Baseerat Online News Portal

دینی تعلیم سے ہی معاشرہ کی صلاح و فلاح ممکن

 

از:- مفتی محمد عبد الحمید قاسمی
استاد جامعہ صدیقہ فیض العلم کریم نگر

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے جس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ بندہ ہر لمحہ اللہ تعالی کی عبادت اور بندگی میں مشغول رہے، لیکن آج کے اس پر آشوب اور پر فتن دور میں نفس و شیطان کے دھوکے سے متأثر ہوکر حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر آرام و راحت کی اشیاء کے حصول اور فکر آخرت کے مقابلہ میں فانی دنیا کو غیر معمولی اہمیت اور حد درجہ التفات نے انسان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل، دین سے دوری اور آخرت کو ایسا بھلا دیا ہے کہ مرنے کے بعد گویا کوئی زندگی نہیں ہے جبکہ عقیدۂ آخرت ایک انقلابی عقیدہ ہے، جس سے انسان دنیا اور آخرت میں سرخ رو اور کامیابی حاصل کرتا ہے، آج ساری مصروفیت، مشغولیت اور جد و جہد دنیا کے لئے ہورہی ہے، عقائد کو صحیح اور درست کرنے اور ایمان و یقین کو پختہ اور مضبوط کرنے کی طرف ذھن متبادر ہی نہیں ہوتا حالانکہ عقائد صحیحہ اور ایمان پر ہی جنت اور دوزخ کا دارومدار ہے-

