Baseerat Online News Portal

دیار شوق المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد میں پانچ دن۔ (١)

 

محمد صابر حسین ندوی

 

نہ آئے لب پہ تو کاغذ پہ لکھ دیا جائے

کسی خیال کو مایوس کیوں کیا جائے

*ہر شام کے ساتھ صبح ہے، ہر مصیبت کے ساتھ کشادگی ہے، ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، زندگی کی ڈگر پہ ہمیشہ ایک ہی تنگ گلی رہے یہ ضروری نہیں؛ بلکہ یہ راہ وفا ہے، جس کو مختلف وادیوں سے گزرنا ہے، جزبات و احساسات کی موجوں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے، جزیروں پر بسیرا، ریگ زاروں میں سبزہ زاری اور گل محبت پیدا کرتے ہوئے آخری منزل تک پہنچنا ہے، بلاشبہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے زندگی کی تمام سرگرمیوں پر پانی پھیردیا، سارے منصوبے، ارمان اور تمنائیں خواب ہوگئیں، دل ارماں آنسوؤں میں بہہ گیے، وفائیں مرجھا گئیں، محبت پژمردہ مردہ ہوگیے اور جگر سوز سے بھرگیا، شاید ہی کوئی گھر، گھرانہ جہاں سے ناامیدی، مایوسی اور کوفت کا ساز سنا نہ گیا، خوشیوں کے شادیانے تو کافور ہوگئے، ہر کہیں ماتم، دکھ اور درد کی طویل ترین داستانیں سنائی دی جاتی ہیں، انسان کا انسان کا نہیں رہا، جنگلی اور حیوان بننے پر مجبور ہوگیا، متعدی بیماری کے قہر نے یہ یاد دلا دیا کہ زندگی کس قدر بے ثبات اور بے اصل ہے، انسان کے پاس پیسے ہیں، موقع ہے، مگر وہ کہیں جا نہیں سکتا، زندگی کھل کر جی نہیں سکتا، بیماری، اموات اور سب سے بڑھ کر سرکاری لاپرواہی و لاابالی پن، سیاست، کرسی کی ہوس نے انہیں ایسا اندھا اور بہرا بنا دیا تھا (جس کا سلسلہ اب بھی تھما نہیں بلکہ زور و شور کے ساتھ چل رہا ہے) کہ وہ زندگی کو اسی موت کا حسین تحفہ سمجھنے لگے اور اس غار سے لوگوں کو نکالنے کی بجائے دھکا دینے لگے، یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسے قدرتی تحفہ سمجھ لیا گیا، سرمایہ دارانہ نظام، فاشزم اور فسطائیت کا کھیل کھیلنے اور ہندواحیائیت کے جھنڈے لہرانے کیلئے ایک ذریں موقع گرداننے لگے، اور ایسا ہوا بھی ہے، اس دوران انتخابات کے نتیجے، سیاسی چندے اور عیش پرستی کا جنون دیکھا گیا ہے، مگر قدرت کا کرشمہ ہے کہ اب حالات معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں، خدشات، اندیشے تو لگے ہوئے ہیں، ابھی ابھی مہاراشٹر کے کچھ اضلاع سے خبر ملی ہے کہ وہاں لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے، بعض اور صوبے اس قطار میں ہیں، اس پورے منظر پر بَس فیض احمد فیض کی یہ منظرکشی فت بیٹھتی ہے:

بام و در خامشی کے بوجھ سے چُور

آسمانوں سے جوئے درد رواں

چاند کا دکھ بھرا فسانۂ نُور

 

شاہراہوں کی خاک میں غلطاں

خوابگاہوں میں نیم تاریکی

 

