Baseerat Online News Portal

دنیا سے عصبیت کا خاتمہ اوربقائے باہم کی راہ

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
عصبیت انسان کے قلب وذہن کاایسا ناسور ہے جس کی کوکھ سے نفرت۔نفاق اورعداوت جنم لیتی ہے اورجب کسی انسان یا سماج کی اکائی کویہ بیماری لگ جاتی ہے توایک طرف توسماج زندگی کی حقیقی امنگوں سے محروم ہوجاتاہے۔اوردوسری طرف جسے دنیا میں ترقی کانام دیاجاتاہے اس کی رفتار رک جاتی ہے اور پوراسماج مختلف قسم کی سیاسی سماجی اور معاشرتی الجھنوں کا شکار ہوجاتا۔اور اس کی نحوست سے پورا معاشرہ بے برکت اوربے فیض ہوکر رہ جاتاہے۔
یوں تو انسان کی فطرت ہے کہ اس کے اندر قوم پرستی ۔خویش اندیشی اوردنیاوی مفادات کی خاطرعصبیت جیسے مرض میں مبتلا ہوتاہے۔مگر بنیادی طور پر جن چیزوں کی وجہ سے انسان متعصبانہ جذبات میں مبلاہوتاہے۔وہ مذھبی احساس برتری۔ خواہ وہ حق ہویا ناحق۔نسلی اورخاندانی احساس تفوق۔دنیاوی جاہ ومنصب کی حرص۔اوروجہ اعزاز سمجھے جانے والے مذھبی ۔قومی۔ملکی۔اورتاریخی وراثت پر قبضہ کی خواہش۔اسی طرح احساس تقرب بھی اس کی وجوہات میں سے ہے۔جیسے یہودی قوم کے اندر خود کو ”اللہ کا بیٹا“ماننے کااحساس۔ہندوستانی معاشرے میں برہمن قوم میں خود کو برہما کے سر سے جنم لینے کا احساس(ان دونوں تصورات پرصحیح یاغلط ہونے کی بحث علاحدہ ہے اس پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے)اس وقت ہم صرف عصبیت کی ریالٹی پر بحث کررہے ہیں۔اسی طرح کسی اپنے پسند کی چیز کو پانے۔خواہ انفرادی ہویااجتماعی۔ کی ضد۔ یہ بھی عصبیت کاہی نتیجہ ہوتا ہے۔کہ انسان خودکوہی اسکاحقدارتصور کرتاہے۔۔ اور جب اس میں اضافہ ہوتا یا سیاست جڑجاتی ہے۔ تو پھر یہ مرض شخصی اور انفرادی دائرے سے نکل کرپورے ہمنواحلقے میں پھیل جاتی اوراپنادائرہ وسیع کرلیتی اورپھررفتہ رفتہ اس کے اثرات معاشرتی۔ سیاسی۔تعلیمی اورحکومت کے مشترکہ امور میں نظر آنے لگتے ہیں۔اور اس کے جومنفی نتائج ہوتے ہیں وہ یہ کہ انسانیت پامال ہوتی ہے۔حقوق سلب ہوتے ہیں۔لوگوں کی عزت وناموس داؤ پہ لگتی ہے۔
اگرعصبیت کی آگ میں جھلستاہوا طبقہ سیاسی اورمعاشی اعتبار سے طاقتورہوجائے توروئے زمین میں ظلم وزیادتی،نفرت،جہالت اور انسانیت سوزی سرچڑھ کربولنےلگتی ہے اورانسانی حقوق کادیوالیہ نکل جاتاہے۔
اگرتاریخی طورپر دیکھا جائے توعصبیت اورانسانوں کے درمیان نفرت وعداوت کاسلسلہ حضرت آدم کے دونوں بیٹوں کےدرمیان رونماہونےوالے واقعہ سے شروع ہوتا نظرآتاہے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ میں عصبیت کا جوبدترین واقعہ پیش آیا وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آیااور ان کے بھائیوں نے جوکچھ عصبیت کامظاہرہ کرتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کےساتھ کیا وہ بھی تاریخی انسانی میں سفاکیت کی ناقابل فراموش داستان ہےاورقرآن کریم نے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے اپنے دامن میں محفوظ کرلیاہے۔یہ دوعظیم عصبیت جاہلیہ کے واقعات ہیںجواپنی سنگینی کےاعتبار سے عبرت حاصل کرنے کےلئے کافی ہیں۔
