Baseerat Online News Portal

دور پُرفِتن میں زندگی کی مشکلات پر نظر کریں!

محمدقاسم ٹانڈؔوی
قرآن مجید میں ﷲ رب العزت والجلال کا فرمان ہے: "ہم تم کو خوف، بھوک، مال، جانوں اور پھلوں میں نقصان دے کر ضرور آزمائیں گے”۔(ألبقرہ:155)
مذکورہ آیت کریمہ میں پروردگار عالم کی طرف سے متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم اہل ایمان کی آزمائش ضرور کریں گے؛ جس کے مراحل مختلف اور نوعیتیں جدا جدا ہوں گی۔
1)کبھی یہ آزمائش دہشت و وحشت بھرے ماحول سے کی جائےگی، یعنی جان و مال اور عزت و وقار کے لحاظ سے حالات غیر تشفی بخش ہوں گے۔
2)عوام کا مجموعی طبقہ کسب معاش کے اعتبار سے پریشان حال ہوگا اور کاروباری معاملات میں نقصان واقع ہونے کی وجہ سے غربت و افلاس کا بول بالا ہوگا۔
3)اتفاقی حادثات پیش آنے اور وبائیں پھیلنے سے کثرت اموات کا معاملہ تیز ہوگا؛ جس کا مشاہدہ خلقت گذشتہ بیس سالوں سے (9/11 کا حادثہ پیش آنے سے) عموما اور حالیہ وبائی دو سالوں سے خصوصا کر رہی ہے۔ (آزمائش کبھی جانی نقصان سے ہوگی)
4)افزائش و بڑھوتری میں کمی واقع کرکے آزمایا جائےگا (یہ کمی خواہ انسانوں کے ذریعہ ہو یا کھیتی باڑی اور پھل پھولوں کے ذریعے)
فی زمانہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں جس دور کو فتنوں اور آزمائش کا دور قرار دیا گیا ہے، وہ یہی دور ہے جس میں ہماری سانسیں چل رہی ہیں، اس لئے کہ جب ہم احادیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور حالات و قرائن کا جائزہ لےکر قرآن کی اس آیت پر موجودہ حالات کا انطباق کرتے ہیں تو دو اور دو چار کی طرح یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ ‘فتن و ملاحم’ سے بھرا دور جس کا بکثرت حدیث میں تذکرہ کیا گیا ہے؛ وہ یہی ہے۔ اس لئے کہ مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب فتنوں کا ایک ایسا سیل بےکراں جاری ہے، جہاں ایک شریف، معزز، نیک طینت اور متدین آدمی کا بھی اپنے دامن عفت و عصمت کو آلودہ ہونے سے محفوظ کرکے لے جانا اور دین مبین کے مطابق زندگی کو ڈھال کر اپنی عمر کے اس مختصر دورانیہ کو باعزت طریقہ پر پورا کرکے خوشی بہ خوشی اپنے رب حقیقی سے جا ملنا؛ انتہائی مشکل و حساس معاملہ ہے۔
چونکہ ہم انسان ہیں اور انسان کی فطرت میں خیر و شر دونوں قسم کے مادے ودیعت کئے گئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو جس قسم کے ماحول سے جتنا زیادہ حصہ حاصل و میسر ہوتا ہے؛ انسان پر اسی قسم کے ماحول کے اثرات ظاہر و نمایاں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو انسان اپنے اوقات کا زیادہ تر حصہ نیکوکار اور بھلی طبیعت کے حامل اشخاص کی صحبت میں گزارنے کا پابند ہوتا ہے تو اس کی طبیعت بھی بھلے اور نیک کاموں پر اسے اتنی ہی آمادہ اور کمر بستہ کرتی ہے، جس کے طفیل اس بندہ پر صلاح و فلاح کے وہی عناصر غالب آتے چلے جاتے ہیں، جو شریعت کو اس بندۂ مؤمن سے مطلوب ہیں اور ایسی ہی قربانی پر اس بندہ کو بہترین جزا سے نوازنے کا وعدہ بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنے انہیں اوقات و لمحات کو کسی بدخصلت اور فسق و فجور میں مبتلا شخص کے پاس بیٹھ کر گزار دے تو لامحالہ اس پر وہی برے اثرات ظاہر و مرتب ہوں گے، جن پر شریعت نے ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اور ایسے بندہ کو شریعت نے اپنی نظروں میں معیوب و مطعون گردانا ہے۔ چنانچہ اس بندہ سے اس کی گھٹیا اور نازیبا حرکتوں کی بناء پر بروز قیامت جواب دہی ہوگی اور وہ سزا و عقاب سے دوچار ہوگا۔ اس لئے ہر ایمان والی کی یہ کوشش ہونی چاہئیے کہ اس کی عمر عزیز کا کوئی ایک لمحہ اور ثانیہ بھی بےمقصد اور فضول کاموں میں نہ گزرے اور اس کےلئے اولین کام اور مثبت کوشش اپنے ہم مجلس و بہترین معاصرین کا انتخاب ہوگا۔
لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ یہ دور ‘فتن و ملاحم’ کو اپنے ساتھ سمیٹے ہمارے تعاقب میں لگا ہے، تاکہ دنیا کی محبت ہمارے دلوں میں رچ بس جائے اور ہم اس عارضی دنیا کی چمک دمک میں گم ہوکر اپنی آخرت فراموش کر بیٹھیں۔ اس دنیا کی رنگینی کا عالم یہ ہے کہ یہاں قدم قدم پر فطرت انسانی کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور خواہشات نفسانی کو برانگیختہ کر دینے والے اسباب و محرکات رونما کئے جاتے ہیں، یہاں فتنہ پروری، گھناؤنے اعمال اور ناقابل معاف جرائم کی انجام دہی پر مجرم طبقہ کی دل جوئی کرکے انہیں ان کے پیشے میں مضبوط و قوی تر کیا جاتا ہے اور معزز و مکرم اور خوددار و باحیا افراد کو برسر عام ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ دنیا والوں کا دستور ہی سب سے نرالہ اور انوکھا ہے کہ یہاں زمانے بھر کے کمینے اور نکموں کے سروں پر عزت و سرفرازی کا تاج سجا کر ان کی ہمت افزائی اور تکریم کی خاطر باوقار مجالس کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے، جبکہ محنت و مشقت برداشت کرنے والوں، پیار و محبت کی قندیل روشن کرنے والوں اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں حساس و فکرمندی کا لباس تن کرنے والوں کی دل شکنی، کم ہمتی اور ان کے خلوص و وفاداری پر انگشت نمائی کرکے سربازار بدنام کیا جاتا ہے۔
الغرض! معاشرے کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ اور حالات اتنے غیر یقینی ہیں کہ موجودہ وقت میں جان کی سلامتی اور حفاظت ایمان کو ایک مشکل ترین معاملہ تصور کیا جانے لگا ہے۔ اس لئے کہ ایک طرف چوک چوراہوں پر انسانی جانوں کے دشمن نما بھیڑیے ٹولی بنائے جگہ جگہ کھڑے ہیں، جو موقع ملتے ہی خاص طبقے اور ان کے نظریہ کی شناخت قائم کرنے کے بعد آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دینے میں چنداں بھی تاخیر سے کام نہیں لیتے اور چلتے پھرتے اور اچھے خاصے کھانے کمانے کے واسطے گھر سے نکلے شریف النفس انسان کی جان لےکر اس کے بچوں کو شفقت پدری سے محروم، اس کے اہل خانہ کی زندگی کو جہنم زار اور اس کے عزیز و اقارب کی امیدوں کو خاک نشیں کر دینے پر فخر جتاتے ہیں، اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والا یہ درندہ صفت ٹولہ جب اپنے مشن و مقصد میں بھرپور کامیاب ہوکر اپنے ان آقاؤں کے دربار میں حاضری دیتا ہے، جن کے دل انسان کی قدر و قیمت سے خالی اور دماغ احساس و شعور سے عاری ہوتے ہیں تو ان کی سرپرستی اور پشت پناہی کرنے والوں کی طرف سے اس وقت نہ صرف پیٹھ تھپتھپا کر ان کو شاباشی دی جاتی ہے؛ بلکہ ان کے سامنے مال و دولت کے انبار بھی لگائے جاتے ہیں، اور آئندہ اس سے بھی زیادہ نوازنے کا وعدہ کیا جاتا ہے (اور یہی مال و دولت ان کا مقصود حقیقی ہوتا ہے) جس کی خاطر