*موجودہ حالات علم دین سے بے رغبتی کا نتیجہ:-*

موجودہ دور کے حالات اتنے نازک اور نا گفتہ بہ ہیں کہ جس کو الفاظ کی لڑی میں نہ پرویا جاسکتا ہے نہ بیان کیا جاسکتا ہے، البتہ کسی کہنے والے نے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے خوب کہا ہے:-
معاشرہ کے حالات اگر ہم سنانے لگیں گے
تو پتھر بھی آنسوں بہانے لگیں گے
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فتنوں کا ایک سیلاب بڑی تیزی کے ساتھ چار سو رواں دواں ہے جو کسی طریقہ سے تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ، ایک فتنہ کا ابھی خاتمہ ہی نہیں ہوتا دوسرا فتنہ تیار اور اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے،
معاشرہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو فتنے اور فرقے لا محدود اور لاتعداد نظر آتے ہیں جس کی روک تھام کے لئے علمی، عملی، اصلاحی ہر طریقہ سے مسلسل جد و جہد اور انتھک کوششوں کے بعد بھی فتنوں کا سلسلہ برابر جاری ہے، قادیانیت، مہدویت، شکیل بن حنیف، گوہر شاہی، غامدیت،فیاضیت وغیرہ فتنوں کے علاوہ معاشرہ میں بعض برائیاں ایسی جڑ پکڑی ہوئی ہیں، جس کو برائی ہی تصور نہیں کیا جارہا ہے ، لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کرنا، لڑکوں کا لڑکیوں کے ساتھ اور لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات (بائے فرینڈ، گرل فرینڈ) کو فیشن سمجھنا، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلموں کے ساتھ ہندو رواج کے مطابق شادی کرنا، شوہر، والدین اور سماج کی بے عزتی سے بے پرواہ ہوکر اور قوم و ملت کا لحاظ کئے بغیر تین تین اولاد کے بعد عاشق کے ساتھ فرار ہوجانا ،والدین کا اپنی اولاد کو قیمتی اسمارٹ فون دلانا اور ان کا گلی،کوچوں، اور گھروں کے چبوتروں ہر انفرادا یا اجتماعا بیٹھ کر آن لائن و آف لائن گیمس کھیل کر اپنے وقت کو ضائع کرنا، موبائل اور انٹرنیٹ کا بیجا اور غلط استعمال کرنا، نامحرموں کے ساتھ فون پر بات کرنا، چاٹنگ کرنا ،ناجائز تعلقات قائم کرنا، عشق و محبت میں پڑ کر نکاح سے مایوسی کے وقت خود کشی کر لینا یا لڑکی کی نا حق جان لے لینا یا اس کے چہرے پر تیزاب ڈال کر ہمیشہ کے لئے اس کے مستقبل کو خراب کردینا، کم سن لڑکیوں کے ساتھ جبراً زنا کرنا، شادی بیاہ اور خوشی کے موقعوں پر آتش بازی ، پٹاخے، اور بم پھوڑنا، کھانے پینے اور ڈیکوریشن وغیرہ میں پانی کی طرح پیسے بہانا، ، بیانڈ باجہ ، ڈی جے لگا کر بیمار، معذورین اور شیر خوار بچوں کا خیال کئے بغیر دیر رات تک ناچنا اور چیخ و پکار کرنا، شادی میں غیر شرعی کام اور رسم و رواج کو بطور فرض سمجھ کر اہتمام کے ساتھ انجام دینا، جہیز اور جوڑے کی رقم کو خوشی کا نام دیکر اس رسم کو فروغ دینا، نوجوانوں کا ہوٹلوں میں گپ شپ کرنا نیز سستی، کاہلی کی وجہ غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرتے ہوئے ملازمت، نوکری اور کاروبار کی محنت کو بلا کسی عذر کے نہ کرنا اور والدین اور گھر والوں پر بوجھ بننا ، دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے بجائے صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا، برائیوں کی جڑ شراب اور نشہ کی چیزیں گانجا، ہیروئن، افیم، ڈرگز جیسی نشہ آور چیزوں کا استعمال کرکے اپنی صحت کو نقصان پہنچانا اور اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالنا، سود اور فینانس سے مجبور اور پریشان ہوکر خود کشی کر لینا، دو طرفہ شرطیں لگا کر کیریم بورڈ وغیرہ اور پتے اور جوا کھیل کر مالی بحران کا شکار ہوکر خوش گوار زندگی کو اجیرن بنا لینا، شرعی اور قانونی خوف کے بغیر انسانیت کو شرمسار کرتے ہوئے آپسی جھگڑوں میں مال و دولت اور جائداد کے حصول اور پیسوں کی خاطر اپنوں کا خون کرنا، چغلخوری، غیبت،رشوت،بد نگاہی،بے پردگی،حسد،بد گمانی، اور آپس میں دشمنی کرنا، رہن پر مکان لیکر خود اس میں رہ کر یا دوسروں کو کرایہ پر دیکر فائدہ اٹھانا اور اس فائدہ کو اپنا حق سمجھنا، جلدی مالدار بننے کی خواہش میں کاروبار اور تجارت میں حلال و حرام کا لحاظ نہ رکھنا، جانتے بوجھتے غیر شرعی کاروبار کرنا یا غیر شرعی چٹی یا ہراج کی چٹی چلانا یا اس میں حصہ دار بننا، سفلی عملیات کرنا اور بعض لوگوں کا سفلی عاملوں کے علاوہ ہندو پنڈتوں وغیرہ کے پاس جاکر سحر، جادو، اثرات اور کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں علاج کرانا،عورتوں کا من گھڑت باتوں اور عقیدوں کا دل میں بٹھا لینا اور اس کے کرنے کو فرض کا درجہ دینا اور نہ کرنے پر لعن طعن اور ملامت کرنا، لڑکی کا علم ہوجانے ، غربت یا بغیر کسی خاص عذر شرعی کے حمل کو گرا دینا، جھوٹ، دھوکا اور خیانت کو گویا کاروبار کا حصہ سمجھنا، اللہ کو چھوڑ کر مخلوق سے دعائیں، منت اور اولاد مانگنا، بیوی کو ترجیح دیکر والدین کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال دینا، یا ان کو بے سہارا چھوڑ دینا, غیر مسلموں کے ساتھ قلبی تعلق اور لگاؤ رکھنا، ان کو خوش کرنے اور تعلق باقی رکھنے کے لئے ان کے مشرکانہ اعمال میں شریک ہونا یا ان کے تہوار پر مبارکبادی دینا ، کونسی رقم کس مد کی ہے اس کا حساب و کتاب نہ رکھنا ، قوم وملت کےمال کو گناہ جانتے ہوئے ناحق استعمال کرنا، فضول اور غیر ضروری کاموں میں بے دریغ خرچ کرنا، عیسائی مشنریز اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اسلامی احکامات کے سلسلہ میں شکوک و شبہات میں مبتلاء ہونا، مسلم مینیجمینٹ اسکولسس اور کالجس میں بھی قدرت کے باوجود مخلوط تعلیم کے نظام کو چلانا، علماء کی تحقیر، تنقید توہین اور برا بھلا کہنا اور علماء سے مسائل پوچھنے کے بجائے سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ صحیح اور غلط کا علم نہ ہونے کے با وجود از خود اپنے ذاتی مطالعہ سے مسائل کو سمجھ کر عمل کرلینا، اور دوسروں کو دعوت دیکر گمراہی پھیلانا اور اس جیسی برائیاں اور فتنے بے شمار ہیں،جو علم دین سے دوری بیزاری اور غیر معمولی عدم دلچسپی کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی ہیں جن کو علم دین کے ذریعہ سے ہی معاشرہ سے مٹایا جاسکتا ہے-

