Baseerat Online News Portal

خود کشی اور ہمارا سماج!

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
زندگی بہت بڑی نعمت ہے، ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں، جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی ، انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کدوکاوش سے حاصل نہیں کرتا ؛ بلکہ کائنات کے رب کا عطیہ ہے، ایسا عطیہ جو علم و تحقیق کی اتنی ترقی کے باوجود ایک سربستہ راز ہے، علم و سائنس کی ترقی اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ انسان اپنے ایک ایک عضو کے بارے میں جاننے لگا ہے کہ اس کا حجم کتنا ہے؟ سر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک اس نے بدن کے ایک ایک انگ اوررگ و ریشہ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے؛ لیکن آج بھی عقل اس گرہ کو کھولنے سے عاجز ہے اور قدرت کے رازِ سر بستہ سے پردہ اٹھانے میں ناکام ہے کہ آخر روح کی حقیقت کیا ہے؟یہ جسم میں کیوں کر آتی ہے اور کہاں سے آتی ہے؟ پھر کس طرح چپ چاپ جسم کو داغِ فراق دے کر چلی جاتی ہے کہ نہ کوئی ہاتھ ہے، جو اسے تھام سکے، نہ کوئی حساس سے حساس مشینی آلات ہیں ، جو اس کو گرفتار کر سکیں، یا کم سے کم اس کی حقیقت کا ادراک ہی کر لیں، انسان کی یہ مجبوری اور علمی بے بسی خدا کا یقین دلاتی ہے اور ایمان میں تازگی پیدا کرتی ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح (زندگی) کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں کہ یہ میرے رب کے حکم اور فرمان سے عبارت ہے : ’’قُلْ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی‘‘۔ ( بنی اسرائیل: ۸۵)
پس انسان اپنی ’’ زندگی ‘‘ کا خود مالک نہیں ہے ؛ بلکہ امین ہے، زندگی اس نے حاصل نہیں کی ہے؛ بلکہ اسے عطا فرمائی گئی ہے، یہ اس کے پاس خالق کائنات کی امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کا علاج کرنے کی تاکید فرمائی، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا علاج کرایا اور اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ علاج کرانا توکل کے خلاف نہیں ؛ کیوں کہ توکل اور قناعت کے اعلیٰ درجہ پر حضراتِ انبیاء کرام فائز تھے، اوروہ علاج بھی کراتے تھے اور حفظانِ صحت کے اُصول کی رعایت بھی کرتے تھے ۔
کوئی بھی ایسا عمل جو انسانی صحت یا زندگی کے لئے مضرت رساں ہو اور انسانی زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو، جائز نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسی چیز کے کھانے سے منع فرمایا، جو نشہ آور یا جسم کو نقصان پہنچانے والی ( مفتر) ہو ’’ مفتر‘‘ یعنی جسم کے لئے مضرت رساں چیزوں کے کھانے کی ممانعت تو ظاہر ہے کہ صحت اور زندگی کے تحفظ کے لئے ہے ؛ لیکن نشہ آور چیزوں سے منع کرنے کی وجہ جہاں یہ ہے کہ اس سے انسان کی عقل و فہم پر زد پڑتی ہے اور بہت سے اخلاقی مفاسد اس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، وہیں یہ بھی ہے کہ یہ ایک میٹھا زہر ہے، جو موت کی طرف زندگی کے سفر کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے ۔
اسی لئے فقہاء نے نباتات میں ایسی چیزوں کے کھانے کو ناجائز قرار دیا ہے، جو زہر کے قبیل سے ہوں اور انسانی زندگی کے لئے خطرہ کا باعث ہو سکتی ہوں۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۳؍۵۰۶)
اسلام تو اللہ کی عبادت اور بندگی میں بھی ایسے غلو کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی صحت کو برباد کر لے اور جان جوکھم میں ڈالے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض حضرات نے یہ معمول بنالیا تھا کہ رات بھر عبادت میں مشغول رہتے اور دن میں روزہ رہتے، ایک دوسرے صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس سے منع کیا اور فرمایا: تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے ، تمہارے اپنے وجود کا بھی حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی حق ہے ، اس لئے کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو ، نماز بھی پڑھو اور سونے کا بھی اہتمام کرو ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان ص کے نقطۂ نظر کو درست قرار دیا اور تصویب فرمائی، ( بخاری : ۱؍۲۶۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بچانے کے لئے دوا کے طور پر ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں ۔ ( بخاری:۱؍۴۶)
