Baseerat Online News Portal

خاکہ : سفید چادر

 

خاکہ نگار : عارفہ مسعود عنبر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

"پاپا” اس لفظ کے ذہن میں آتے ہی ذہن کے دریچے میں ایک عنبری خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور دل چاہتا کہ یہ لفظ بار بار کہوں "پاپا پاپا میرے پاپا کہاں ہیں آپ ،لوٹ آئیں ۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے ،پاپا تو چلے گئے بہت دور کبھی نہ واپس آنے کے لئے ایک نئے جہان میں جاکر بس گئے۔جانے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل پاپا نے ہم سے کہا بیٹا ہم نے ایک خواب دیکھا ہے،ہم نے دریافت کیا ، کیا خواب دیکھا ہمارے پاپا نے ؟ پاپا نے کہا "ایک بہت بڑی سی سفید چادر ہے تم نے اس چادر پر مضمون لکھا ہے اور وہ مضمون بہت مقبول ہوا ہے "اس وقت ہمارے ذہن و فہم کی لاکھ کوشش کے باوجود خواب کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے صرف اتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ سفید کپڑے پر تو عموماً اشتہارات لکھے جاتے ہیں ۔پھر یہ کس اشتہار کی طرف اشارہ ہے۔ آج پاپا کے انتقال کو 26 دن گزر جانے کے بعد قلم ہاتھ میں پکڑا تو چشمِ گریاں سے ڈھلک کر کاغز پر جذب ہوتے ہوے اشک اور لرزتے ہوئے ہاتھوں نے خواب کی تعبیر پیش کر دی۔

‌ موت کی جانب سفر کا عمل زندگی کے آغاز سے پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اللہ کریم نے ہر جاندار کے لیے موت کا وقت اور جگہ متعین کر دی ہے ۔اس زمین پر پیدا ہونے والی ہر جاندار چیز کو فنا ہونا ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔ اور اس رب کریم ہی کی ساری کائنات پر حکومت ہے اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے، موت کے ان حقائق کا ہمیں اچھی طرح علم ہے لیکن انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کے سارے علوم و فنون دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کی تمام تر صلاحیتیں سسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور انسان صرف خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے ،ہمیں اللہ کریم کے نظام سے نہ کوی انکار ہے نہ اس کے فیصلے پر کوئی سوال اس کا مال تھا اس نے واپس لے لیا۔ تاہم لاکھ کوشش کے باوجود باپ کی جدائی کے اس صدمے کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ۔زندگی کی کتاب کے ہر ورق پر ان کی محبت ،شفقت ،سرپرستی ،اور رہنمائی کی روشنائی سے تحاریر رقم ہیں ، ان کے جانے سے یوں محسوس ہو رہا ہے مانوں ہم گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سے جھلستی ہوئ دھوپ میں لاکر کھڑے کر دیے گئے ہیں ،پاپا ہمیشہ ہم سے معلوم کرتے تھے بیٹے کس موضوع پر لکھ رہی ہو ؟ ،ہر دو چار روز بعد سوال ہو جاتا تھا کہ نیا کیا لکھا؟ آج 26 دن گزر جانے کے بعد بھی ہم سے کسی نے معلوم نہیں کیا نیا کیا لکھا ؟ اب کسے بتائیں کہ آج ہم سفید چادر پر مضمون لکھ رہے ہیں اس نا اہل کا قلم اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے ۔ جس کی تپتی ہوئی دھوپ میں گزاری ہوئ ایک دوپہر کا حق بھی ہم ادا نہ کر سکے ۔ جس نے ہمارے دکھ ،درد ،پریشانیوں کو اپنے لہو سے سینچ کر خوشیوں کی فصل لہلہانے کی کوشش میں عمر گزار دی ، بچہ ماں کے پیٹ میں 9 مہنے پلتا ہے لیکن باپ کی سوچوں میں عمر بھر۔ہم بھی پاپا کی سوچوں میں عمر بھر پلتے رہے ہیں پاپا اپنا خون پسینہ بہا کر ہم پر مہربانیاں کرتے رہے ۔ہمارے منھ سے نکلنے سے پہلے ہماری خواہش کی تکمیل اپنا فریضہ اول تصور کرتے رہے۔موسم کے ناروا سلوک سے تحفظ کے لیے آندھی طوفان سے لڑ کر بھی ہماری حفاظت کی ذمے داری قبول کرتے رہے ،ہمارے آرام و چین کی خاطر اپنی نیند آرام و سکون کی قربانی دیتےرہے پاپا ہمارے لئے اللہ رب العزت کی عطا کردہ نعمت تھے آج ہم سب بہن بھائ اس نعمت سے محروم ہو گئے آج ہمارا سایہ عافیت ہمارے سر سے اٹھ گیا۔

