Baseerat Online News Portal

خورشیدانوارعارفی : آسمان صحافت کاخورشیدمبیں

محمدنافع عارفی

کارگزارجنرل سکریٹری ملی کونسل بہار

شخص سے شخصیت تک کاسفربڑاکٹھن،جاں گسل،صبرآزماہوتاہے،ایک شخص جب میدان عمل میں قدم رکھتاہے، تواس کے سامنے کارگاہ عمل لق ودق صحراکے مانندکھڑاہوتاہے،اسے کارزندگی کاانتخاب کبھی کبھی توسالوں پریشان رکھتاہے،فردکاکمال یہ ہے کہ وہ اپنے مزاج ومذاق کے مطابق اپنی زندگی کانصب العین متعین کریں،میدان عمل کی آورہ گردی کامیابی کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکاتی ہے،لیکن جنہیں اپنی شخصیت سازی کاہنرآتاہے،وہ اگربھٹک کرکہیں اورنکل بھی جاتے ہیں،توواپس اس میدان کاانتخاب کرتے ہیں،جہاں ان کاہنرکرشمہ سازی کرسکے۔خورشیدانوارعارفی میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے،ڈھاکہ میں تعلیمی سلسلہ جاری تھا،اچھے ڈاکٹربن سکتے تھے اوران کے لیے اس کاموقع تھاکہ وہ ڈاکٹری کے ذریعہ خدمت خلق کاپیشہ اپنائیں،لیکن لامحدودفکراورفضامیں پروازکی تمنانے انہیں مجبورکیاکہ وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھیں،اپنی خودنوشت میں تحریرکرتے ہیں:

”میڈیکل کی تعلیم ڈھاکہ میں چھوڑکرپٹنہ آیا،تومحض حادثہ کے طورپراردوصحافت سے دوچارہوا“۔

عارفی صاحب کی ولادت 20جنوری 1934ء کوکوئیلورشاہ آبادمیں ہوئی جواب آرہ کہلاتا ہے۔کہاجاتاہے کہ ان کے جدامجدحضرت مومن عارف 576ھ میں یمن سے ہندوستان تشریف لائے اورمنیرشریف کو اپناوطن بنایا،حضرت مومن عارف سے اب تک یہ خاندان علم وقلم کی آبیاری کرتارہاہے۔عارفی صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کاآغازپٹنہ کے اخبارات کے کالم نگاری سے کیا۔1963ء میں انہوں نے اپنااخبار”صدائے ہند“جاری کیا؛جس کے وہ ایڈیٹربھی تھے،مومن کانفرنس کاترجمان المومن جب جاری ہوا،توخورشیدانوارعارفی اس کے مدیربنائے گئے،ان کے مضامین مختلف ملک وبیرون ملک سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات ورسائل میں عزت واحترام سے شائع کیے جاتے تھے۔ہفت روزہ عوام،نئی دنیادہلی،مساوات لندن وغیرہ میں اکثروبیشتران کے مضامین شائع ہوتے تھے۔1980ء میں عارفی صاحب نے دہلی سے پندرہ روزہ باتصویرمیگزین ”معاملات“جاری کیااوراس کی ادارت کی ذمہ داری بھی خودہی سنبھالی۔

عارفی صاحب مرحوم کاملی تنظیموں سے گہرااورقلبی لگاؤ تھا،وہ آل انڈیاملی کونسل بہارکے سرپرست اوراس تنظیم کے قدیم مخلصین میں سے تھے۔امارت شریعہ،جمعیت علماء ہند،جماعت اسلامی،مجلس مشاورت وغیرہ سے ان کے گہرے روابط تھے،ان تنظیموں کی میٹنگوں میں پابندی سے شرکت کیاکرتے تھے اوراپنے مفیدمشورے سے نوازتے تھے، تمام ملی تنظیمیں انہیں قدروعزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔پیرانہ سالی اورمرض کے حملوں کے باوجودجب تک صحت نے کسی حدتک اجازت دی،وہ ملی کونسل کے پروگراموں میں پابندی سے شرکت فرماتے تھے،اس سے ان کی ملی کاموں کے تئیں جذبہئ صادق کااندازہ لگانامشکل نہیں ہے۔آل انڈیاملی کونسل بہارنے 30جنوری 2019ء C.A.Aاور N.R.C.جیسے سیاہ قوانین کے خلاف کرشن میموریل ہال میں ایک بڑاکنوینشن کیا،عارفی صاحب نے اس کنوینشن میں نہ صرف شرکت کی،بلکہ پورے دن رونق اسٹیج رہے اوربڑی بے باکی سے اس ظالمانہ قانون کے خلاف اپنی آوازبلندکی، عارفی صاحب کاقلم بے باک،نڈراورحقیقت پسندتھا،وہ حق بات لکھنے میں نہ شرماتے تھے نہ ڈرتے تھے،گجرات فساد پران کی کتاب میرے اس دعوے کی زندہ شہادت ہے،عارفی صاحب اردوانگریزی دونوں زبانوں پردسترس رکھتے تھے،اردوزبان میں ان کی کتاب”سفروسیلہئ ظفر“،”میرے شب وروز“،”ہندوستان انتشارکی بھنورمیں“،”مومن تحریک اورانصاری برادری“وغیرہ ہے۔ہندوستان انتشاربھنورمیں دراصل Indian Nation in Turmoilکاترجمہ ہے،یہ ترجمہ مشہورافسانہ نگارمحترمہ ذکیہ مشہدی کے قلم سے ہے۔انہوں نے انگریزی میں ڈاکٹرجگن ناتھ مشراکی سوانح لکھی،جن سے ان کی قریبی مراسم تھے۔گجرات فسادپران کی کتاب Gujrat Blot On the Nationہے،یہ کتابیں خورشیدانوارعارفی کوعلمی دنیامیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔عارفی صاحب نے اپنی خودنوشت میں ایک جگہ یہ دعویٰ کیاہے:

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑجاؤں گا

میں ڈوب بھی گیاتوشفق چھوڑجاؤں گا

یقیناًعارفی صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں،لیکن ان کی تحریریں اوران کی کتابیں ہمیں زندگی کے پیچ وخم کے سمجھنے کادرس دیتی رہیں گی،ان کانام خورشیدتھا،ہرخورشیدکوایک نہ ایک ڈوب جاناہے،وہ بھی ڈوب گئے،لیکن اس خورشیدکی کرنیں اردوصحافت کوآج بھی روشنی بخش رہی ہیں،جوبھی آیاہے،اسے جاناہے،آفتاب وماہتاب ہویاخورشید انوار، بقاصرف اللہ کے لیے ہے۔میری دعاہے

تیری لحدپرخداکی رحمت

تیری لحدکوسلام پہونچے

Comments are closed.