*علم دین کا حصول رضائے الہی و معرفت خداوندی کا سبب :-*

ظاہر سی بات ہے کہ عمل کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے جب بندہ کو یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کن اعمال سے راضی اور کن اعمال سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ ناجائز ، حرام، ناپسندیدہ کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھے گا، علم کے ذریعہ سے ہی بندہ اوصاف حمیدہ سے متصف اور رذائل خصلتوں سے پاک و صاف رہ سکتا ہے، بندگی کا اصل اور حقیقی مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور معرفت ہے اور معرفت ہی انسان کو علیم یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچاتی ہے معرفت خداوندی کے بعد ہی بندہ کو عبادت کی لذت اور حلاوت محسوس ہوتی ہے، گویا بندہ علم دین کے ذریعہ اللہ تعالی سے اپنے رشتہ اور تعلق کو مستحکم اور مضبوط کر سکتا ہے-

*علم دین کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں:-*

قرآن و حدیث میں علم دین کے فضائل بکثرت موجود ہیں، بطور نمونہ چند ملاحظہ فرمائیں-
پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے تعلیم دی۔ انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (سورہ العَلَق آیت 1تا5)
کہو کہ : کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں ؟(سورہ الزمر آیت9)اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔(سورہ الانبیآء آیت 7) وہ رحمن ہی ہے، جس نے قرآن کی تعلیم دی،اسی نے انسان کو پیدا کیا، اسی نے اس کو واضح کرنا سکھ لایا ہے (سورہ الرحمٰن آیت 1تا4)
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور مسلمانوں کے جماعت کی اچھی تعریف کی پہر فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوا جو اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ پیدا نہیں کرتے نہ انھیں تعلیم دیتے ہیں اور نہ وعظ و نصیحت کرتے ہیں نہ نیکی کا حکم کرتے ہیں نہ برائی سے روکتے ہیں (کنز العمال 8457) جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لئے کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تو اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتے ہیں اور فرشتے علم دین حاصل کرنے والے کی خوشنودی کیلئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں (ابو داؤد3641) عالم کے لئے آسمان اور زمین کی ساری مخلوقات حتی کے پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی دعاء مغفرت کرتی ہیں (ابو داؤد 3641) بہرحال فرض عین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، فرض عین کا علم حاصل نہ کرنا گناہ ہے فرض عین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ عبادت بھی گناہ بن جاتی ہے-