 

دادا محترم سید شمشاد علی سنبھل کی معزز شخصیات میں شمار کئے جاتےتھےچار بیٹے اور چار بیٹیوں میرے پاپا سید مسعود علی چوتھے نمبر پر تھے ،آپ سرزمین سنبھل پر ہی پیدا ہوئے اور اسی شہر سے تعلیم و تربیت حاصل کی درجہ 1 سے درجہ 5 تک کی ابتدائی تعلیم پاس ہی کے پرائمری اسکول سے حاصل کی ۔چھٹی جماعت میں ہند انٹر کالج میں داخلہ لیا بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے میں ہوشیار تھے جس کی وجہ سے ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا درجہ 6,7,8, امتیازی نمبروں سے پاس کرکے نویں جماعت میں پہنچے ، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کالج میں استاد محترم خلیل الرحمٰن صاحب کی اردو کی کلاس چل رہی تھی استاد محترم غزلیات کی تشریح کرکے طلباء کو سمجھا رہے تھے کہ اچانک محکمہ تعلیم سے چانچ دستہ آ پہنچا ۔دستہ اس خاموشی سے داخل ہوا کہ اساتذہ کو طلباء کو کچھ بھی سمجھانے کا موقع نہ مل سکا اساتذہ نہ کوئ تیاری کر سکے نہ طلباء کو کچھ سمجھا سکے ، دستہ درجہ 9 میں داخل ہوا اور خلیل الرحمٰن صاحب سے سوال کیا کہ کون سا مضمون پڑھایا جا رہا ہے ؟ خلیل صاحب نے جواب دیا ، اردو غزلیات خلیل الرحمٰن صاحب جو غزل پڑھا رہے تھے اس میں محبوب کے لب و رخسار اور عشق و محبت کا ذکر تھا ۔جانچ دستہ سے انیس صاحب نے خلیل الرحمٰن صاحب سے پھر سوال کیا اس نوعمری میں لڑکوں کو عشق و محبت سمجھائ جائے گی تو کیا ان کے کمسن ذہنوں پر برا اثر نہیں پڑےگا ؟ خلیل الرحمٰن صاحب سے کوئی جواب نہ بن سکا اور خاموش ہو گئے ۔ اب اگلا سوال طلباء سے تھا ۔ آپ کے استاد محترم عشق محبت کی غزل پڑھا رہے ہیں کیا آپ میں سے کوئ لڑکا محبت کرتا ہے ؟ کیا آپ میں سے کسی کی کوئ محبوبہ ہے ؟ جماعت پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا ،خلیل الرحمٰن صاحب بھی خاموش تھے کہ مسعود علی نے ہاتھ اوپر کیا اور کھڑے ہو کر جواب دیا جی سر میری محبوبہ ہے، اور میں ان سے والہانہ عشق کرتا ہوں ،خلیل الرحمن صاحب کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں ، ہم جماعت میں بھی سرگوشیاں ہونے لگیں کہ آج تو مسعود کی خیر نہیں اس کا نام کٹ جائے گا ، انیس صاحب نے کہا اچھا آپ کی محبوبہ کا نام کیا ہے ؟ مسعود علی نے جواب دیا محترمہ رضیہ فاطمہ میری ماں جن سے میں والہانہ عشق کرتا ہوں اور ان کے بنا ایک دن بھی جینے کا تصور نہیں کر سکتا مسعود کے جوابات سنتے ہی خلیل الرحمٰن صاحب کا سر فخر سے اونچا ہو گیا اور لبوں پر تبسم رقص کرنے لگی چونکہ نویں جماعت کے کم سن طالب علم سے ایسے معیاری جواب اور عشق کی ایسی تشریح کی امید نہ خلیل الرحمٰن صاحب کو تھی اور نہ جانچ دستہ کو ،تاہم جانچ دستہ نے مسعود علی کو شاباشی پیش کرتے ہوے بطور تحفہ ایک قلم عنایت کیا ۔ اس کے بعد سارے کالج کے اساتذہ اور طلباء میں جانچ دستہ کے سوالات اور مسعود کے جوابات کی چرچا تھی ،مسعود علی کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت انہوں نے ہائ اسکول پاس کیا پورے سنبھل سے صرف تین طالب علم پاس ہوے تھے ،جس میں اردو ادب کی معروف شخصیت ڈاکٹر خوشحال زیدی ،سید مسعود علی ، اور تیسری سعیدی بیگم ۔سعیدی آنٹی کی کامیابی بھی ایک سبق آموز اور عبرت ناک قصہ ہے جس کے ذریعہ پاپا نے اپنے بچوں کو درس دیا کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے کوشش جاری رکھی جائے "کوشش ہی کامیابی کی کنجی ہے” سعیدی آنٹی کی شادی کم سنی میں ہی ہو گئ تھی لیکن شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی اور ایک سال کے بعد ہی طلاق لے لی ایک بیٹی کو گود میں لیکر میکے واپس آ گئیں واپس آکر تعلیم جاری کرنے کا ارادہ کیا اور ہائ اسکول کا پرائیویٹ فارم بھر دیا لیکن کامیاب نہ سکیں ،سعیدی آنٹی نے ہمت نہیں ہاری اور اگلے سال امتحان میں بیٹھیں اس سال بھی کامیابی نصیب میں نہ تھی اسی طرح سعیدی آنٹی لگاتار 9 سال تک امتحان میں بیٹھتی رہیں اور دسویں سال جب کامیاب ہوئیں تو تاریخ رقم کر دی اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور یکے بعد دیگر کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ڈبل ایم اے بی ایڈ کیا اور جونیئر ہای اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئیں سعیدی آنٹی نے کوشش اور کامیابی کی ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے ۔ سید مسعود علی نے سنبھل سے انٹر میڈیٹ پاس کر کے آگرہ کے آئ ٹی آئ کالج میں سول انجینئرنگ کے ڈپلومہ میں داخلہ لے لیا ،رہائش سے کالج کا فاصلہ اتنا تھا کہ دو گھنٹہ متواتر پیدل چل کر کالج پہنچنا ہوتا ہے اقتصادی حالات بھی اتنے بہتر نہ تھے کہ سائیکل کا انتظام کر پاتے چنانچہ موسم ںسرما کی سرد فضاؤں میں صبح صادق سے پہلے رات کی تاریکیوں میں ہی گھر سے نکلنا ہوتا ہے تھا ، کمرے پر بجلی کا معقول انتظام نہ ہونے کے سبب سڑک پر کھمبوں کے نیچے بیٹھ کر فائل تیار کرتے تھے غرض یہ کہ آگرہ میں گزرا وقت بہت مشکل تھا ، خیر یہ وقت بھی گزر گیا تین سال کا سول ڈپلومہ فرسٹ ڈویژن سے حاصل کیا ۔

