Baseerat Online News Portal

داستان ایمان فروشوں کی(قسط -1)

تلخیص: ابو حمران
سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام ، اس کی عظمت اور اس کے کارناموں سے کون واقف نہیں ؟ ملت اسلامیہ تو اسے بھول ہی نہیں سکتی۔ مسیحی دنیا بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو ہمیشہ یاد رکھے گی؛ لہذا یہ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا شجرہء نسب تفصیل سے بیان کیا جائے ۔
ہم جو کہانی سنانے والے ہیں وہ اس نوعیت کی ہے کہ تاریخ کا دامن تنگ پڑجاتا ہے۔
تاریخ اسلام کے اس ہیرو کا حقیقی ڈرامہ 23 مارچ 1169 کے روز سے شروع ہوتا ہے جب صلاح الدین ایوبی کو مصر کا وائسرائے اور فوج کا کمانڈر انچیف بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا رتبہ ایک تو اس لیے دیا گیا کہ وہ حکمران خاندان کا نونہال تھا اور دوسرے اس لیے کہ اوائل عمر میں ہی وہ فن حرب و ضرب کا ماہر ہوگیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پائی تھی، اس کے ذہن میں حکمرانی کا معنی بادشاہی نہیں اسلام کی پاسبانی اور قوم کی عظمت اور فلاح و بہبود تھی، اس کا جب شعور بیدار ہوا تو پہلی خلش یہ محسوس کی کہ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف یہ کہ اتحاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی گریز کرتے تھے، وہ عیاش ہو گئے تھے، شراب اور عورت نے جہاں ان کی زندگی رنگین بنا رکھی تھی وہاں عالم اسلام اور خدا کے اس عظیم مذہب کا مستقبل بھی تاریک ہوگیا تھا۔
ان کے امیروں ،ان کے وزیروں اور مشیروں کے حرم غیر مسلم لڑکیوں سے بھرے رہتے تھے، زیادہ تر لڑکیاں یہودی اور عیسائی تھیں جنہیں خاص تربیت دے کر ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا۔
غیر معمولی حسن اور ادکاری میں کمال رکھنے والی یہ لڑکیاں مسلمان حکمرانوں اور سربراہوں کے کردار اور قومی جذبے کو دیمک کی طرح کھا رہی تھیں۔
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ صلیبی (جن میں فرینک فرنگی خاص طور پر قابل ذکر ہے) مسلمانوں کی سلطنتوں کے ٹکڑے ہڑپ کرتے چلے جارہے تھے، اور بعض مسلم حکمران شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس یا جزیہ ادا کر رہے تھے جس کی حیثیت غنڈہ ٹیکس کی سی تھی۔ صلیبی اپنی جنگی قوت کے رعب اور چھوٹے چھوٹے حملوں سے مسلمان حکمرانوں کو ڈراتے رہتے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیتے تاوان اور ٹیکس وصول کرتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آہستہ آہستہ دنیائے اسلام کو ہڑپ کر لیا جائے، مسلمان حکمران اپنی رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رہتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں عیش و عشرت میں پریشان نہ کیا جائے۔
فرقہ پرستی کے بیج بو دیے گئے تھے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک فرقہ حسن بن صبَّاح کا تھا، جو صلاح الدین ایوبی کی جوانی سے ایک صدی پہلے معرض وجود میں آیا تھا، یہ مفاد پرستوں کا فرقہ تھا ، بے حد خطرناک اور پراسرار۔۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ’’ فدائی‘‘کہلاتے تھے جو بعد میں حشیشین کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ وہ حیشیش نام کی ایک نشہ آور شے سے دوسروں کو اپنے جال میں پھانستے تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے مدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی، یاد رہے کہ نظام الملک دنیائے اسلام کی ایک سلطنت کے وزیر تھے یہ مدرسہ انھوں نے قائم کیا تھا، جس میں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی، اور بچوں کو اسلامی نظریات اور تاریخ سے بہرہ ور کیا جاتا تھا۔
