Baseerat Online News Portal

خدا کرے یہ خواب ہی رہے!  نور اللہ نور

خدا کرے یہ خواب ہی رہے!

 

نور اللہ نور

 

 

یوں تو ملک میں ایک نظریے کے تسلط کی راہ برسوں سے استوار کی جارہی ہے ترنگے کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی تیاری ایک طویل عرصے سے چل رہی ہے جس کے لیے قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اقتدار کے زعم میں آمرانہ نظام کی تشکیل کا کام جاری ہے۔

"ہندو راشٹر” کا یہ سپنا بڑے دن سے سجایا جا رہا اور اس کے لیے عوامل بھی بروئے کار لائے جارہے ہیں ان ہی کاوش اور خفیہ منصوبے کی جھلک گزشتہ دو دن قبل ایک اخبار نے دکھائ ہے ” جس میں ہندو راشٹر” کے خواب کے پورے ہونے کے امکانات کے بنا پر مبارکبادیاں دی جارہی ہیں۔مگر ابھی حتمی شکل کو بہت دیر ہے تب تک دیش واسی شاید کہ بیدار ہو جائیں۔

 

خدا کرے کہ ان کا یہ خواب خواب ہی رہے ورنہ ملک ایک اور تقسیم کا زخم سہے گا ؛ ہزاروں زندگیاں ایک بار پھر اس مہلک ذہنی بیماری کے نذر ہونگی ؛ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جس جمہوریت اور سیکولرزم پر اس ملک کی اساس و بنیاد ہے وہ لوگوں کی نگاہ میں متزلزل اور مشکوک ہو جائے گا۔

 

اگر یہ خواب حقیقت میں بدلتا ہے تو ان لوگوں کی قربانیاں جنہوں نے اس چمن کی آبیاری کے لیے پیش کی تھی رائیگاں بے معنی بے مقصد ہو جائے گی؛ گنگا جمنی تہذیب جسے ہند و مسلماں نے یک جہت ہوکر تشکیل دی تھی اس تہذیب کی توہین ہوگی اور سر سبز و شاداب ہند کے بجائے زعفران زار ؛ انتشار سے پر ایک نیا ہندوستان تشکیل پائے گا جہاں انسانیت مر چکی ہوگی اور انسان کا دم گھٹے گا۔

سوال یہ ہیکہ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر خود کو سیکولر اور متوسط خیال کہنے والے لوگ اس پر خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں ؟ بات بات سیکولرزم کی دہائی دینے والے اتنے سنگین مسئلے سے غافل کیسے ہیں اور اگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اس اخبار والے سے باز پرس کیوں نہیں ہوئی؟

 

اگر دوبارہ تقسیم کے ضرر سے بچنا چاہتے ہیں اور ایک پر امن ہند کے متمنی ہیں تو اس پر غور کیا جائے اور اس معاملے کو ذرا احتیاط سے لیا جائے اور ایسی ذہنیت کے سد باب کے لئے کوئ سبیل نکالی جائے!

Comments are closed.