 

اقتصادی حالات بہتر نہیں تھے تاہم پڑھائی سے فارغ ہو کر اب فوری طور پر نوکری کی ضرورت تھی لیکن اتنی جلدی معقول نوکری ملنا بہت مشکل تھا چنانچہ اگرہ میں ہی ایک لوہے کی فیکٹری میں نوکری کر لی وہاں کیا کام کرنا ہوتا تھا یہ تو ہمیں علم نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ آگ میں تپا کر سریا تیار کیا جاتا تھا ایک مرتبہ لوہے کی جلتی ہوئی راڈ اچھل کر ان کی ٹانگ میں لگ گئی اور ٹانگ بری طرح جل کر زخمی ہو گئ ۔ لیکن وقت کی جبیں پر اپنا نام لکھ دینے کی جسارت جس شخص میں ہوتی ہے وہی انسان زندگی کی تمام پریشانیوں اور تلخیوں کا سامنا مسکراتے ہوئے کرتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے تمام کنکریلے پتھریلے راستوں پر چل کر اپنی منزل تلاش کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنی منزل کو پانے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے آگرہ سے واپس آکر مرادآباد کی کسی پیتل فیکٹری میں پرائیویٹ نوکری کر رہے تھے کہ معلوم ہو کہ پی ڈبلیو ڈی (public work department) کچھ بیلداروں کلرک اور سروییر کی نوکریاں نکلی ہیں ، کلرک اور بیلدارو کے لئے تھوڑی زیادہ تھیں لیکن سروئئر کی صرف ایک ہی سیٹ تھی پاپا نے سروئیر کی پوسٹ کے لیے اپلائ کر دیا پہلے تحریری امتحان ہوا اس کے بعد پریکٹیکل اور انٹریو تینوں میں کامیابی حاصل کرکے مرادآباد میں سروئیر کے عہدے پر فائز ہو گے ،اس سے پہلے تایا ابا کا تقرر سہارن پور جیل پر جیلر کے عہدے پر چھوٹے چچا کا تقرر لکسر ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں سیکشن انجینئر کے عہدے پر ہوا پھوپھیوں کی شادیاں ہو گئیں اور اس طرح سنبھل کو خیرا باد کہ کر مرادآباد میں سکونت اختیار کر لی۔۔۔۔