ایک مورخ ابن الاطہر کے مطابق نظام الملک، حسن بن صباح کے فدائیوں کا پہلا شکار ہوئے تھے کیونکہ وہ رومیوں کی توسیع پسندی کی راہ میں چٹان بنے ہوئے تھے رومیوں نے 1091 میں انھیں فدائیوں کے ہاتھوں قتل کرا دیا۔ ان کا مدرسہ قائم رہا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے وہیں تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر میں سپاہ گری کی تربیت اپنے بزرگوں سے لی۔ نورالدین زنگی نے اسے جنگی چالیں سکھائیں، ملک کے انتظامات کے سبق دیے اور ڈپلومیسی میں مہارت دی، اس تعلیم و تربیت نے اس کے اندر وہ جذبہ پیدا کردیا جس نے آگے چل کر صلیبیوں کے لیے سلطان کو بجلی بنادیا۔ اوائل جوانی میں ہی اس نے وہ ذہانت اور اہلیت حاصل کر لی تھی جو ایک سالار اعظم کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ صلاح الدین نے فن حرب و ضرب میں جاسوسی (انٹیلی جینس) کمانڈو اور گوریلا آپریشن کو خصوصی اہمیت دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی جاسوسی کی میدان میں آگے نکل گئے ہیں اور وہ مسلمانوں کے نظریات پر نہایت کارگر حملے کر رہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی نظریات کے محاذ پر لڑنا چاہتا تھا جس میں تلوار استعمال نہیں ہوتی تھی۔ اس کہانی میں آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اس کی تلوار کا وار تو گہرا ہوتا ہی تھا اس کی محبت کا وار اس سے کہیں زیادہ مار کرتا تھا، اس کے لیے تحمل اور بردباری کی ضرورت ہوتی ہے جو اس نے جوانی میں ہی اپنے آپ میں پیدا کر لی تھی۔
سلطان صلاح الدین کو جب مصر کا وائسرائے اور کمانڈر انچیف بناکر بھیجا گیا تو ان سینیئر آفیسروں نے ہنگامہ برپا کردیا جو اس عہدے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
ان کی نگاہ میں صلاح الدین ایوبی ابھی طفل مکتب تھا ، مگر اس طفل مکتب کا جب انہوں نے سامنا کیا، اس کی باتیں سنی تو ان کا احتجاج سرد پڑگیا۔
مؤرخ لین پول کے مطابق سلطان صلاح الدین ڈسپلن کا بہت ہی سخت ثابت ہوا ،اس نے تفریح، عیاشی اور آرام کو اپنے اور اپنی افواج کے لیے حرام قرار دے دیا۔ اس نے اپنی دماغی اور جسمانی قوتوں کو صرف اس مقصد پر مرکوز کردیا کہ سلطنت اسلامیہ کو مستحکم کرنا ہے، اور صلیبیوں کو اس سرزمین سے نکالنا ہے۔وہ فلسطین پر ہر قیمت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس نے یہی مقاصد اپنی فوج کو دیے۔
مصر کا وائسرائے بن کر سلطان نے کہا۔۔۔۔۔۔۔
’’ خدا نے مجھے مصر کی سرزمین دی ہے۔ اس کی ذاتِ باری مجھے فلسطین بھی ضرور عطا کرے گی۔‘‘
مگر مصر پہنچ کر اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا مقابلہ صرف صلیبیوں سے نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں نے اس کی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بچھا رکھے ہیں جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوت سے زیادہ خطرناک ہیں ۔
