Baseerat Online News Portal

دعاء، اہمیت اور آداب!

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
انسان کس قدر عاجز ہے کہ ہر لمحہ اور صبح و شام جس چیز کا ضرورت مند ہے ، اسے بھی وجود میں نہیں لاسکتا ، نہ وہ چاول اور گیہوں کا ایک دانہ پیدا کر سکتا ہے ، نہ اپنے لئے پانی کا کوئی قطرہ وجود میں لا سکتا ہے ، نہ وہ ہوا اور آکسیجن کی تخلیق کر سکتا ہے ، جس کے بغیر چند منٹ بھی اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی ! اور خدا کس قدر قادر اور عظیم ہے ، جس نے اتنی بڑی کائنات ہمارے لئے بچھائی ہے اور ہر لمحہ لاکھوں پھل پھول ہیں ، جن کو وہ پیدا کرتا ہے ، پھر وہ مہربان اور رحم دل بھی کس قدر ہے ، کہ اس نے سورج کا ایسا چراغ جلا رکھا ہے ، جس کی روشنی ہر آنگن میں پہنچتی ہے اور جس کے حکم سے گھٹائیں رحمت بہ امان ہو کر ہر کھیت کی پیاس بجھاتی ہیں ، یہ آنگن کسی مسلمان کا ہو، یا کسی کافر کا، اور یہ کھیت اللہ کے فرمانبرداروں کے ہوں یا نافرمانوں کے !
جو خدا اس قدر قادر مطلق ہے ، جس کے خزانۂ قدرت میں نعمتوں کی کوئی کمی نہیں ، پھر جو اتنا سخی اور داتا ہے کہ دنیا میں اچھے بُرے کا فرق کئے بغیر سب کو دیتا ہے ، خوب دیتا ہے اوردامن بھر بھر دیتا ہے ، اس سے بڑھ کر کون اس لائق ہو سکتا ہے کہ عاجز و کمزور اور ضرورت وحاجت مندی کا پتلا انسان اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی ضرورتوں کے کشکول اس کے سامنے کھولے کہ اللہ ! اپنے ایک فقیر بے نوا اور گدائے بے آسرا پر نگاہ کرم فرما اور اپنے جود و سخا اور داد و دہش کے دربار سے اس کے عاجز ہاتھوں کو واپس نہ کر — اسی ادائے بندگی کا نام ’’دُعاء ‘‘ ہے۔
دُعاء کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اللہ سے مانگے اور اس سے دُعاء کرے ، ( غافر : ۱۴، ۶۵) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ تم مجھ سے مانگو تومیں تمہاری دُعاء قبول کروں گا ’’ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ‘‘ (غافر : ۶۰) اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا : کہ ان کے پہلو بستر سے الگ ہوتے ہیں اور خوف و طمع کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں ( السجدۃ : ۱۶) ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ اللہ سے اس کے فضل کے طلب گار رہو ’’ وَاسْأَلُواْ اﷲَ مِن فَضْلِہِ‘‘(النساء : ۳۲) رسول اللہا نے جو عبدیت اور بندگی کا نمونہ تھے ، دُعاء کرنے کی خوب ترغیب دی ہے ، آپ نے فرمایا کہ دُعاء در اصل عبادت ہے : ’’ الدعاء ہو العبادۃ‘‘ (ترمذی ،باب ومن سورۃ البقرہ، حدیث نمبر: ۲۹۶۹ ) ایک اور روایت میں آپ ا نے دُعاء کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا ( ترمذی : ۳۳۷۱) مخلوق کا مزاج یہ ہے، کہ اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کو دُعاء سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں (ترمذی، باب ما جاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر: ۳۳۷۰) اور حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے کہ آپ ا نے فرمایا : جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا ، اللہ اس پر غصہ ہوتے ہیں (ترمذی، ابواب الدعوات، باب منہ، حدیث نمبر: ۳۳۷۳) رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : جو مصیبتیں آچکی ہیں ، دُعاء ان میں بھی نافع ہے اور جو آنے والی ہیں دُعاء ان سے بھی بچاتی ہے ، اس لئے اللہ کے بندو ! تم پر دُعاء کا اہتمام ضروری ہے ، ( مشکوٰۃ : ۲۲۳۴) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے دُعاء کا دروازہ کھل گیا ، اس کے لئے رحمت کے دروازے وا ہوگئے اور انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے ، اس میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں ۔ ( مشکوٰۃ : ۲۲۳۹)