 

آپ(پاپا کے) کے ماموں جان پیر سید ذاکر حسین کی دختر سے پچپن ہی ہی میں رشتہ طے ہو گیا تھا ملازمت کے بعد دادا ( سید شمشاد علی) نے شادی کی بات آگے بڑھائی اور میری امی (جعفری بیگم ) دلہن بن کر گھر آ گئیں شادی کے پانچ سال بعد بہت منتوں اور دعاؤں کے بعد بیٹی صبیحہ مسعود دنیا میں آئیں پہلی بیٹی کی آمد پر پاپا بہت خوش تھے کہتے تھے بیٹی حضور کا سلام ہوتی ہے کہ میرے نبی کو بھی بیٹیاں بہت عزیز تھیں ان کے چار سال بعد بھائ مشکور بھائی کے چار سال بعد راقم التحریر عارفہ مسعود ، پھر آصفہ، فیصل ،نیہا اور فراز ، پاپا ہم سب کو بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن بیٹیوں پر خاص شفقت ،ہمیشہ کہتے تھے بیٹیاں اللہ کریم کی عطاء کردہ نعمت ،انعام ، اور رحمت ہیں حقیقتاً پاپا ہمارے حقیقی دوست تھے ہمیں پاپا سے کوئ بھی بات شیئر کرنے میں کوئ ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی ۔پاپا کی تربیت کا انداز عموماً روایتی باپوں سے بالکل منفرد تھا انہوں نے کبھی ہم پر زیادہ روک ٹوک اور پابندیاں عائد نہیں کیں لیکن اتنی تاکید ہمیشہ کرتے رہے کہ ہماری طرف سے تم لوگوں کو پوری آزادی ہے لیکن کبھی کوئی عمل ایسا سرزد نہ ہو جائے جس سے باپ کی گردن جھک جاے اور ماں کی تربیت پر حرف آ جائے ، لباس کو لیکر بھی کبھی کوئ پابندی عائد نہیں کی ان کا کہنا تھا لباس چاہے جیسا زیب تن کرو لیکن شرم و حیا کی ردا سر سے نہ سرک جاے ہمیشہ اتنا خیال رکھنا ۔پاپا نے ہمیں دین کی حکایات بھی سمجھائیں اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم سے ملا کر چلنے کا حوصلہ بھی دیا ، انٹرمیڈیٹ پاس کرکے جب ہم نے بی اے میں داخلہ لیا ہماری این سی سی میں بہت دلچسپی تھی پاپا سے اجازت لے کر این سی سی جوائن کر لی ہفتہ میں تین دن پریڈ ہوتی تھی اور تین دن تحریری جماعت پریڈ کے بعد کالج میں ہی وردی تبدیل کرکے گھر آ جاتے تھے ایک سال گزر جانے کے بعد بی سرٹیفیکیٹ کے لیے کیمپ دو کیمپ کرنا لازمی تھے تاہم ہمیں دس دن کی ٹریننگ پر کیمپ جانا تھا لیکن ذہن کشمکش میں تھا کہ وردی پہن کر گھر سے کیسے نکلیں گے لوگ کیا کہیں گے اس لیے کبھی سوچتے کہ رکشہ میں بڑی سا چادر باندھ لیں گے۔ کبھی دماغ میں خیال آتا وردی پہن کر اوپر سے امی کا برقع پہن لیں گے مثلا پاپا کے سامنے آیا پاپا نے ہم سے سوال کیا این سی سی کیمپ کر کے تم کوئ بہت بڑا گناہ کر رہی ہو جسے دنیا سے چھپانے کی ضرورت ہے ؟ ہم نے کہا نہیں تو ، پاپا نے جواب دیا کہ پھر دنیا سے کس بات کا خوف اگر تم اپنی نظر میں صحیح ہو تو دنیا سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،ضروری نہیں کہ دنیا میں سب ہمارے ہم خیال ہوں یا ہم سے متفق ہوں ، بس زندگی میں اتنا خیال رکھنا کہ کوئ عمل ایسا سرزد نہ ہو جس سے تم اپنی نظر میں گر جاؤ اور اللہ کریم کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کرنے کے لائق نہ رہو۔کیمپ پر جانے کے لئے ہم فل وردی میں تیار ہوے اور پاپا ہمیں بس تک چھوڑ کر اپنے کردار میں خود اعتمادی ،عزم اور اعتدال ان کی شخصیت کا خاصہ تھا اور یہی خود اعتمادی اور عزم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے تھے

