Baseerat Online News Portal

داستان گوشہ جگر – – -!! (٨)

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

میرے عزیز! تمہاری وفات نے اعصاب شکن حملہ کیا ہے، ماہی بے آب اور مرغ بسمل کا عالم ہے، جان بوجھل، روح کثیف اور جسم بے کس ہے، فہم و فہمائش مسلسل جاری ہے، دماغ و دل کی کشمکش میں دونوں برابر کے حصے دار ہیں، اس رزم میں کسی کو پٹخنی دینا اور میدان فتح کر لینا مشکل سا ہوگیا ہے، دل کی گہرائیوں میں وہ اندھیر ہے کہ حوصلے کی روشنی پست ہوجاتی ہے، قلب موت کا کنواں بنا ہوا ہے، اتھاہ سمندر ہے جس میں دہشت و خوف بھی طاری ہے، مگر ایمان کی چنگاری ہی ہے جو ڈوبنے سے بچاتی ہے، لاکھ دل کو تسلی دوں، پھر بھی درد دل میں اضافہ ہوتا ہے، جب کبھی کسی معصوم بچے کو دیکھوں خواہ صوری یا حقیقی ہو ہر حال میں تمہارا روشن چہرہ آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے، وہ تسبم بہ بلب، کلکاری، ہاتھ پاؤں گویا پھول کی ڈالیاں اور باد صبا کا احساس ستانے لگتا ہے، خصوصاً جس دن تم نے جنم لیا تھا اور تمہیں کپڑے میں لپیٹ کر دکھایا گیا تھا اور پھر کفن میں ملبوس پرنور چہرے سے نگاہیں نہیں ہٹتیں، سینے کو تمہاری عجب تپش محسوس ہوتی رہتی ہے، اک حرارت کا احساس ہوتا رہتا ہے جو اندر ہی اندر جگر جلاتی ہے، اور کلجہ کاٹ لے جاتی ہے، گھر کی دیواریں، کمرے، میزیں غرض ایک ایک چیز ماتم کناں معلوم ہوتی ہیں، یومیہ معمول بحال ہورہا ہے، مگر دل میں کہیں ویرانی ساتھ ہی رہتی ہے، زمانہ کے سامنے اگرچہ نگاہیں چمکتی ہیں، درد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس کی نمی جاتی نہیں ہے؛ کیونکہ شاید دل آنسوؤں سے رشتہ جوڑ چکا ہے، ایک محبوب مشغلہ لکھنے پڑھنے کا ہے، مگر لکھوں تو تمہارا درد جھلکتا ہے، قلم کے نیچے بے ساختہ تمہاری تصویر بننے لگتی ہے، پڑھوں تو سطریں ختم نہیں ہوتیں، ہر دوسری سطر پر بھٹک جاتا ہوں، موضوع کی گہرائی اور تحقیق کی تقویت کھوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے، مستقل بیٹھ کر تحقیقات کا دور ابھی شروع نہیں ہوپارہا ہے، کئی موضوعات ادھورے ہیں، علمی سفر کی سینکڑوں چیزیں بکھری ہوئی ہیں مگر سمیٹنے کی ہمت نہیں ہوپارہی ہے-

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میـں تِری تصویر لئے پھرتے ہیں

شاعر کا یہ شعر صرف الفاظ کی تراکیب نہیں ہیں، بلکہ بہت سے ٹوٹے اور شکستہ دلوں کی کہانی ہے، خود لکھنے والا اس سے محروم نہیں ہے، سینے میں تصویر ایسی بَس گئی ہے کہ جہاں جہاں لئے پھرتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوں یا اٹھی ہوئی ہوں ہر حال میں ایک چہرہ سامنے رہ جاتا ہے، میرا یقین کرو! تمہارے جانے کے دوسرے/ تیسرے دن بھی یہی حالت بنی ہوئی ہے، اگر میں یہ کہوں کہ آج بھی وہی حالت ہے تب بھی کچھ غلط نہ ہوگا، ویسے بھی عشق کا مریض کب شفا پایا ہے، کسی چہرے کا عاشق، اداؤں کا دیوانہ، محبت کا مارا، دل لگی کا مسحور کب اس سحر سے آزاد ہوسکا ہے؟ بسااوقات درد ہی دوا بن جاتا ہے، اور شاید یہی درد اب میری دوا بھی ہو، ہر دن اپنے پرائے آتے ہیں اور خبر خیریت لیتے ہیں، تسلی کے الفاظ کہتے ہیں اور دل کو کچھ بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ کچھ لمحے پرسکون ہوجاتے ہیں، بالخصوص تمہاری والدہ نے ١٩/٦/٢٠٢١ء کو ایک مرحلہ عبور کیا ہے، آپریشن کے بعد اب ٹانکے کاٹ دئے گئے ہیں، نرس نے جلد شفا کی بات کہی ہے، مگر بے حد احتیاط اور پرہیز کی تلقین کی ہے، اس مناسبت سے بھی ملنے جلنے کا سلسلہ اور تعزیت اب بھی ہوجاتی ہے، اور اس شعر کا احساس کم ہوجاتا ہے-