مصر میں جن زعما نے سلطان کا استقبال کیا ان میں ناجی نام کا سالار خصوصی اہمیت کا حامل تھا، ان زعما کی نگاہوں میں صلاح الدین ایوبی کی اہمیت بس اس کے خاندان کی بدولت تھی یا اس وجہ سے انہوں نے اسے اہمیت دی کہ وہ مصر کا فوجی وائسرائے بن کر آیا تھا اس کے سوا انھوں نے صلاح الدین ایوبی کو کوئی وقعت نہ دی، ایک بوڑھے افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کان میں کہا:’’بچہ ہے، اسے ہم پال لیں گے،‘‘۔
اور واقعی سلطان ایوبی استقبال کرنے والے اس ہجوم میں بچہ ہی لگ رہا تھا، البتہ جب وہ ناجی کے سامنے مصافحہ کے لیے رکا تو ایوبی کے چہرے پر تبدیلی سی آگئی ۔وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا لیکن ناجی جو اس کے باپ کی عمر کا تھا پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا پھر ایوبی سے بغل گیر ہوگیا اس نے ایوبی کی پیشانی چوم کر کہا۔
’’میرے خون کا آخری قطرہ بھی تمہاری جان کی حفاظت کے لیے بہے گا، تم میرے پاس زنگی اور شرکوہ کی امانت ہو‘‘۔
’’میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں‘‘صلاح الدین ایوبی نے ناجی کا ہاتھ چوم کر کہا۔’’ محترم! اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیے، صلیبی سیاہ گھٹاؤں کی مانند چھا رہے ہیں۔‘‘
ناجی جواب میں صرف مسکرایا جیسے صلاح الدین ایوبی نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔
صلاح الدین ایوبی اس تجربہ کار سالار کی مسکراہٹ کو غالبا نہیں سمجھ سکا۔
ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا، وہ مصر میں باڈی گارڈز کا کمانڈر انچیف تھا۔جس کی نفری پچاس ہزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی۔یہ فوج اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے لیس تھی اور یہی فوج ناجی کا ہتھیار بن گئی تھی جس کے زور پر ناجی بے تاج بادشاہ بن گیا تھا، وہ سازشوں اور مفاد پرستوں کا دور تھا ، اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی تھی، صلیبیوں کی بھی نہایت دلکش تحزیب کاریاں شروع تھیں۔زر پرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔جس کے پاس ذرا سی بھی طاقت تھی وہ اس کو دولت اور اقتدار کے لیے استعمال کرتا تھا۔سوڈانی باڈی گارڈز فوج کا کمانڈر ناجی مصر میں حکمرانوں اور دیگر سربراہوں کے لیے دہشت بنا ہوا تھا۔ قدرت نے اسے سازشی دماغ دیا تھا۔ناجی کو اس دور کا بادشاہ ساز کہا جاتا تھا، بنانے اور بگاڑنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سلطان صلاح الدین کو دیکھا تو اسکے چہرے پر ایسی مسکراہٹ آئی جیسے ایک کمزور اور نحیف بھیڑ کو دیکھ کر بھیڑیے کے دانت نکل آتے ہیں، سلطان صلاح الدین اس زہر خند کو سمجھ نہیں سکا۔ سلطان صلاح الدین کے لیے سب سے زیادہ اہم آدمی ناجی ہی تھا؛کیونکہ وہ پچاس ہزار باڈی گارڈز کا کمانڈر تھا۔اور سلطان صلاح الدین کو فوج کی بہت اشد ضرورت تھی۔ سلطان صلاح الدین سے کہا گیا کہ حضور بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں تو سلطان صلاح الدین نے کہا:
’’میرے سر پر جو دستار رکھی گئی ہے میں اس کے لائق نہ تھا، اس دستار نے میری نیند اور آرام ختم کردی ہے کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے لے کر نہیں جائیں گے جس کے نیچے میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