یہ اور اس طرح کی اسلامی تعلیمات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جیسے اسلام نے دوسروں کی جان بچانے کا حکم دیا ہے ، اسی طرح انسان پر یہ بات بھی واجب ہے کہ وہ بحد امکان اپنی جان کی حفاظت کرے ؛ کیوں کہ زندگی اس کے پاس خدا کی امانت ہے اور امانت کی حفاظت اسلامی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے ؛ اسی لئے اسلام کی نگاہ میں ’’ خود کشی‘‘ بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے، ایسا گناہ جو اس کو دنیا سے بھی محروم کرتا ہے اور آخرت سے بھی، خود قرآن مجید نے خود کشی سے منع فرمایا ہے ، ارشاد ہے : ’’ لا تقتلوا انفسکم‘‘ (النساء: ۲۹) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں جن میں نہایت سختی اور تاکید کے ساتھ خودکشی کو منع فرمایا گیا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں بھی اسی طرح ہمیشہ گرتا رہے گا، اور جس شخص نے لوہے کی ہتھیار سے خود کو ہلاک کیا، وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے پیٹ میں ہتھیار گھونپتا رہے گا، (بخاری، حدیث نمبر : ۵۷۷۸) ایک اور روایت میں ہے کہ گلا گھونٹ کر خودکشی کرنے والا جہنم میں ہمیشہ گلا گھونٹتا رہے گا اور اپنے آپ کو نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۳۶۵ ، عن ابی ہریرۃؓ)
حضرت طفیل بن عمر دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک اور صاحب نے مدینہ ہجرت کی، وہ دوسرے صاحب بیمار پڑ گئے، تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہوسکا اور ایک ہتھیار سے اپنی اُنگلیوں کے جوڑ کاٹ لئے، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہوگیا، حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خواب میں دیکھا کہ وہ بہتر حالت میں ہیں ؛ لیکن ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیا؟ ان صاحب نے کہا: اللہ نے ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف کر دیا؛ لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے، میں اسے درست نہیں کرسکتا، حضرت طفیل نے یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ ا نے دُعاء فرمائی کہ بار الہا! ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما دے ! (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۱۶ ، عن جابر ؓ)
صحابیٔ رسول حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا، وہ تکلیف برداشت نہ کرسکا، چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا، خون تھم نہ سکا اور موت واقع ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بندہ نے اپنی ذات کے معاملہ میں مجھ پر سبقت کرنے کی کوشش کی، اس لئے میں نے اس پر جنت حرام کر دی، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۴۶۳ ، مسلم ، حدیث نمبر : ۱۱۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت مجسم تھے؛ لیکن اس کے باوجود حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، (مسلم ، حدیث نمبر : ۹۷۸ ، سنن ترمذی، حدیث نمبر : ۱۰۶۸) اسی لئے ایک جلیل القدر فقیہ اور محدث امام احمدؒکا خیال ہے کہ خودکشی کرنے والے شخص پر عام لوگ تو نمازِ جنازہ پڑھیں گے؛ لیکن امام المسلمین نماز جنازہ نہیں پڑھے گا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر : ۱۰۶۸ کے ذیل میں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خودکشی اسلام کی نگاہ میں کتنا سنگین جرم ہے؟ یہ در اصل زندگی کے مسائل اور مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرنا ہے اورآزمائشوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نکلنے کی ایک غیر قانونی اور ایک غیر انسانی تدبیر ہے، بدقسمتی سے ایمان سے محرومی یا کمزوری اور اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی کے باعث اس وقت پوری دنیا میں خودکشی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے، مغربی ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے عرصہ سے خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، مغربی ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے عرصہ سے خودکشی کو انسان کا نجی حق تسلیم کیا جاتا ہے، جو لوگ طویل عرصہ سے بیمار ہوں، ان کو بعض مغربی ملکوں میں مہلک انجکشن لگوا کر مرجانے کی قانونی اجازت حاصل ہوگئی ہے ؛ بلکہ ان کے ورثاء اور رشتہ داروں کو بھی اس کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس کو ’’ قتل بہ جذبۂ رحم‘‘ کا خوبصورت نام دیا گیا ہے ۔