ایسا سناٹا کہ جیسے ہو سکوتِ صحرا

ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دہائی دی ہے

تمہیں ایک دلچسپ واقعہ بتاتا ہوں، جو بظاہر معمولی ہے؛ لیکن اس کوہ قاف پر نور کے مانند ظہور ہوا ہے، ایک روز تمہاری بڑی دادی ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور ادھوری معلومات کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کی استقامت اور صبر کا تذکرہ کرنے لگیں، اچانک دل و دماغ کی کھڑکیاں وا ہوئیں اور انبیاء کی سیرتوں کا مطالعہ نگاہوں کے سامنے آگیا، غم کے بادل میں یہ سب کہیں چھپ گئے تھے، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ فرط محبت و عشق میں آپ کی وفات کا انکار کرنے لگے تھے اور لوگوں کو دھمکیاں بھی دے رہے تھے کہ جس کسی نے آپ کو مردہ کہا میں اس کی گردن اتار دوں گا، اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، آپ کی حالت زار پر کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا؛ بلکہ نفسیات کا خیال رکھا اور وہیں قریب میں کھڑے ہو کر قرآن مجید یہ آیت – وما محمد الا رسول، قد خلت من قبلہ الرسل – (آل عمران: ١٤٤) تلاوت فرمائی تو حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ انہیں لگا گویا یہ آیت ابھی ابھی نازل ہوئی ہے، انہوں نے اسے سن کر خود کو سنبھالا اور شریک غم ہوئے – (سنن ابن ماجہ:١٦٢٧) اپنی کیفیت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور حضرت عمر رضی اللہ کے احساس سے موازنہ نہیں کرسکتا، یہ گستاخی اور زبان درازی کی بات ہوگی، عالم انسانیت کا نقصان بھلا میرے نقصان کے سامنے کیا ہے؟ مگر تمہارے بابا کی حالت بھی اس سے بہت الگ نہیں ہوئی ہے؛ پھر تمہاری بڑی دادی جان کا مشکور ہوں کہ اسی کے بعد معاً ان اولوالعزم انبیاء و رسل علیہم السلام کے بارے میں سوچنے لگا جنہوں نے اپنا سب کچھ لٹا دیا، گھر بار اور زندگی کی تمام آسائشیں نچھاور کردیں، نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور دین کی خاطر خود کو بھی قربان کردیا؛مگر اس سے بڑی اور عظیم قربانی اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں قربان کرنے کیلئے راضی ہوجانا تھا، غور کرنے کی بات ہے کہ وہ اللہ کا دوست ابراہیم (علیہ السلام) بھی کیا بندہ خدا ہوگا کہ چھری ہاتھ میں لئے اپنے ہی جگر کو کاٹنے چلا ہے، عزم و ارادے کا یہ حال ہے کہ شیطان وسوسے ڈالتا ہے، حیلے اور بہانے بتاتا ہے مگر وہ سب کو مسترد کرتے ہیں، شیطان کو کنکری تک مارتے ہیں اور رب کی خوشنودی کیلئے بڑھ جاتے ہیں، عشق الہی کا یہ منظر دیکھئے کہ اولاد کی گردن پر چھری رکھ دیتے ہیں، اس کی آنکھوں پر پٹی باندھے، جبین پر پر رکھ کر ذبح کرنے ہی والے ہیں کہ وہ رحیم و کریم معصوم کی قربانی سے روک دیتا ہے اور جنت کا ایک مینڈھا فدیہ دیتا ہے، یہ ادا اتنی پسند آتی ہے کہ اسے تاقیامت عبادت میں شامل کردیا جاتا ہے، ساتھ ہی حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کی یاد آئیں، مولائے کریم! یوحابذ نے کس عزم و توکل اور للہیت کا ثبوت دیا تھا؛ کہ اللہ تعالی کی جانب سے ایک اشارے پر نوزائیدہ لخت جگر موسی کو دریائے نیل میں طوفان کے درمیان صرف ایک صندوق میں بند کر کے ڈال دیا تھا، واقعی اس واقعہ کو پڑھ کر کبھی وہ احساس نہیں ہوا کہ ایک ماں نے کس دل کے ساتھ یہ سب کیا ہوگا؛ لیکن اب سمجھ آتا ہے کہ ان کا امتحان ایسا تھا جس کی سکت ایک ماں کے سوا کسی پاس نہیں۔

کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے

اِسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے

اسلم کولسری کا بھی ایک شعر یاد آرہا ہے جو اس نے اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر کہا تھا؛ جو ایک سراپا درد کی داستان اور بچھڑنے والے سے لگاؤ کی انتہاء ہے، آپ بھی اس شعر کو پڑھتے جائیے!

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.