’’کیا حضور کام سے پہلے طعام لینا پسند کریں گے؟‘‘ اسکے نائب نے کہا۔
سلطان صلاح الدین نے کچھ سوچا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔۔ ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک لمبی میز رکھی گئی تھی، جس پر رنگا رنگ پھول رکھے ہوئے تھے ان کے بیچ بروسٹ کیے گئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے، سالم مرغ اور انواع و قسام کے کھانے تھے، سلطان صلاح الدین رک گیا اور اپنے نائب سے کہا: ’’کیا مصر کا ہر باشندہ ایسا ہی کھانا کھاتا ہے؟‘‘
’’نہیں حضور! غریب تو ایسے کھانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے،‘‘ نائب نے کہا۔
’’تم کس قوم کے فرد ہو ؟‘‘۔ سلطان صلاح الدین نے کہا ’’ کیا ان لوگوں کی قوم الگ ہے جو ایسے کھانوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
’’اس جگہ جتنے ملازم ہیں اور جتنے سپاہی ڈیوٹی پر ہیں ان سب کو بلاؤ اور یہ کھانا ان کو دے دو۔‘‘ سلطان صلاح الدین نےلپک کر ایک روٹی اٹھائی، اس پر دو تین بوٹیاں رکھی اور کھڑے کھڑے کھانے لگا،نہایت تیزی سے روٹی کھا کر پانی پیا اور باڈی گارڈز کے کمانڈر ناجی کو ساتھ لے کر اس کمرے میں چلا گیا جو وائسرائے کا دفتر تھا۔
دو گھنٹے بعد ناجی دفتر سے نکلا دوڑ کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا ایڑ لگائی اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رات ناجی کے دو کمانڈر جو اسکے ہمراز تھے اس کے ساتھ بیٹھے شراب پی رہے تھے، ناجی نے کہا:’’جوانی کا جوش ہے تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کرادوں گا، کم بخت جو بھی بات کرتا ہے کہتا ہے رب کعبہ کی قسم! صلیبیوں کو ملت اسلامیہ سے باہر نکال کر ہی دم لوں گا۔‘‘
’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ ۔ایک کمانڈر نے طنزیہ کہا۔’’ اتنا بھی نہیں جانتا کہ ملت اسلامیہ کا دم نکل چکا ہے اب تو صرف سوڈانی ہی حکومت کریں گے‘‘۔
’’کیا آپ نے اسے بتایا نہیں کہ یہ پچاس ہزار کا لشکر سوڈانی ہے اور یہ لشکر جسے وہ اپنی فوج سمجھتا ہے صلیبیوں کے خلاف نہیں لڑے گی؟‘‘ دوسرے کمانڈر نے ناجی سے پوچھا۔
’’تمھارا دماغ ٹھکانے ہے اوروش ۔۔۔؟ میں اسے یقین دلا آیا ہوں کہ یہ پچاس ہزار سوڈانی شیر صلیبیوں کے پرخچے اڑا دیں گے ۔۔۔لیکن۔۔‘‘ناجی چپ ہو کر سوچ میں پڑ گیا۔
’’ لیکن کیا؟‘‘
’’اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ مصر کے باشندوں کی ایک فوج تیار کرو۔ اس نے کہا ہے کہ ایک ہی ملک کی فوج ٹھیک نہیں ہوتی اس نے کہا ہے کہ مصر کی فوج بناکر سوڈانی فوج میں انہیں شامل کردو‘‘۔ ناجی نے کہا۔
’’تو آپ نے کیا جواب دیا۔؟‘‘
’’میں نے کہا کہ حکم کی تعمیل ہوگی؛ لیکن میں اس حکم کی تعمیل نہیں کروں گا‘‘، ناجی نے جواب دیا۔
’’مزاج کا کیسا ہے؟‘‘اوروش نے پوچھا ۔
’’ضد کا پکا معلوم ہوتا ہے‘‘۔ ناجی نے کہا۔
’’آپ کے دانش اور تجربے کے آگے تو وہ کچھ بھی نہیں لگتا‘‘ دوسرے کمانڈر نے کہا’’نیا نیا امیر مصر بن کر آیا ہے کچھ روز یہ نشہ طاری رہے گا‘‘۔
’’میں یہ نشہ اترنے نہیں دوں گا اسی نشے میں اسے بدمست کر کے ماروں گا‘‘، ناجی نے جواب دیا۔
(جاری)

Comments are closed.