وہ اپنے اس ناپاک مشن اور سنگین جرائم کو انجام دینے کے واسطے پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھر رہے ہیں اور اپنے اگلے شکار کی تلاش میں شہر بہ شہر اور قریہ در قریہ پھیلتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف امت مسلمہ بالخصوص اس کے عصری تعلیم یافتہ وہ نوجوان جن کی تربیت دینی ماحول سے ہم آہنگ نہ ہوئی ہو اور احساس و شعور کی عمر میں جنہیں مذہبی بنیادی تعلیم سے آراستہ پیراستہ نہیں کیا گیا ہے، انہیں بھی قدم قدم پر دولت ایمانی کے لٹیروں سے سابقہ ہے، دولت ایمانی کو سلب و اخذ کرنے والے اس لٹیرے گروہ کی تمام تر معلوماتی صلاحیتوں اور ذہنی کاوشوں کا محور و مرکز اس وقت انہیں دو قیمتی اشیاء کے ارد گرد طواف کرتا نظر آ رہا ہے کہ یا تو ان کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں یا پھر ان کے ایمان پر ڈاکہ زنی کی جائے؟ کیونکہ اس سفاک گروہ کو ان دو باتوں میں سے کسی ایک کو انجام دینے کا بھرپور معاوضہ اور کمیشن ملتا ہے، اسی لئے وہ مذہبی تعلیم سے نابلد اس طبقہ کو ٹارگٹ بنانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کئے گھات میں ہے۔ اس سلسلے میں اسے پختہ جانکاری فراہم کی جاتی ہے کہ مذہبی تعلیم سے ناواقف اور ایمان و عقائد کی حقیقت سے بےخبر اس طبقے کو اس مادی دنیا کا حریص و طامع بنا کر کیسے دولت ایمانی سے محروم کیا جاسکتا ہے؟ اس لئے کہ فی الوقت دنیا کی ایک بڑی آبادی خاص طور پر نوجوان نسل فیشن پرستی کی دلدادہ اور اپنی زندگی کو عیش و عشرت کے ساتھ گزارنے کی طرف ہمہ وقت مائل و راغب ہے اور فیشن پرستی کو نبھانے اور اپنے شوق پورا کرنے میں سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہی پیسہ ہے، جو وقت کی ہر ضرورت اور خواہش کو پوری کرنے میں انسان کی مدد کرتا ہے، اسی لئے نوجوان پڑھا لکھا طبقہ زیادہ ان کے نشانے پر رہتا ہے، جن کی بابت آئے دن دلخراش اور اندوہناک خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
لیکن جب جب ایسے مواقع مشاہدہ میں آتے ہیں تو بےساختہ زبان و قلم یہ کہنے اور لکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ:
ہائے افسوس! امت کیسے پر آشوب حالات میں سسک رہی ہے اور کیسے ہر دن طلوع ہونے والے سورج کی شعاعوں سے زیادہ نئے نئے فتنے اور شعبدہ بازوں کی کارستانیاں اہل ایمان کے جان و مال کے تعاقب میں سرگرداں ہیں؟ جو مسلسل موقع کی فراق و جستجو میں اس خونخوار بھیڑیے کی مانند گھات لگائے بیٹھیں ہیں جس کو حدیث رسول (ﷺ) میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ: "جنگل میں چرتے ہوئے جو بکری اپنے ریوڑ سے جدا اور اپنے مالک و چرواہے کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے، تو وہ بھولی بھالی بکری پہلے سے گھات لگائے بھیڑیے کا نوالہ اور لقمۂ تر بن جایا کرتی ہے”۔
خلاصۂ کلام یہ ہےکہ: آج امت کی اجتماعی حالت اور ابتلاء و آزمائش سے گھری اس کی زندگی میں وہ تمام مشکلات پائی جا رہی ہیں، جن کا نقشہ قرآن و حدیث میں کھینچا گیا ہے؛ یعنی ماحول بھی مکمل دہشت و وحشت سے لبریز ہے، معاشی حالت بھی تنزلی کا شکار ہے، خون مسلم بھی سب سے ارزاں اور سستا سمجھا ہوا ہے اور نقصان و آزمائش والی آخری صورت کی تلخیاں بھی امت کو ہر وقت کچوکے لگا رہی ہیں۔

Comments are closed.