 

تمام تر مصروفیات کے باوجود پاپا کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اس کے لیے وہ وقت نکال ہی لیتے تھے نیز قوت حافظہ بہت قوی تھا تاریخ کے نہ معلوم کتنے قصے زبانی یاد تھے بچپن میں بادشاہ شہزادی ، دیو پری ،گل بکاؤلی ا الف لیلیٰ اور حاتم طائی کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی لیاقت ،بی اما کی شجاعت ،مولانا عبد الکلام آزاد کی علمیت مسٹر جناح کا پاکستان کامطالبہ اور تحریک آزادی کی نہ معلوم کتنی کہانیا پاپا کی ہی زبانی سنیں ۔ پاپا کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ گفتگو کا کؤی بھی موضوع سیاسی ہو یا سماجی ،دینی ہو یا دنیاوی کتابوں کے حوالے سے اپنی بات کو تسلیم کروا لیتے تھے کبھی کبھی تو عقل حیران ہوتی تھی کہ انہیں اتنا سب کیسے یاد رہ جاتا ہے اتنا تو مطالعہ بھی نہیں کرتے ۔انداز گفتگو ایسا شگفتہ کہ جو ایک بار مل لے ان کی محبت کا گرویدہ ہو جاتا، عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کی ملکیت تھی, غریب ہو یا امیر سب کی برابر عزت تھی ، پاپا کا کہنا تھا کہ کبھی نالی کے کیڑے کو بھی خود سے کمتر نہ سمجھنا ، پاپا اور ہم میں ذہنی ہم آہنگی تھی مزاج میں یکسانیت کے سبب کبھی کبھی گھنٹوں دونوں باتوں ںمیں منہمک رہتے۔ پاپا ہمیں اپنا عکس کہتے تھے حالانکہ یہ صرف ان کی محبت تھی ورنہ علم کے اس ذخیرے کا ہم خود کو ایک ذرہ بھی نہیں سمجھتے ہاں اتنا ضرور ہے چھ بہن بھائیوں میں صرف ہم کو ہی پاپا کی طرح ادب سے محبت ،اردو سے شغف، تاریخ سے دلچسپی ،مطالعہ کا شوق اور پودوں سے انس تھا ۔ ہم ان کی ایک ایک بات کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے ۔پاپا ہماری قلم کاری سے نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ اپنی رائے بھی پیش کرتے تھے ان کا کہنا تھا بے لوث حق اور ایمانداری سے قلم چلاؤ، بے خوف ہو کر ایسے ادب کی تخلیق کرو جس سے دنیا میں اپنی قوم کے کام آ سکو اور آخرت میں سرخروئی حاصل کرو۔ انہیں ہمارے غزل کہنے پر کوئ اعتراض تو نہیں تھا لیکن دور حاضر کے مشاعروں کے مد نظر محفل میں پڑھنا پسند نہ تھا ۔

 

مرحوم کی شخصیت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہیں پودوں سے بے پناہ لگاؤ تھا اپنے بچوں کے بعد اگر کسی سے محبت کرتے تھے تو وہ ان کے آنگن میں لگے پودے تھے چار سو گز کے بڑے مکان میں خاصہ حصہ پودوں کے لیے مقرر کر دیا تھا جس میں اتنی اقسام کے پودے موجود تھے کہ ایک چھوٹی سی نرسری معلوم ہوتی ،گلاب بیلا جوہی ،چمپا ،رات کی رانی کے الاوہ مختلف قسم کے کیکٹس ،کروٹن ، ایرو کیریا ، انکی نرسری کی۔زینت بنے ہوے تھے ۔ آفس جانے سے پہلے صبح دو گھنٹے اپنے پودوں میں صرف کرتے تھے کسی کو کھاد لگانی ہے تو کسی کی چھٹائ ، سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کرتے کبھی کبھی تو چاے کا کپ لیکر مٹی میں ہی بیٹھ جاتے تھے امی کے ٹوکنے پر کہتے بیگم مٹی میں ہی جانا اس سے کیا گریز یہاں بیٹھ کر قلب کو سکون ملتا ہے

 