عام طور پر لوگ مصیبت کے وقت ہی دُعاء کرتے ہیں ، یہ بندہ کی خود غرضی کی بات ہے ، حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دُعاء قبول کی جائے اسے چاہئے کہ بہتر وقت میں خوب دُعاء کیا کرے ، ( ترمذی ، باب ما جاء أن دعوۃ المسلم مستجابۃ، حدیث نمبر: ۳۳۸۲) دُعاء چوں کہ خود عبادت ہے ، اس لئے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، آپ نے فرمایا : یا تو اس کی دُعاء اسی طرح قبول کر لی جاتی ہے ، یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے ، یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے ، ( مشکوٰۃ عن ابی سعید خدریؓ: ۲۲۵۹) چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓسے روایت ہے ، کہ آپ ﷺنے فرمایا : تمہارے پروردگار بہت حیاء والے اور کریم ہیں ، جب بندہ ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس سے حیاء کرتے ہیں ، کہ اس کے ہاتھوں کو خالی واپس کر دیں ( مشکوٰۃ : ۲۲۴۴) البتہ دُعاء کے معاملہ میں عجلت اور بے صبری نہیں ہونی چاہئے ، رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دُعاء نہ کرے تو اس کی دُعاء قبول ہوتی ہے ، بشرطیکہ جلد بازی سے کام نہ لے ، دریافت کیا گیا ، کہ جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : یوں کہے میں نے بہت دُعاء کی ؛ لیکن لگتا ہے میری دُعاء قبول نہیں ہوئی ، چنانچہ نا اُمید ہو کر دُعاء کرنا چھوڑ دے ، ( مشکوٰۃ عن ابی ہریرۃ ؓ: ۲۳۲۷) اس لئے آپ ﷺے ارشاد فرمایا : کہ خوشحالی اور کشادگی کا انتظار بھی افضل ترین عبادت ہے : ’’ وافضل العبادۃ انتظار الفرج ‘‘۔ ( مشکوٰۃ : ۲۲۳۷)
رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کو دیکھئے تو صبح سے شام تک دُعاؤں کا معمول ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح دُعاء کرو ، کہ دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے ضرور ہی قبول فرمائیں گے : فاسئلوہ وانتم مؤمنون بالاجابۃ ،( مجمع الزوائد ۱۰؍ ۱۴۸) کیوں کہ جب تک دُعاء کے قبول ہونے کا یقین نہ ہو، وہ کیفیت و انابت پیدا نہیں ہو سکتی ، جو دُعاء کے لئے مطلوب ہے ، پھر یہ بھی ضروری ہے ، کہ دُعاء کے وقت قلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ، دل غافل اور لاپرواہ ہو اورزبان پر دُعاء کے کلمات ہوں ، تو یہ دُعاء مقبول نہیں ، حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے ، آپ ﷺے ارشاد فرمایا : کہ اللہ غافل اور بے توجہ دل کی دُعاء قبول نہیں فرماتے ہیں ، (مشکوٰۃ : ۲۲۴۱) خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دُعاء کرنے والے پر فروتنی کی کیفیت ہونی چاہئے ’’أدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً‘ ‘ ۔ ( الاعراف : ۵۵)
قلب کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے بھی دُعاء کرنے والے کو بندگی اور عجز و نیاز کا مظہر ہونا چاہئے ؛ چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا : کہ جب اللہ تعالیٰ سے مانگو تو ہتھیلیوں کی طرف سے نہ کہ پشت کی جانب سے یعنی ہتھیلیاں پھیلا کر رکھو نہ کہ پشت اور پھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرہ پر پھیر لو ( مشکوٰۃ عن ابن عباسؓ : ۲۲۴۳) حضرت عمرؓی ایک روایت ہے ، کہ دُعاء کا طریقہ یہ ہے ، کہ ہاتھ مونڈھوں کے مقابل یا ان کے قریب ہو ( ابو داؤد : باب الدعاء، حدیث نمبر: ۱۴۸۹) گویا ایک بھکاری ہے جو اپنا ہاتھ پھیلایا ہوا ہے ، خود رسول اللہﷺا معمولِ مبارک بھی یہی تھا ، (مشکوٰۃ : ۲۲۵۴) حضرت عبد اللہ بن عمرؓسے مروی ہے ، کہ ہاتھ سینوں کے مقابلہ ہو نا چاہئے ، حضور ﷺاس سے زیادہ ہاتھ نہ اُٹھاتے تھے ۔ (مشکوٰۃ : ۲۲۵۷)