تاریخی طورپر جب یہ سلسلہ درازہواتویہود اورنصاری کے درمیان کم وبیش چھ سو سالوں تک چلتارہاجیساکہ آیت قرآنی:”قالت الیھود لیست النصاری علی شٸی وقالت النصاری لیست الیھودعلی شٸی۔کذلک قال الذین لایعلمون مثل قولھم۔فاللہ یحکم بینھم یوم القیامة فیماکانوافیہ یختلفون“(سورة بقرہ:113)سے معلوم ہوتاہے۔یہ عصبیت کی ایسی شکل تھی کہ دونوں نے ایک دوسرے پر نازل ہونے والی اللہ کی آیات کاہی انکار اورگلہ گھونٹ دیااور یہ معاملہ نسلی ،مذھبی اورگروہی عصبیت کانبی آخر الزماں خاتم المرسلین محمدﷺ تک چلتارہا۔
جب محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تویہودیوں کی اس متعصبانہ روش کارخ نصاری کی بجائے محمدﷺاور ان کے پیروکاروں کی طرف ہوگیااوریہ مدتوں یکطرفہ چلتارہاجوآج بھی جاری ہے۔
مگراس کے ردعمل میں جب مسلمان مظبوط ہوئے توان کی طرف سے بھی شروع ہوا۔اعتراف حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اس مرض سے اچھوتے نہیں رہے۔مسلمانوں میں نبوت کی برکت اور اسلام کی صحیح اسپرٹ کی پرامت کےقائم رہنے کی وجہ سے تقریبا پہلی صلیبی جنگ تک مسلمان محض دین کی اشاعت اور دعوت دین کی لالچ میں سب کچھ برداشت کرتے رہے۔یہودونصاری کے طعنے اورگالیاں۔اوررسولﷺاور آل رسول پرلگائی گئی تہمتیں تک برداشت رہے۔مگر جب یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیاتو مسلمانوں کی طرف سے بھی یہ سلسلہ شروع ہواکہ۔جب بھی کوئی چیز خود آپس میں بھی مسلمانوں میں رونماہوئی فورا یہودونصاری کی طرف منسوب کرنے اور انہیں کی سازش قراردینے لگے۔۔اور پھر یہ ہونے لگاکہ یہودونصاری نے ہر کمی کو مسلمانوں کی طرف منسوب کرنا شروع کیا اورمسلمانوں نے اپنی ہر کمی کویہود ونصاری اور مغرب کی طرف منسوب کرنا شروع کیا۔یہاں تک کہ خود مسلمانوں نے اپنی تہذیبی ۔ تمدنی۔ تعلیمی اورثقافتی بگاڑ کا ذمہ دار بھی یہودونصاری اور مغرب کو قرار دیا ۔آپ دیکھ لیجئے ہرجگہ آپ کو”حضارۃ غربیۃ“کے الفاظ مل جائیں گے۔
پھر یہ نسلی اورقومی عصبیت کی اصطلاح عثمانی خلافت کے زوال سے پچاس ساٹھ سال پہلے سے مشرق اورمغرب میں تبدیل ہوئی مسلمان ہر چیز کو مغربی فلاں مغربی فلاں کہ کرکوسنے لگا اور عیسائی دنیا مسلمان اور مشرق کی طرف اپنی ہر حرکت اورعیسایوں کے ردعمل کو منسوب کرنے لگی۔جیساکہ دونوں طرف کی سیاسی اورفکری کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے۔
تعصب کا خاتمہ:
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام ہی ایسا دین ہے جو اخلاقی اور انسانی تعلیمات کے خزانے سے مالامال ہے۔اگرچہ اس دور میں مکمل طور پر مسلمان ان پرعمل پیرا نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ انسان کوانسان کے درجہ پہ لانے۔انسانیت کو اس کا حقیقی مقام دلانے۔اور انسانوں کے درمیان الفت ومحبت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے دنیا میں مسلمانوں کوہی آگے آناہوگا۔