Baseerat Online News Portal

دیوبند:صرف مسلمانوں کے بھروسے جیت ممکن نہیں

ڈاکٹرعبید اقبال عاصم علی گڑھ
دیوبند کے تعلق سے ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ 1952سے1977تک (ایک مرتبہ1957میں ٹھاکر یشپال سنگھ آزاد امیدوار کو چھوڑ کر) انڈین نیشنل کانگریس کے ٹھاکر امیدواروں کا قبضہ رہاہے، اسکی بنیادی وجہ ہندو مسلم پیار محبت کی اس فضا کا قائم رہنا تھا جو دیوبند کے اس وقت کے بلا شرکت غیرے چیئرمین مولانا محمد عثمان مرحوم (متوفی1985) نے قائم کر رکھی تھی۔ 1969میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مولانا محمد عثمان کے خاص دوست علاقے کی بہت ہی با اثر ہندو ؤں و مسلمانوں میں یکساں مقبول شخصیت حاجی جمیل احمد نمبردار کو بی کے ڈی کا ٹکٹ ملا اور وہ جیتتے جیتتے صرف اس بناء پر ناکام رہے کہ مولانا عثمان نے اپنی تمام تر کوششیں اپنے دیرینہ رفیق کے مقابلے کانگریس کے غیر معروف ٹھاکر امید وار کو جتانے میں صرف کر دیں جس کا خمیازہ انہیں 1974کے الیکشن میں اس وقت بھگتنا پڑا جب کانگریس کے ٹکٹ پر مرحوم نے خود الیکشن لز نےکی کوشش کی لیکن ٹھاکر صاحب انکے ٹکٹ کی راہ میں حائل ہی نہیں ہوئے بلکہ انکی جیت کے خواب کو بھی چکنا چور کردیا ۔
1977کی جنتا لہر میں مولانا عثمان نے کانگریس مخاف لہر ہونے کے باوجود صرف 1500ووٹوں سے کامیابی حاصل کرکے یہ بات واضح کردی تھی کہ ٹھاکر برادری اپنی اس وقاری نشست کو کسی بھی طرح اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی، اسکی پہلی ترجیح اپنی برادری ہے، خواہ امیدوار کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو ۔ 1989میں جنتا دل کے امیدوار قمر کاظمی مرحوم نے اپنی ذاتی محنت سے دیگر برادریوں کو یکجا کرنے میں کافی کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن ان کو بے ایمانی سے زبردستی ہرادیا گیا۔2016کے ضمنی انتخاب میں معاویہ علی کی جیت کی وجہ ٹھاکروں کی الیکشن کے تئیں عدم دلچسپی تھی ۔ اس تناظر میں اگر اسکا
تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ ٹھاکروں نے اس سیٹ کو ہمیشہ اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر اپنے جیتنے والے امیدوارکو جتایا ہے جبکہ مسلمانوں نے ہندو مسلم اتحاد کو ترجیح دی ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو اس کا احساس ہوا کہ انہیں اپنی اکثریت کے بوتے پر جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ اس کے بعد یہ انتخابات ٹھاکر اور مسلمان کے درمیان نہیں بلکہ ہندو با لمقا بل مسلمان ہو گئی ہیں یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کے باوجود مسلمان جیت نہیں پاتے۔
عجیب صورت حال یہ ہیکہ جب ہم ’’ہندو مسلم‘‘کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ٹھاکر ،جاٹ، ہریجن، برہمن وغیرہ سبھی ہندو ہیں ،اس لحاظ سے دیوبند مسلم اکثریتی سیٹ نہیں ہے صرف اپنے دم خم پر الیکشن جیتنا ’’دیوانے کا خواب‘‘ ہے،
اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجلس کے کسی بھی امیدوار کو محض مسلمانوں کے ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی میں بھیجا جا سکتا ہے یہ بظاہر ممکن نہیں ہے۔

Comments are closed.