مضمحل لَے ربابِ ہستی کی

ہلکے ہلکے سُروں میں نوحہ کناں

*مگر کہیں نہ کہیں سے زندگی کی شروعات تو کرنی ہی پڑے گی، اس وبا کو یوں پہاڑ سمجھ کر ایک کونے میں بیٹھ جانا تو اچھا نہیں، غم کے بادل پر ماتھا سکڑنے کی بجائے روشنی کی جانب پیش قدمی کرنا اصل ہے، اس دوران علمی کاموں کی رفتار بھی رک گئی تھی، اکیڈمیاں، اجتماعات منسوخ ہوگئے تھے، بہت سی چھوٹی موٹی جماعتیں تو دم توڑ چکیں، خصوصاً مدارس اور ملی کاز کرنے والے کہیں گمنامی کے سمندر میں ڈوبتے ہویے معلوم ہوتے ہیں، ان کے پاس سرمایہ نہیں کہ لرزتے قدموں پر ایک بار پھر کھڑے ہوں، یا معاشی دقتوں نے یوں کمر توڑ دی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اب ان کے سر اٹھانے کی گنجائش نہیں، معاشی بدحالی اور لوگوں کا تعاون نہ مل پانے کہ وجہ سے کئی بڑی بڑی اکیڈمیاں، فاؤنڈیشن دم واپسیں میں ہیں، تو وہیں بعض اب سانسیں لینے کی کوشش کر رہی ہیں، علمی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں، بھیگتے پروں کے ساتھ ہی سہی پرواز کی کوشش جاری ہے، جو بکھر گیا تھا اسے سمیٹنے اور ایک نئے سرے سے آغاز کرنے کی سعی جاری ہے؛ بالخصوص اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اس میں پیش پیش ہے، وہ اکیڈمی ہے جس کو ١٩٨٩ء میں قائم کیا گیا، فقیہ النفس حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب مرحوم جس کے روح رواں، میر کارواں اور سالار تھے جن کی محنت، جفاکشی اور پے بہ پے کاوشوں کی بن اپر یہ وجود میں آیا تھا، جس کی خدمات برصغیر ہی نہیں لکہ عالم. اسلام میں نمایاں پہچان رکھتی ہے، ایک دفعہ یاد ہے کہ استاد محترم حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے فرمایا تھا کہ عربی کے بعد صرف اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں اسلامی علوم کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، ملی مسائل پر کام ہے اور اس میں اکیڈمی کا سب سے بڑا رول ہے، اکیڈمی نے جدید مسائل پر انسائیکلوپیڈیا تیار کر دیا ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی کی سرگرمیاں بھی ایک مدت سے معلق تھیں، حالانکہ أصحاب اولوالعزم کا کارنامہ کہیے کہ ان وبائی ادوار میں بھی اکیڈمی کے مرکزی عمارت دہلی میں متعدد ورک شاپ کیے گئے، مقالات لکھوایے گیے، تراج کروائے گئے، اور بہت سی ملی ورفاہی کام میں تعاون کیا گیا، خصوصاً علماء کیلئے لاک ڈاؤن میں بہت سے کام فراہم کئے گئے، ان کا سہارا بننے کی کوشش؛ نیز علمی کام میں سبقت کی پوری جتن کی گئی، اب حالات کے پیش نظر اکیڈمی نے اس جانب بڑی پیش قدمی کی ہے، بہت سے بولڈ فیصلے لئے ہیں، گزشتہ اراکین کی میٹنگ کے بعد ایسا نطر آتا ہے کہ اکیڈمی ایک نیے جوش اور ولولے کے ساتھ پرواز کو تیار ہے، ایک نئے آسمان، نئی دنیا اور نئے افق کی تلاش میں ہے، چنانچہ متعدد چھوٹے چھوٹے مگر موثر ورک شاپ منعقد کئے جارہے ہیں، لک بھگ ہندوستان کے مختلف شہر اور سمتوں میں اس کے انعقاد کی خواہش ہے، گزشتہ پروگرام بھوپال کی علمی، تہذیبی تاریخی سرزمین پر ہوا تھا، دارالعلوم عبدالحی حسنی کے اشتراک سے یہ پروگرام انجام پایا تھا، الحمد للہ ایک کامیاب اور روشن پروگرام رہا، جس میں عمائدین بھوپال، علماء و دعاۃ نے شرکت کی اور اسے کامیابیوں سے ہمکنار کیا، فقیہ العصر اور اکیڈمی کے عملہ کا تاثر سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے جان و جگر بھوپال میں علمی بہار کی باد بہاری چلی، فضلاء نے باہم شیر شکر ہو کر اس سے فائدہ اٹھایا اور نیے عزائم کیلئے خود کو تیار کہا، اللہ ان سے راضی ہو! اس کے بعد اکیڈمی کا فقہی سمینار منعد ہوا ہے، پچھلا سمینار ٢٠١٨ء میل کھیڑلا راجستھان میں ہوا تھا، راقم الحروف کی نہ صرف شرکت تھی بلکہ عرض مسئلہ کی بھی نوبت تھی، وہ بھی ایک کامیاب اجلاس تھا، دور دور سے عمائدین تشریف لائے تھے، ایک حسین ودلکش منظر تھا، مگر کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے اس روشنی پر اثر ڈالا، بلکہ بعضے تو یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب اکیڈمی کا اجلاس نہیں ہوپائے گا، ایک مخلص سے ملاقات ہوئی انہوں نے اس احساس کا اظہار کیا تو دل بیٹھ گیا، آہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے، ایک شجر سایہ دار، جس کی شاخیں آسماں کو چھو رہی ہوں، جس کی خدمات آزاد ہندوستان میں نمایاں تر ہوں، جس نے بھارت جیسے ماحول میں مومنین کو ایک پلیٹ فارم عطا کیا ہو، سوچنے سمجھنے، لکھنے پڑھنے اور تحقیق و تالیف کا ذرین موقع عنایت کیا ہو، منجمد فکر اور اضمحلال کی کیفیت میں پری علمی دانشوروں اور دانش گاہوں کو کھلے آسمان کی طرف دیکھنے اور باہیں پھیلانے پر آمادہ کیا ہو، کیا اس کے متعلق ایسا بھی سوچا جاسکتا ہے؟ بہرحال اللہ اللہ خیر سلا!! غالباً دو ماہ قبل جب جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک انا ہوا تو دیکھا کہ اکیڈمی کی جانب سے سوالنامہ ارسال کیا گیا ہے، اس کے ساتھ خط ہے، جس میں دو سوالات کے تئیں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جلد از جلد مقالات بھیج دیں، انشاء اللہ جلد ہی سمینار منعد ہونے کی امید ہے، دل میں خوشیوں نے انگڑائیا لیں کہ دیکھو! پھر موسم بہار آنے کو ہے۔