آپ ﷺنے دُعاء کے کلمات کے بارے میں بھی آداب بتائے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ دُعاء سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر نی چاہئے اور آپ ﷺ پر درود ، پھر دُعاء کرنی چاہئے ( مجمع الزوائد : ۱۰؍ ۱۵۵) حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے مروی ہے ، کہ ہم لوگ حضورﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، کہ ایک صاحب آئے، نماز پڑھی، پھر دُعاء کرنے لگے ! کہ اللہ ! مجھے معاف فرما ، آپ ﷺ نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے تم نے جلد بازی کی ، جب نماز پڑھو تو بیٹھو ، پھر اللہ کی حمد کرو، پھر مجھ پر درود بھیجو ، اس کے بعد دُعاء کرو ؛ چنانچہ اس نے اسی طرح دُعاء کی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ دُعاء کرو قبول کی جائے گی، سل تعطہ ( مجمع الزوائد : ۱۰؍ ۱۵۶) دُعاء کرتے ہوئے آواز پست اور آہستہ ہونی چاہئے ؛ کیوں کہ خود اللہ تعالیٰ نے دُعاء کے آداب میں یہ بات فرمائی ہے ، کہ دُعاء میں آواز پست ہونی چاہئے (الاعراف : ۵۵) کیوں کہ پست آواز میں ریا اور دکھاوے کا اندیشہ کم ہے ، آدمی اپنی ضرورت کے مطابق دُعاء کرسکتا ہے ، اس سے رقت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، آج کل اجتماعی طور پر دُعاء کا رواج بڑھ گیا ہے ، اس میں بعض اوقات دُعاء ’’ رسم دُعاء ‘‘ بن جاتی ہے ، رقت اور خشیت کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور چوںکہ ہر شخص کی ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں ، اس لئے انسان اپنی ضرورت کے مطابق خدا سے سوال نہیں کر پاتا ، دُعاء کے آداب میں یہ بھی ہے کہ دُعاء خواہ کسی کے لئے کرنی ہو ، دُعاء کا آغاز اپنی ذات سے کرے ؛ (مجمع الزوائد : ۱۰؍ ۱۵۲، باب دعاء المرء لنفسہ) کیوں کہ اس سے عجز اور اللہ کے سامنے احتیاج کا اظہار ہوتا ہے، اور در اصل یہی کیفیت دُعاء کرنے والے میں مطلوب ہے ۔
کچھ خاص اوقات ہیں ، جن میں دُعاء مقبول ہوتی ہے ، رات کے آخری اور تہائی حصہ میں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجائے ( مسند احمد عن ابن مسعود :ؓ۷؍۳۱۰) جہاد میں صفوں کے آراستہ ہونے کے وقت ، بارش ہونے کے وقت ، نماز کی اقامت کے وقت ( ترمذی عن ابی ہریرہؓ، حدیث نمبر:۴۲۶۸) اس کے علاوہ فرض نمازوں کے بعد ، شب قدر اور بعض خاص راتیں دُعاء کی قبولیت کے خاص مواقع ہیں ، اسی طرح کچھ لوگ ہیں ، جن کی دُعاؤں کو آپ ﷺنے خاص طور پر مقبول قرار دیا ہے ، ان ہی میں مظلوم ہے ، گو وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے بُراہی کیوں نہ ہو ، روزہ دار ، تاآںکہ افطار کرلے اورمسافر ، تاآںکہ واپس آجائے ( مجمع الزوائد : ۱۰؍ ۱۵۲) ، امام عادل کی دُعاء اور باپ کی دعاء اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہے ، ( مشکوٰۃ عن ابی ہریرۃ ؓ: ۲۲۴۸، ۲۲۲۹) کسی شخص کی غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں دُعاء بھی مقبول ہوتی ہے اور متعدد روایتوں میں اس کا ذکر ہے ، ( ترمذی عن عبد اللہ بن عمرؓ) حاجی کی دُعاء گھر واپسی تک اور مجاہد کی دُعاء جہاد سے فارغ ہونے تک بھی مستجاب دُعاؤں میں ہے ، (مشکوٰۃ : ۲۲۶۰) جیسے ان لوگوں کی دُعاء مقبول ہوتی ہے اور اس میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے ، ویسے ہی ان کی بددُعاء اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ، اسی طرح حضورﷺنے فرمایا کہ اولاد اور مال پر بد دُعاء نہ کرو ، کہ کہیں وہ وقت دُعاء کی مقبولیت کا ہو اوریہی دُعاء عند اللہ مقبول ہو جائے ۔ ( مسلم عن جابرؓ)