*علوم دینیہ اور علوم عصریہ کے درمیان فرق:-*

دنیوی علم کے حصول کائنات کی چیزوں کے اسماء اور ان میں موجود اشیاء کی تفصیلات کا علم اور روز مرہ آرام و راحت اور سہولت کے واسطے سائنسی تحقیق کے ذریعہ نئ نئ ایجادات کا وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے نیز معیشت کو مضبوط کرنے دنیا کمانے کے مختلف طور طریقے سکھلانے کی غرض سے ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں کہیں تو دنیوی علم کے ذریعہ مخلوق کی معرفت ہوتی ہے، دنیوی علم کا دارومدار اور ساری جد و جہد کا خلاصہ معیشت اور تجارت کو مضبوط کرنا اور آرام و راحت کے سامان کو استعمال کرنا اور جمع کرنا ہوتا ہے ، آج مختلف شعبوں میں سائنسی ایجاد اور تکنیکی ترقیات کے باوجود آج پوری دنیا معاشی مشکل اور پریشانی کا شکار ہے اور آج دنیا کو جو شدید معاشی بحران درپیش ہے اس کا حل اسلامی تعلیمات میں موجود ہے اسلامی شریعت اس بحران سے نکلنے میں دنیا کی رہنمائی کر سکتی ہے اسلام میں تجارت اور کاروبار کے جو اصول بتائے گئے ہیں اسلامی معاشیات کو مغربی دنیا میں بھر پور انداز میں متعارف کیا جائے اور ان کی بنیاد پر ایسی کامیاب تجارتیں منظم کی جائے جو دنیا کو اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کریں ، اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں نکالنا چاہئے کہ اسلام عصری علوم کے سیکھنے سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام تو عصری علوم کے سیکھنے کے سلسلہ میں اپنے سینہ کو کشادہ رکھتا ہے بشرطیکہ شرک وکفر پر مبنی نہ ہو اور نہ کسی طرح شریعت کی مخالفت ہوتی ہو،نیز سیکھنے سے اشاعت اسلام اور ، تبلیغ و تحفظ دین کی نیت مقصود ہو تو ان شاء اللہ یہ سیکھنا ہر لمحہ عبادت بن جائے گا، نیز دینی علوم کا فائدہ دنیا و آخرت دونوں میں ہے اور دنیوی علوم کا فائدہ صرف دنیا تک محدود ہے، عام طور پر دنیوی علوم کا حامل صرف اپنے ہی مفاد کو ملحوظ رکھتا ہے الا ماشاء اللہ اس کے مقابلہ میں دینی علوم کا حامل صرف اپنی ذات ہی نہیں اپنے خاندان، رشتے دار، سماج اور قوم و ملت بلکہ بلا تفریق مذھب و ملت ہر فرد کا بغیر کسی مفاد اور غرض کے خیال رکھتا ہے، بہرحال علوم دینیہ کا سب سے بڑا فائدہ اللہ کی معرفت ہے جو اصل مقصد زندگی ہے-