خوش لباسی آپ کے مزاج میں شامل تھی،ہمشہ عمدہ اور اچھا لباس ہی پسند کرتے تھے گھر میں عموماً تیبند بنیان یا کرتا پاجامہ میں ہی رہتے تھے لیکن جب آفس جانے کے لیے تیار ہوتے تو موسم سرما میں سوٹ بوٹ میں ملبوس باوقار شخصیت کے مالک نظر آتے تھے ،دراز قد ، گندمی رنگ ،انچی ناک چوڑی پیشانی اور ہلکی سی سرخی مائل نشیلی آنکھوں نے انہیں مزید پرکشش بنا دیا تھا ،موسم گرما میں پینٹ اور آدھی آستین کی شرٹ پہنتے جمہ کے روز آفس کرتا پاجامہ پہن کر جنت الفردوس (عطر) کی خوشبو میں معطر ہو کر ہی گھر سے نکلتے، کہتے تھے کچھ لوگ جلتے ہیں آفس میں کرتا پجامہ پہننے سے طنز کا رتے ہیں لیکن مسعود علی کسی سے نہیں ڈرتا ٹوپی اور کرتا پاجامہ مسلمان کی شان ہے، مسعود علی کو خدا کے علاؤہ کسی کا خوف نہیں ، کبھی کبھی ہم شکوا کرتے ہم آپ کی طرح پر کشش کیوں نہیں ہیں؟ نہ امی کی جیسے گورے چٹے؟ ۔اور وہ محبت سے کہتے اور کتنا پرکشش ہونا تھا لباس میری بیٹی کو خوبصورت نہیں بناتا بلکہ میری بیٹی کے پہننے سے خوبصورت ہو جاتا ہے, پدمنی ہے میری لاکھوں میں ایک ۔ یہاں یہ بات واضح کر دیں کہ اللہ کریم نے صرف والدین کو ہی یہ حسن نظر بخشی ہے کہ اپنی اولاد کالی پیلی، بھونڈی ، نکٹی، چپٹی ،نا اہل جیسی بھی ہو پدمنی اور پکھراج ہی نظر آتی ہے یہ پاپا کی نظر شفق ہی تھی کہ انہی ہم ناہل میں صلاحیتیں نظر آتی تھیں ۔دورانے نوکری ہی حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد پینٹ شرٹ چھوڑ کرتا پاجامہ اور شیروانی اور بنڈی پہننے لگے تھے آدھی کالی آدھی سفید داڑھی نے اس پر کشش چہرے کو مزید نورانی بنا دیا تھا

 

پاپا پی ڈبلیو ڈی میں سروئیر تھے محکمہ کی طرف پڑنے والی سڑکوں کا سروے کرکے اس کی ناپ تول پیمائش کرکے ڈیزائن تیار کرنا ان کی زمہ داری تھی جو سڑکیں کسانوں کے کھیتوں یا زمینوں سے ہوکر نکلتی تھیں انہیں محمکہ معاوضہ دیتا تھا اور اس معاوضہ کی فائل پاپا کے دستخط کے بنا پاس نہ سکتی تھی فائل پہ پاس کرانے کے لیے کل لوگ رشوت کی کوشش کرتے تھے چاہتے تو موٹی روم وصول کر سکتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا بچوں کا حرام روزی کھلا کر نیکی ،دینداری ،ایمانداری اور فرمابرداری کہ امید کیسے کی جا سکتی ہے اس وقت سرکاری تنخواہیں اتنی نہ تھیں جس سے خوشحالی سے گزارا ہو سکے اس لیے صبح چار بجے سے اٹھ کر پرائیویٹ فیکٹریز اور مکانات کے ڈیزائن تیار کرتے تھے ( اس رقم کو اپنے لیے جائز تصور کرتے تھے) فجر کی اذان ان کے اٹھنے کے بہت دیر بعد ہوتی تھی چاے بھی خود ہی بنا کر پی لیتے تھے امی کا نہیں جگاتے تھے اور کبھی کبھی جب امی بیمار ہوتیں تو انڈے ٹوسٹ اور چاے تیار کرکے ہم لوگوں کو بالکل اس انداز میں آواز لگاتے جیسے اسٹیشن پر چاے والے لگاتے ہیں” چاے چاے چاے گرممممم ” بچوں جلدی اٹھو ٹرین چھوٹ جائے گی

 