بعض لوگ خود اپنے لئے دُعاء کا اہتمام نہیں کرتے اور لوگوں سے خواہش کرتے ہیں کہ میرے لئے دُعاء کیجئے یہ صحیح نہیں ، اپنے لئے خود بھی دُعاء کرنی چاہئے ؛ کیوںکہ انسان خود اپنے لئے جس رقت اور سوز کے ساتھ دُعاء کر سکتا ہے ، ظاہر ہے کوئی اور نہیں کرسکتا ؛ کیوںکہ انسان کی اپنی دُعاء میں اس کا غم چوںکہ خونِ جگر کی طرح شامل ہوتاہے اور اللہ کے یہاں اسی جذبہ دروں کی قدر و قیمت ہے ؛ لیکن اگر کسی سے دُعاء کی درخواست کی جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ، حضرت عمرؓراوی ہیں ، کہ میں نے رسول اللہﷺسے عمرہ کی اجازت چاہی ، آپ ﷺ نے اجازت دی اور فرمایا اے میرے چھوٹے بھائی ! مجھے بھی اپنی دعاء میں شریک رکھنا اوربھول نہ جانا ، حضرت عمرؓکہتے ہیں ، کہ یہ حضورﷺکا ایسا کلمہ ہے کہ اگر اس کے بجائے پوری دنیا بھی حاصل ہو جاتی ، تو اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوتی ( ترمذی عن عمرؓ،حدیث نمبر: ۳۵۶۲) بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے ، کہ جو اہم چیز ہو اس کی دُعاء کی جائے ، معمولی چیز کیا اللہ سے مانگی جائے ، یہ ناسمجھی کی بات ہے ، اصل میں انسان چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تمام ضرورتوں میں اللہ ہی کا محتاج ہے ، اس لئے ہر چھوٹی ، بڑی ضرورت خدا ہی سے مانگنی چاہئے ، نہ کہ کسی اور سے ؛ کیوںکہ جیسے اللہ قادر مطلق ہے ، ویسے ہی انسان محتاج مطلق ؛ چنانچہ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : کہ ہر ضرورت اللہ ہی سے مانگنی چاہئے ، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے اور ایک روایت میں ہے کہ نمک کے لئے بھی اللہ ہی سے طلب گار ہو ، ( ترمذی عن انسؓ، حدیث نمبر۳۶۰۴) اور کیوں نہ ہو کہ انسان ان میں سے کسی چیز کا خالق نہیں ، وہ محض اللہ کی تخلیق سے نفع اُٹھاتا ہے ، اس لئے قطرہ قطرہ اور ذرہ ذرہ میں خدا کا محتاج ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ گذر رہا ہے ، نیکیوں کا موسم بہار خدا کی رحمتوں اور عنایتوں کا مہینہ عفو و در گذر اور دوزخ سے نجات کا مہینہ ، محرومیوں کے علاج اور بگڑی بنانے کا مہینہ ، وہ مہینہ جس میں خود خدا بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور کمال شفقت کے ساتھ عاجز اور گناہگار بندوں سے دریافت کرتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے معاف کردوں ، کوئی ہے روزی کا خواستگار کہ اسے روزی عطا فرماؤں اور ہے کوئی کسی مصیبت اور ضرورت سے دو چار کہ اس کی حاجت پوری کردوں ؟— پھر کیا داتا کی اس آواز پر بھی فقراء اپنی ضرورت کا ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور زبان سوال اس کے سامنے نہیں کھولیں گے کہ جس کے خزانۂ قدرت میں سب کچھ ہے ، جو دے کر خوش ہوتا ہے اور نہ مانگنے والوں سے نا خوش ؟؟ شاعر حقیقت شناس نے کیا خوب کہا ہے :
مانگئے ، پھر مانگئے ، پھر مانگئے
مانگ میں شرمندگی اچھی نہیں
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.