اسے تعمیر انسانیت کےلئے اپنے بہت سے دنیاوی حقوق کا خسارا بھی برداشت کرناہوگا۔اپنےبہت سے سیاسی۔سماجی۔اورملکی حقوق کی محض انسانیت انسانیت کی بقا کی خاطر قربانی بھی دینی ہوگی۔اور بہت سی ترجیحات سے دست بردار بھی ہوناپڑے گا ۔کیونکہ وہ اس رسول کی امت ہے جس کی زندگی انسانیت کی ہدایت کے لئے سراپاایثار وقربانی کی تصویر بنتی دکھائی دیتی ہے۔اس سنت کوتو اداکرناہی ہوگا۔ تب ہی اس کاحق اداہوگا۔ورنہ نہیں۔
جسے ہو جان ودل عزیز میری گلی میں آئے کیوں؟
آپ صلح حدیبیہ کی تہ میں جائیے،دیکھئے محض انسانیت اور اخلاق کی بالا دستی کے لئے کیسے مسلمان اپنے حق زیارت سے دست بردار ہوئے وہیں پہ جانور وں کی قربانی دی ۔دنیا میں آپ کو اس کی کہیں نظیر نہیں ملے گی۔اور اس کے بعد جونعمت اس کی کوکھ سے جنم لےکر دنیا کو فیض یاب کیاآج تک بلکہ رہتی دنیاتک اس کافیض جاری رہے گا ان شا ٕاللہ۔اسی طرح انسانیت کو بلندیوں تک پہونچانے اور عصبیت کے خاتمہ کی جو پہل اسلام نے ”فتح مکہ“کےموقعہ پر کی۔تعمیرانسانیت اور عفوودرگزرکانمونہ پیش کیاگیا اس کی مثال بھی آج تک کی دنیا کی تاریخ میں نہیں ملے گی ۔یہی وہ موقعہ تھا جب نبی خاتم المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری پیغام میں فرمایا:میں آج سے جاہلیت کی تمام رسموں اورعصبیت جاہلیہ کو اپنے قدموں سے روندتاہوںاور جاہلیت کے تمام خون کو معاف کرتاہوںاور اے دنیائے انسانیت سن لو آج کے بعد نہ کسی عربی کوعجمی پر نہ عجمی کوعربی پر اور نہ کالے کاگورے پر اورنہ گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں، سوائےتقویٰ کے۔
اب مسلمانوں کوچاہئے کہ ”لقدکان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنة“ کی روشنی میں۔مشرق ومغرب کی الزام تراشی کا سلسلہ بند کرے۔اورجب بھی کچھ ہوجائے فورایہ کہنےکی کہ یہ یہودی سازش ہے۔یہ مغرب کی ریشہ دوانی ہے۔یہ غیرمسلموں اور اسلام دشمن عناصر کی کارستانی ہے۔وغیرہ وغیرہ یہ کہنا بند کرے۔اپنی اصلاح اور اپنی ذمہ داری پرتوجہ دے۔۔اور یہود ونصاری اور ان دونوں کے ہم نواؤں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اپنا انسانی عصبیت کا رویہ ترک کریں ۔انسان دوستی بقائے باہم اور تعایش سلمی کی طرف دنیا کو لانے کی کوشش کریں۔محمدﷺ جوآخری نبی ہیں وہ ہمارے بھی نبی ہیں اور پوری انسانیت کے نبی ہیں۔جن کی آمد کی بشارت موسی،عیسی اور تمام سابقہ انبیا نے دی تھی۔ان کی تعلیمات سے تعصب کا راستہ چھوڑ یں۔مسلمانوں کو ہر معاملہ میں مورد الزام ٹھرانا ان پردہشت گردی کا لیبل لگانااور اسلاموفوبیا جیسی حرکتوں پر روک لگائیں۔روئےزمین پر انسان دوستی اورالفت کے ماحول کو پروان چڑھانے کی مل کر کوشش کریں۔یہی ہے دنا میں بقائے باہم اور امن کاراستہ۔ترقی کا زینہ۔اوردنیائے انسانیت کوصحیح نہج پر رکھنے کا طریقہ دنیا کے تمام مذاھب میں یہ اصول مشترک طورپرموجود ہیں ،ان کو بنیاد بناکر عالمی مشترکہ نجات عصبیت اور بقائے انسانیت کاپروگرام ترتیب دیاجاسکتاہے۔

Comments are closed.