ہندوستان میں جہیز کی وجہ سے خود کشی کا مسئلہ سماجی ناسور بن گیا ہے، 1980 اور 1990 ء میں تو جہیز کی وجہ سے خود کشی کے مسئلہ نے سنگین صورت اختیار کر لی تھی، جس کی وجہ سے حکومت کو جہیز مخالف سخت قوانین بنانے پڑے اور زبردست مہم چلانی پڑی، تعلیم کے عام ہونے اور فرسودہ رسم ورواج کے بند ڈھیلے ہونے سے جہیز کے لئے قتل وخود کشی کے واقعات میں کمی تو آئی ہے؛ لیکن اب بھی حالت یہ ہے کہ نیشنل کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق 2014 سے 2016ء کے درمیان تین سالوں میں جہیز کی وجہ سے تیس ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، یہ وہ ریکارد ہے جو حکومت کے علم میں ہے؛ لیکن ایسی اموات جو جہیز کی وجہ سے ہوئیںاور حکومت کے علم میں نہیں ہیں، اندیشہ ہے کہ ان کا تخمینہ مذکورہ ریکارڈ سے بھی زیادہ ہوگا۔
چند روز قبل احمد آباد کی لڑکی عائشہ کی خود کشی کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے، اس کی جڑ بھی جہیز کا مطالبہ اور سسرال کے افراد کی جانب سے بدسلوکی ہے، اس لرزہ خیز واقعہ پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے، اور وہ بھی ایسے لوگوں کی جانب جو اللہ اور اس کے رسول کا نام لیتے ہوں اور خود کو مسلمان کہتے ہوں، اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور ہندوانہ رسوم ورواج سے قربت ہے اور اس رسم کو بھی جڑ سے تبھی مٹایا جا سکتا ہے، جب نہ صرف شادی بیاہ میں بلکہ پوری زندگی میں اسلامی تعلیمات کو اپنایا جائے۔
اس موقع پر بعض افراد کی طرف سے جس طرح جہنمی ہونے کی بات کہی گئی ہے اور کہی جا رہی ہے، وہ بھی نہایت افسوسناک ہے، کسی برے فعل کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس پر جہنم کی سزا ہے؛ لیکن کسی متعین فرد کے بارے میں جہنمی ہونے کی بات کہنا نہایت خطرناک اور خدائی اختیار میں شریک ہونا ہے، کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں، اس کا حتمی فیصلہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اختیار میں ہے، ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم برے افعال کے نتائج وعواقب اور اس پر قرآن وحدیث میں وارد ہونے والی سزا سے ڈرائیں؛ لیکن کسی برے فعل کے مرتکب پر جہنمی ہونے کا حکم لگانا بہت جسارت اور جرأت کی بات ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ برے فعل کے مرتکب کو تو اپنی رحمت سے بخش دیں اور بے جا جسارت کے جرم میں اس کو پکڑ لیں، یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ کیا واقعہ کسی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے تو پیش نہیں آیا؟ ایسے میں انسان معذور ہوتا ہے۔
مقامِ افسوس بھی ہے اور لائق حیرت بھی کہ بہت سے مسلمان بھی اب اس کاشکار ہورہے ہیں ، لائق حیرت اس لئے کہ خود کشی بنیادی طور پر ایمان کی کمزوری یا اس سے محرومی کی وجہ سے کی جاتی ہے، جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہو، یقین کرتا ہو کہ خدا دشواریوں کی سیاہ رات سے آسانی اور اُمید کی صبحِ نو پیدا کرسکتا ہے، جو شخص تقدیر پر ایمان رکھتا ہو کہ خوش حالی اور تنگ دستی اور آرام و تکلیف اللہ ہی کی طرف سے ہے، صبر و قناعت انسان کا فرض ہے، اور جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ زندگی کے مصائب سے تھکے ہوئے مسافروں کے لئے وہاں راحت و آرام ہے اور زندگی کی آزمائشوں سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ کی پکڑ اور عذاب ، وہ کیسے مشکل وقتوں میں خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھنے یا بارگاہِ ربانی میں دست سوال پھیلانے اور خدا کی رحمت سے اُمید رکھنے کے بجائے مایوس ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا ؟؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات لوگوں کو بتائے جائیں، سماج میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگدستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اورتعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قائم کریں او رباہر سے آنے والی بہو کو محبت کا تحفہ دیں، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے سماج کو زخمی کیا ہوا ہے، ان کو کاٹنے کی کوشش کریں، شادی ، بیاہ کے مرحلوں کو آسان بنائیں، اور جو لوگ ذہنی تناؤ سے دو چارہوں اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں، ان میں جینے اور مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں، کہ بقولِ حضرت کلیم :
سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.