدیقی    کے مطابق   سربراہان کی اس گفتگو میں ‘آگے کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں اطراف سے باہمی تعلقات میں مزید بہتری لانے پر اتفاق ہوا ہے۔‘ یعنی یہ دیرپا منصوبے کا حصہ ہے۔

 جنوب مشرقی ایشیا میں ہندوستان یکے بعد دیگرے  اپنے حلیف گنوا رہا ہے۔ امریکہ کے دباو میں آکر مودی جی نے اپنے قدیم بہی خواہ  ایران سے تعلقات خراب کرلیے ۔  چین نے اس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو چاہ بہار سے الگ کروادیا ۔ اس طرح  گوادر کے خلاف جس  حکمت عملی  میں منموہن سنگھ نے  کامیابی حاصل کی تھی اس کو ضائع کردیا گیا۔ چاہ بہار سے باہر  ہوجانے کے بعد ان  افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ  بھی مسدود ہوگیا  ہے ۔  صدر براک اوبامہ نے افغانستان سے نکلتے ہوئے  ہندوستان کو یہ کہہ کر بلایاکہ اس طرح وہ پاکستان کو دوسری جانب سے گھیرنے کے قابل ہوجائے گا ۔  اس وقت چونکہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان مفقود تھا اس لیے حکومت ہند نے اس پر لبیک کہا ۔ اب حالات بدل گئے ہیں  اس لیے افغانستان میں ہندوستان  دلچسپی پہلے ہی  ختم ہوگئی ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش  سے بے اعتنائی برت کراسے چین کی گود میں دھکیل دیا  گیا ۔ بنگلادیش  تو  پاکستان کی جانب بھی بڑھنے  لگا ہے ۔ سری لنکا پہلے ہی خفا ہے۔  آخر یہ کون سی خارجہ پالیسی جس میں پڑوسی ملکوں کو ناراض کرکے اپنے دشمن چین کا دوست  بنایا جارہا ہے؟    اصل میں اگر  عالمی قومی مفاد پر داخلی سیاسی  فائدہ  حاوی ہونے لگے  تو ایسی صورتحال رونما ہوتی ہے اور یہی اصل مرض ہے۔  

بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیاں حیرت انگیز ضرور ہیں لیکن لیل و نہار کی گردش گواہی دیتی  رہتی ہے کہ  نظامِ کائنات  حرکت کے اصول پر کاربند ہے۔ آسمان سے جن تاروں کو توڑ کر پھینک  دیا جاتا ہے وہ جمود کا شکار ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ کائناتِ ہستی میں جس طرح عروج و عظمت کو بقاء نہیں ہے اسی طرح زوال و ذلت بھی دائمی نہیں ہے ۔  اس لیے اہل ایمان کو ڈھارس بندھائی گئی     ہے : ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ یعنی آخری کامیابی تو مومنین کے ہی قدم چومنے والی ہے۔ درمیانی مراحل کے بارے میں فرمایا گیا :’’ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔  یعنی گردش زمانہ کا شکار ہر کوئی ہوتا ہے ۔ مومنین پر یہ وقت ا س لیے لایا جاتا ہے تاکہ اچھے اور سچے کو بروں اور جھوٹوں سے چھانٹ کر الگ کرلیا جائے ۔ ظالم و مظلوم کے درمیان تفریق و امتیاز کی خاطر یہ شرطِ لازم ہے ۔ اس لیے قدرت کارخانے کی یہ چکی مسلسل چلتی رہتی ہے اور بقول علامہ اقبال حقیقت حال  یہی ہے کہ ؎

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں                                        ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں 

 

Comments are closed.