اکیڈمی کے رفیق اور خیر خواہ مولانا انیس اسلم صاحب سے بھی بات ہوئی، انہوں نے بھی اصرار کرتے ہوئے کہا کہ واقعی جلد از جلد مقالات بھیج دیجئے، سمینار ہونے کو ہے، یہ سننا تھا کہ بدن میں ایک حرارت محسوس ہوئی، دل نے کہا کہ واقعی یہ کوئی نعمت غیر مترقبہ ہے، آخر دیکھو! کہاں وبائی امراض کا قہر، مشکلات ہی مشکلات، ہر طرف گھٹائیں ہی گھٹائیں، ایسا نہیں لگتا کہ کسی پل یہ ابر چھٹے گا اور ایک نئی صبح طلوع ہوگی، پھر یہ کہ حکومت کی نگاہیں، جو ترچھی ہوئی ہیں کہ ہر شئی پر غضب ڈھانے کو ہے، جسم کی یہ حرارت اور پھر علمی کام، نیز استاد محترم فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ سے ملاقات کی امید میں قلم کو حرکت دی، دل و دماغ کو ایک کیا اور پوری نشاط و فرحت کے ساتھ اس موضوع کو اولیت دی، یوں تو مصروفیات کا کوئی اندازہ نہیں، ہمیشہ کاموں کا ایک نیا دفتر کھلا رہتا ہے، مگر اس کام کی بات ہی نرالی تھی، شب و روز کی محنت اور بزرگوں کی عنایت و محبت میں یہ دونوں مسودے تیار ہوئے اور اکیڈمی کو ارسال کردیا، مولانا انیس اسلم صاحب سے پھر بات ہوئی مولانا نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، اور سمینار کی تاریخ و جگہ بتانے کیلئے دو ہفتے کا وقت لیا، ابھی علمی کارواں کی گرد چھئی بھی نہ تھی کہ الحمد للہ دیگر علمی مشغولیات نے آگھیرا، سر پر دھند سوار ایک نیا علمی سفر طے کر رہا تھا، ایک طالب علمانہ سفر جس میں سیکھنے سکھانے کی کوشش ہو اور علم کی طلب و تحقیق کا نقطہ ہو؛ اسی دوران مولانا انیس اسلم صاحب کا پیغام آیا کہ پروگرام المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد میں طے ہوا ہے، آپ کو حاضر ہونا، ساتھ ہی یہ بھی ہدایت تھی کہ اس کے متعلق کسی کو نہ بتائیں، یہ ایک خاص اجتماع ہوگا جس میں چند علماء کرام، ملک کا کریم اور فقہیان شہر مدعو ہوں گے، اسے ہر اعتبار سے پوشیدہ رکھا جائے گا، نہ پوچھیے کہ اس وقت دل پر کیا کیفیت گزری، اکیڈمی کا ایک انعام سر آنکھوں پر تھا تو وہیں المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد کا سفر، مادر علمی ہونے اور ساتھ ہی فقیہ عصر کا علمی مخزن و منبع ہونے نے دل میں حیران کن نشاط پیدا کردیا، ایسا لگتا تھا کہ شاید کوئی بجلی کود گئی ہے اور سارا جسم ایک طرف متوجہ ہوگیا ہے، تمام طاقتیں اور دلربائی جمع ہوگئی ہیں اور شوق دیار کا سفر چٹکیاں لے رہا ہے، سینہ میں کشادگی اور فراخی کا عجب عالم تھا، مَن کرتا تھا کہ ہر ایک کو بتاؤں، تذکرہ کروں کہ دیکھو! دیار محبوب کی طرف جانا ہے، فقیہ عصر سے ملاقات کرنی ہے، ان کی عنایت مجھ ناتواں پر پڑی ہیں، ارے دیکھو! دیکھو! ایک ادنی بندہ یہ مقام پارہا ہے، وقت کا فقیہ اور مسلم پرسنل لا کا کار گزار جنرل سکریٹری؛ نیز ملی و علمی کاز کے سب سے معتبر نام سے شرف نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، اسی کے ساتھ ایک ایسی دنیا اور ایک ایسے عالم خیال میں گم ہوگیا جو ناقابل بیان اور ناقابل تحریر ہے۔

نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں

قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں

 

جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے

سب اُن کو سنانے کے دن آرہے ہیں

 

ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو

کہ لٹنے لٹانے کے دن آرہے ہیں

 

ٹپکنے لگی اُن نگاہوں سے مستی

نگاہیں چرانے کے دن آرہے ہیں

 

صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے

چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں

 

چلو فیض پھر سے کہیں دل لگائیں

سنا ہے ٹھکانے کے دن آرہے ہیں

 

 

[email protected]

8120412392

Comments are closed.