پاپا کے اس سراے فانی سے چوتھے دن وقت سحر دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائ دروازہ کھولنے پر معلوم ہوا کہ سامنے سند چچا بوجھل سے چہرے پر آنکھوں میں آنسو لیے کھڑے تھے ،کہنے لگے رات بھر بیچین رہا مسعود بھائ کی یادیں سونے نہیں دے رہیں تھیں ،ان کے ساتھ گزارا ہر لمحہ بیچین کر رہا ہے ،ان کی مہربانیاں ذہن میں گھوم رہی ہیں ،تمہاری چچی بولیں صبح ہوتے ہی وہیں جاؤ وہاں جاکر سکون ملےگا سمد چچا کو بچپن سے ہی گھر میں بے تکلفی سے آتے دیکھ رہے ہیں دروازے سے ہی شور مچاتے ہوئے داخل ہوتے تھے بھابھی یہ پکا لیں وہ پکا لیں ،کہا جاتا ہے اگر کسی کیفین داری دیکھنی ہے تو مساجد میں نہیں دنیا میں دیکھو ، آج پہلی مرتبہ چچا سے معلوم کیا کہ پاپا سے آپ کی ملاقات کب اور کیسے ہوئی تھی کچھ آفس کے بارے میں بتائیے ، چچا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور کہنے لگے خدمت خلق کا ایسا جزبہ میں نے آج تک کسی میں نہیں دیکھا جیسا مسعود بھائ میں آج میں صرف ان کی وجہ سے مرادآباد میں ہوں ان سے میری پہلی ملاقات مسجد میں نماز کے بعد ہوئ تھی دوران گفتگو میں نے بتایا پی ڈبلیو ڈی میں کلرک کی نوکری لگی ہے لیکن رہائش کی جگہ نہ مل پانے سے پریشان ہوں ،میرے پاس رہنے کو گھر نہیں تھا نہ کوئ کراے پر مل رہا تھا بچے نگینہ تھے اور میں یہاں جب انہیں معلوم ہوا کہ میں رہائش کی وجہ سے پریشان ہوں۔ انہوں فورن کہا بچوں کو کل ہی بلا لو ۔ انہوں نے بچوں کو بلوا لیا اور نہ صرف اپنے گھر میں کمرا دیا بلکہ کمرے کا سامان بھی ہمیں سونپ دیا ہم صرف ایک فولڈنگ پلنگ لیکر اےتھے وہ بھی مسیریوں کے نیچے رکھ دیا،یہ بھابھی (امی) کی عالی ظرفی تھی کہ انہوں نے مسعود بھائ سے کوئ سوال پوچھے بنا نہ صرف کمرا بلکہ کمرے کا سامان بھی ہمیں سونپ دیا ،۔افس میں نہ معلوم کتنے لوگوں کی مسعود بھائ نے بے لوث مدد کی کتنے ہی بےلدارو کی نوکری پکی کرائ کسی کو پرمیشن دلوائی کتنوں کو معاوضہ دلوانے میں مدد کی غرض یہ کہ عالی افسران بھی ان کی محنت اور ایمانداری کی قدر کرتے تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگ حسد رکھتے تھے چوہان سنگھ، اشوک واجپئی وغیرہ کو ہمیشہ خلش رہتی کہ مسعود علی کی محکمہ میں طوطی بولتی ہے ۔ اسٹاف اسوسئشن کے انتخابات میں ملازمین نے زبردستی کھڑا کروا دیا اور پورے اتر پردیش سے سٹاف ایسوسیشن کے صوبہ صدر منتخب ہوئے وہ ایک بہترین مقرر تھے ان کی تقاریر دلوں پر اثر چھوڑ جاتی تھیں ،ویسے تو مسعود صاحب اپنے عالی افسران کی بے پناہ عزت و احترام کرتے تھے لیکن جب بات ملازمین کے حقوق کی ہوتی تو وکیلوں کی مانند بحث و مباحثہ کرتے اور ایسے دلائل پیش کرتے کہ اپنی بات منوا کر ہی چھوڑتے وہ دوسروں کی مدد کو اپنا فریضہ سمجھتے انہونے ایک باوقار زندگی جی اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔

 

