Baseerat Online News Portal

خیرخواہی عظیم نعمت

محمد حذیفہ معاویہ تونسوی
فون: 03485814615
جہالت کے اس پرفتن دور میں اسلام کا صرف فلسفہ رہ گیا ہے۔ بلکہ اب تو یہ کہنا چاہیے کہ صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے،کیونکہ آج کے نام نہاد دانشور اسلام اور شریعت پر عمل تو دور کی بات اس کا نام سنتے ہی ایسے بھڑک اٹھتے ہیں جیسے پڑول پر ماچس کی تیلی پھنک دی گئی ہو۔ اس دور میں جہاں باقی احکام شریعت متاءثر ہوئے ہیں وہاں جس اہم چیز جس سے "امت مسلمہ” محروم ہوئی ہے، وہ "خیر خواہ” کا جذبہ و ولولہ اور بھائی چارہ ہے۔ ایک وقت ہوا کرتا تھا جب اپنی جان سے بھی زیادہ دوسرے مسلمان کی عزت اور جان کی حفاظت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ آج مسلمان خود مسلمان کی مال و جان اور اولاد کا دشمن بن چکا ہے۔ اسے صرف اپنا نفع اور فائدہ مطلوب ہے، چاہیے اس سے کسی مسلمان بھائی کا گھر بار ہی کیوں نہ لٹ جائے۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر "صحابہ کرام رض” زخمی ہو گئے۔ ایک شخص زخمیوں کو پانی پلا رہاتھا، اچانک اس کی نظر اپنے ہی قریبی رشتے دار پر پڑی جو زخموں سے چور ، خون میں لت پت، بے پوشی کے عالم میں پانی۔۔۔ پانی ۔۔۔۔پکار رہا تھا۔ وہ فورا اس کی طرف لپکا اور پانی اس کے قریب کر دیا۔ ابھی اس نے برتن کو منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ قریب سے کسی اور زخمی کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔ پانی ۔۔۔پانی۔۔۔۔پہلے زخمی نے پانی پینے سے انکار کر دیا اور کہا اس کو پہلے پانی پلا دو۔ وہ شخص پانی لے کر دوسرے کے پاس پہنچا تو کسی تیسرے نے پانی کے متعلق صدا لگائی۔ دوسرے نے بھی یہ کہ کر پینے سے انکار کر دیا کہ پہلے میرے اس بھائی کو پانی پلا دو۔ وہ پانی لے کر تیسرے شخص کے قریب پہنچا تو وہ زخموں کی تاب نہ لا کر آخرت کے سفر پر جا چکا تھا۔ پانی والا دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی دم توڑ چکا تھا وہ پانی کا پیالہ کر فورا پہلے کی طرف لپکا، مگر افوس بہت دیر ہو چکی تھی، پہلا زخمی بھی اجل کو لبیک کہتے ہوئے جان آفرین کے سپرد کر چکا تھا۔
کیا ہی ان لوگوں میں خیرخواہی و ہمدری کا جذبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جان تک تو دے دی لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ میں اپنی بھائی سے پہلے پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتار لو۔ آج امت ایسے لوگوں سے محروم ہو چکی ہے۔ آسمان انہیں دیکھنے کے لیے ترس رہا ہے،زمین نوحہ خواں ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب ایسے لوگوں کے مبارک قدم میرے پیٹھ کو چھوئیں گے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک لشکر کا گزرکجھور کے باغ سے ہوا۔انہوں نے وہاں پڑاءو ڈالا۔ کجھور کے مالک نے انہیں کجھور کی ایک ٹوکری پیش کی جسے انہوں نے کھا لیا۔ اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔
کچھ دن بعد اسی باغ کے قریب ایک اور لشکر نے بھی پڑا ڈالا۔ باغ کے مالک نے حسب عادت اس لشکر کو بھی کجھور کی ایک ٹوکری پیش کی۔ یہ بھی ایک انوکھی بات ہے کہ اس وقت کے لوگ رنگ و نسل اور قومیت سے بالا تر ہو کر صرف انسانیت کے ناطے دوسرے کی خدمت اور مہمان نوازی میں آگے بڑھتے تھے۔ ان کے آپس کے مقابلے خیر خواہ، سخاوت اور نیکی کے لئے ہوتے تھے، مگر آج ہمارے مقابلے، لڑائیوں،فلموں اور ڈراموں میں ہوتے ہیں۔ خیر اس لشکر نے بھی کجھور کھالی۔ جب وہ کھا چکے تو باغ کے مالک نے پوچھا کہ کیا آپ اس لشکر سے جنگ کے لیے جا رہے ہیں جو کچھ دن پہلے گزرا؟؟جی ہاں انہوں نے جواب دیا۔ باغ کے مالک نے کہا کہ یاد رکھو تم اس لشکر سے کبھی بھی نہیں جیت سکتے۔۔۔۔۔ جب میں نے ان کو کجھوریں پیش کی تو ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کی ردی کجھوریں میں کھا لوں اور اچھی میرے ساتھیوں کے لیے رہ جائیں۔ اسی لیے آخر میں صرف اچھی کجھوریں ہی رہ گئی تھیں۔ جبکہ آپ میں سے پر شخص کی چاہت تھی کہ اچھی مجھے ملیں اور ردی میرے دوسرے ساتھی کھا لیں یہی وجہ ہے کہ آخر میں تما م ردی کجھوریں ہی رہ گئی ہیں۔ اس واقعے میں پہلا لشکر "صحابہ کرام رض”کا اور دوسرا لشکر کفار کا تھا۔
صحابہ کرام میں یہی وہ جذبہ تھا کہ جس کی بدولت وہ آپس میں شیر اور شکر تھے۔ قلیل ہونے کے باوجود آپس میں ایسا اتفاق تھا کہ دنیا کی بڑی سلطنتیں،حتی کہ قیصر و کسری جیسی طاقتیں بھی ان کے قدموں میں جھک گئیں۔ وہ دنیا کے کامیاب ترین فاتح تھے جہاں بھی قدم تھے کامیابی ان کے قدم چومتی ۔ اسی وجہ سے ان کو انبیاءعلیہ السلام کے بعد دنیا کے مقدس ترین لوگ کہا گیا۔ جن کے تذکرے رب تعالی نے اپنے کلام اللہ میں فرمائے۔ وہ آپس میں رحماءبینھم( ایک دوسرے سے محبت کرنے والے) کی عملی تصویر تھے،جب کہ کفار کے معاملے میں ’’اشداء علی الکفار‘‘( کافروں کے معاملے میں سخت ) تھے۔
آج ہماری پستی کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ ہمارے اندر” خیرخواہی” کے جذبے کا فقدان ہے۔ اسلام کی یہ نعمت ہمارے ہاتھ سے ایسی نکل چکی ہے جیسے کمان سے تیر۔۔۔۔۔
پہلے والی محبتیں،الفتیں خیرخواہی کے جذبات، آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں میں بدل چکے ہیں۔اسلام مخالف قوتیں اور غیر مسلم قومیں "امت مسلمہ” کے خلاف متحدہ ہو چکی ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے اندر خیرخواہی کا جذبہ اجاگر کریں۔حدیث مبارک پر عمل کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لیے ہم چاہتے ہیں۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب کفر کے ہاتھوں مسل کر رکھ دیئے جائیں،پھر تنکوں کی مثل ہوا میں بکھر جائیں اور عالم میں ہماری مدد کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔

Comments are closed.