*علم کا مقصد صالح اور پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل:-*

پورے دین کا خلاصہ پانچ چیزوں پر ہے (1) ایمانیات (اعتقادات) (2) عبادات (3) معاملات (4) معاشرت اور (5) اخلاقیات مکمل دین پر چلنے کے لئے ان چیزوں کا علم ضروری ہے معلوم ہوا کہ علم کے بغیر دین پر چلنا مشکل ہے، ایمانیات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے آج بعض مسلمان اپنا دنیا و آخرت کا قیمتی سرمایہ ایمان کو چھوڑ کر شرک و کفر کو اپنانے اور غیروں کے رہن سہن، طور طریقے اور ان کے رسم و رواج پر چلنے کو ترقی، ہمدردی اور اتحاد کا نام دے رہیں ہیں، عقائد صحیحہ سے ہی ایمان صحیح سالم رہتا ہے، جب عقائد ہی معلوم نہ ہو یا عقائد میں ہی بگاڑ پیدا ہو جائے تو ایمان خطرہ میں پڑجاتا ہے بعض دفعہ تو ایمانیات کا علم نہ ہونے کی وجہہ سے بندہ ایمان سے بھی محروم ہوسکتا ہے جبکہ ہر مسلمان کو اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنا ضروری ہے، (۲) دوسری چیز عبادات ہیں عبادات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقہ پر ہی ادا کیا جائے تو وہ عبادت ہے، ورنہ تو عبادت کے بجائے عادت، خواہش اور طبیعت کا تقاضہ سمجھا جائے گا، مثال کے طور پر اسلام کے بنیادی ارکان نمازز، روزہ، زکوۃ، حج ہے جب تک اس کے مسائل سے واقفیے اور صحیح علم نہ ہو تو وہ ادا کرنے کے باوجود ادا نہیں ہوتی بلکہ ممکن ہے وہ عبادت ثواب کے بجائے گناہ کا سبب بن جائے، لھذا صحت عبادت کے لئے اس کی ادائیگی کا صحیح اور نبوی طریقہ معلوم ہونا ضروری ہے (۳) تیسری چیز دین کا بڑا اور اہم حصہ معاملات ہیں اکثر نزاعات اور جھگڑے معاملات کی صفائی نہ ہونے کی وجہہ سے پیش آتے ہیں، معاملات کی درستگی سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی اطمینان اور پر سکون والی زندگی گزار سکتا ہے نیز آپسی تعلقات اور محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے (۴) چوتھی چیز معاشرت (آپس میں زندگی گزارنا) ہے اچھی زندگی گزارنا حقوق کی ادائیگی سے ہی ممکن ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک پر حقوق عائد کئے ہیں، لھذا شوہر بیوی کے بیوی شوہر کے، والدین اولاد کے اولاد والدین کے، استاد تلامذہ کے تلامذہ استاد کے ، الغرض جس سے بھی رشتہ اور کسی بھی طریقہ کا تعلق ہو وہاں حقوق وابستہ ہوجاتے ہیں اور ان حقوق کا دا کرنا لازم اور ضروری ہے، علاوہ ازیں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر کوئی دوسروں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنے حقوق ادا کرے تو اختلاف پیدا ہی نہیں ہوگا، کیونکہ اختلاف وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں حق تلفی ہوتی ہے، رشتوں میں دراڈ ، قطع تعلقی، نفرت اور دشمنی کا پیدا ہونا یہ سب حق تلفی کی وجہہ سے ہی ہوتا ہے، اس لئے اپنے اوپر دوسروں کے کیا کیا حقوق ہیں جاننا ضروری ہے (۵) پانچویں چیز اخلاقیات ہیں اخلاق اصل میں رویہ، برتاؤ اور عادت کو کہتے ہیں اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اور اچھے افعال ادا ہوں تو اسے حسن اخلاق کہتے ہیں بالفاظ دیگر باطن کی اصلاح اور دل کی اندرونی کیفیت کے سنورنے اور درست ہونے کو کہتے ہیں اور بہتر اعلیٰ اور عمدہ اخلاق بنانے کے لئے آدمی کو بڑی محنت کرنا پڑتا ہے جو علم اور تربیت کے بغیر متصور نہیں ہوسکتا-

*خلا صۂ کلام:-* علم دین کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت کی ترقی صلاح و فلاح خاندانوں اور اور قوموں میں اتحاد کا پیدا ہونا، قوموں کا عروج اور پروان چڑھنا، معاشی بحران کا حل، ارتداد کے خاتمہ، شرک و کفر اور فتنوں ، فرقوں کا سد باب اور معاشرتی برائیوں اور بگاڑ سے حفاظت کے علاوہ بندہ اتباع سنت اور تعلق مع اللہ اور معرفت الہی اور قربت خداوندی کے اعلی درجات تک پہنچ سکتا ہے جو زندگی کا اصل مقصد بھی ہے، لھذا یہ بات کھل کر واضح ہوگئی کہ علم دین کے ذریعے سے ہی پر امن اور ایک پاکیزہ معاشرہ تیار کیا جاسکتا ہے، جس کے لئے صرف علماء اور خدام دین ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ہر فرد کو معاشرہ کی اصلاح اور ترقی کے لئے اسلام کی بنیادی تعلیم اور روز مرہ پیش آنے والے احکام و مسائل کے حاصل کرنے کو نہایت اہم فریضہ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اسکی ترغیب اور تعلیم دینا نہ صرف ضروری بلکہ وقت کا اہم تقاضہ بھی ہے –
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری امت کو علم دین کی اہمیت سمجھنے اور معرفت الہی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

Comments are closed.