دیانت داری اور امانت داری کے عناصر ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے جس علاقے میں پاپا نے گھر بنایا تھا وہ نیا بسا ہوا علاقہ تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد نہ کے برابر تھی غیر مسلموں کی اکثریت تھی اس لیے زمینوں کی خرید و فروخت میں تعصب برتا جاتا اور لب سڑک کوئ بھی زمین مسلمان کو فروخت نہیں کرتے تھے لیکن یہ غیر مسلم بھی مسعود صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے پاپا کے ایک تعلق دار فہمود صاحب اے اور کہا انسپیکٹر صاحب یہ گلی کی نکڑ کا پلاٹ مجھے دلوا دیجیے میں نے بات کی تھی لیکن زمین مالک نے مجھے صاف انکار کر دیا ،پاپا نے زمین مالک کھیالی رام کو بلا کر معلوم کیا کہ نکڑ والا پلاٹ بک رہا ہے کیا کہنے لگے انسپیکٹر صاحب سارے لوگوں نے میٹینگ کر لی کہ مسلمان کو روڈ کی زمین نہیں دینی ہے ، پاپا نے کہا چاچا میرے لیے بھی نہیں ہے ؟ کھیالی چاچا نے جواب دیا ” انسپیکٹر صاحب آپ کے لیے تو میرا گھر بھی حاضر ہے ، تو ٹھیک ہے چاچا زمین مجھے چاہیے چاچا راضی ہو گئے زمین فہمود صاحب نے خریدی لیکن رجسٹری سید مسعود علی کے نام ہوئ فہمود صاحب کے ادا کرنے کے لیے پوری رقم نہ تھی کھیالی چاچا یہی سمجھ رہے تھے کہ زمین انسپکٹر صاحب نے خریدی ہے اس لیے کچھ نہ کہا فہمود صاحب تھوڑی تھوڑی رقم ادا کر رہے تھے بیچ میں فہمود صاحب کو کچھ پریشانی پیش آئ تو رقم پاپا نے ادا کی امی نے کہا بھی کہ چاچا بیچارے ہماری وجہ سے چپ ہیں فہمود رقم بھی ادا نہیں کر پا رہے آپ ان کی رقم لوٹا دیجے لیکن پاپا نے صاف انکار کر دیا کہ یہ امانت میں خیانت نہیں کر سکتا پورے تیرہ سال زمین کی رجسٹری پاپا نے نام رہی ، ایک روز فہمود صاحب کا بلا کر کہا کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں وہ یہ سمجھیں گے کہ زمین ہمارے پاپا کے نام ہے تو ہماری ہے اس لیے اب تمہاری امانت تمہیں سونپ دوں فہمود صاحب کے نام رجسٹری دوبارہ کرنے میں لاکھوں روپیہ کا خرچ تھا پاپا سارے قانونی داؤ پیچ سے علم رکھتے تھے اس لیے بطور تحفہ رجسٹری فہمود صاحب کے نام کر دی بنا ایک روپیہ خرچ کراے آج اس پروپرٹی کی قیمت کئ کروڑ روپیہ ہے جسے پاپا نے نہایت سمجھداری اور دیانت داری کے ساتھ فہمود صاحب کو سونپ دی ۔

 

کچھ سالوں سے طبیعت علیل رہنے لگی تھی لیکن صرف اتنی دیر ہی آرام فرماتے جتنی دیر زیادہ خراب ہوتی پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے تقریباً تین ماہ پہلے ہرپیس نام کی ایلرجی ہو گئ تھی بھائ نے فورن ہی کھال کے ڈاکٹر سے علاج شروع کر دیا ایلرجی میں تو شفاء ہو گئ لیکن اسی دوران لیور انفیکشن ہو گیا جس کی وجہ سے کھانا تو دور کی بات پانی تک حضم نہ ہوپا رہا تھا کمزوری بڑھتی جا رہی تھی پندرہ دن میں اٹھنا بیٹھنا تک دشوار ہو گیا ہم بہن بھائ ایک پل کو بھی اکیلا نہیں رہنے دیتے تھے ، رات رات بھر پاپا کے سرہانے بیٹھے رہتے یہاں تک کہ پاپا کا کوئ کام امی کو بھی نہیں کرنے دیا جاتا کہ آپ بس بیٹھی دعاء کرتی رہیں پاپا کہتے تھے اللہ کریم نے مجھے ایسی نیک اور فرمابردار اولاد عطا کرکے دنیا میں ہی جنت بخش دی ۔7 محرم ایام آشورہ میں 12بج کر 45 منٹ پر پاپا اس سراے فانی سے رخصت ہو گے راقم التحریر خود کو ادیبہ، مصنفہ یا شاعرہ کی صف میں شمار نہیں کرتی ہماری اس تحریر کا دائرہ ایک بیٹی کا اپنے باپ کی محبت ،جذبات ، محسوسات اور خراج عقیدت تک محدود ہے۔ہمیں یقین ہے سفید چادر پر لکھی اس تحریر کے شائع ہونے پر ہمارے پاپا بہت خوش ہوں گے اور خلد سے ہی ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازیں گے

Comments are closed.