Baseerat Online News Portal

دی اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ اورOICکی قرارداد

عبدالرافع رسول
30 نومبر 2020سوموارکوکثیرالاشاعت بین الاقوامی ہفتہ وار میگزین دی اکانومسٹ نے بھارت کولعن طعن کرتے ہوئے اس کی نام نہاد جمہوریت کاپردہ فاش کرتے ہوئے اس کا بہروپی چہرہ بے نقاب کردیا۔اپنی تازہ ترین رپورٹ میں عالمی جریدے نے لکھاکہ بھارت میں جمہوریت کی موت،مودی بھارت کویک جماعتی ریاست بنانے میں مصروف ہوگئی ،مودی کے بھارت میں اداروں کے اختیارات کاتوازن ختم ہوگیا۔دی اکانومسٹ اپنی تازہ رپورٹ میں لکھتاہے کہ مودی سرکار بھارت کو غیر جمہوری بنانے پر تلی ہوئی ہے جبکہ مودی کیبنٹ کے وزرا کی اداروں کے اختیارات میں مداخلت عام ہے جس کی تازہ مثال متنازع صحافی ارناب گوسوامی کی ضمانت کا معاملہ ہے ، بھارتی حکومت کے وزرانے متنازعہ صحافی ارنب گوسوامی کی ضمانت منظورکرائی،جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ گوسوامی کیس ہرگزآزادی رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔
دی اکانومسٹ نے لکھاکہ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والابھارت آمرانہ اورظالمانہ مستقبل کی طرف گامزن ہے ، جہاں صرف طاقت اورطاقتورکابول بالاہے ،گوسوامی ایک متنازعہ صحافی کے طورپرجانے جاتے ہیں،گوسوامی کاشکاراکثربھارت کی متنازعہ حکومتی پالیسی کے نقادہوتے ہیں،گوسوامی ان نقادوں کوغداراورپاکستان کاایجنٹ قراردیتاہے ۔من پسندلوگوں کی حکومتی پشت پناہی مودی کے بھارت کاوطیرہ بن چکی،عالمی سطح کے ویکلی میگزین نے اپنی اس تازہ رپورٹ میں بتایاکہ بھارتی عدالتیں مودی کی کٹھ پتلی بن چکی ہیں، ہزاروں مقدمات زیر التواہیں اور بے جرمی کی پاداش میں جیل بند لوگ کئی سالوں سے انصاف کے منتظر ہیں،زیرالتوامقدمات میں اکثریت اقلیتی گروہوں سے ہے ،ایک چوتھائی وہ مقدمات جن میں ایک سال سے زائدعرصے سے بے جرم لوگ جیلوں میں بندہیں۔
دی اکانومسٹ جریدے نے لکھاکہ5 اگست 2019میں مودی نے کشمیر پر غاصبانہ طورپر براہ راست حکمرانی مسلط کی، ہزاروں معصوم کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا لیکن عدلیہ خاموش رہی،متنازعہ قانون پاس کرانے کیلئے 2017میں مودی نے راجیہ سبھاکے اختیارات کم کرائے ،بھارت کی اعلی عدلیہ ابھی تک کشمیرکونظراندازکئے ہوئے ہے ،متنازعہ سی اے اے 2019کیخلاف 140سے زائدپٹیشنز کی سماعت مسلسل التواکاشکارہے ،بھارت قومیت کے نشے میں آمریت کی طرف رواں دواں ہے ،رپورٹ میں بتایاگیاکہ دہلی پولیس نے سی اے اے 2019کیخلاف مظاہروں میں مسلمانوں پرظلم کیا،لیکن بھارتی عدلیہ خاموش رہی، دی اکانومسٹ نے لکھاکہ مودی نے بھارتی فوج کو بھی سیاست میں گھسیٹا گیااور سی ڈی ایس کے عہدے پر جنرل بپن راوت کی تعیناتی سیاسی امور میں مداخلت کا ثبوت ہے ،عالمی جریدے کی رپورٹ میں کہاگیا الیکشن سے پہلے بھی مودی نے فوج کا سہارا لیا،لداخ میں چین کے ساتھ تنازع کا بھرپور پراپیگنڈا کیا۔
اسے قبل محض دویوم قبل28نومبر2020ہفتے کو افریقی ملک نائجر کے دارالحکومت نیامے میں منعقد اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے47ویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر اوربھارت سمیت پوری دنیامیں اسلاموفوبیا کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظورکر لی گئی۔اس تازہ قرارداد میں صورتحال کے تمام پہلووں کا بخوبی احاطہ کیا گیا ۔بھارت کی ریاستی دہشت گردی،بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویئے، اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان، مسئلہ فلسطین ،افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو بالخصوص اجاگر کیاگیا۔قرارداد میں کشمیرپرفوکس رکھاگیااور کہاگیاکہ OICکہ 5اگست 2019کوبھارت کی طرف سے کشمیرپراٹھائے گئے اقدامات کومسلم ورلڈمسترد کرتی ہے اوریہ کہ یہ بھارتی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کی براہ راست توہین ہیں۔بھارتی اقدامات کامقصد خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، استصواب رائے سمیت کشمیریوں کے دیگر حقوق چھیننا ہے۔
بھارت سے کہاگیا کہ وہ غیرکشمیریوں یعنی بھارت کے ہندوباشندگان کومتنازعہ مسلم ریاست جموں وکشمیرکا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجرا اور دیگر ناجائز اقدامات منسوخ کرے اورمتنازعہ مسلم ریاست جموں و کشمیرمیں ری آرگنائزیشن آرڈر، جموں و کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفکیٹ رولز، جموں و کشمیر لینگویج بل اور زمین کی ملکیت سے متعلق قوانین میں ترامیم، جعلی مقابلوں اور نام نہاد آپریشنوں میں ماورائے عدالت قتل سمیت ریاستی دہشت گردی کے دیگر واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کے استعمال اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو ملٹری کریک ڈاون بڑھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے اسے وہ باز آجائے ۔
قرارداد میں کہا گیا کہ بھارت اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کردار ایل او سی پر بڑھائے، بھارت تمام تنازعات عالمی قانون، معاہدات کے مطابق طے کرے، دنیاکے57مسلم ممالک سے قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل خصوصی ایلچی برائے کشمیرکا تقرر کریں، جوخصوصی طورپرمقبوضہ جموںوکشمیر کی نگرانی کرے اورلمحہ بہ لمحہ کشمیر کی صورت حال سے یواین سیکریٹری جنرل کو آگاہ کرے،قرارداد میںانسانی حقوق کمیشن کو کشمیر میں داخلہ نہ دینے کی بھارتی اقدام کی مذمت کی گئی اورسیکریٹری جنرل او آئی سیسے کہاگیاکہ وہ انسانی حقوق کمیشن رابطہ گروپ معاملے پر بھارت سے بات کرے۔ قرارداد میں او آئی سی سیکریٹری جنرل سے کشمیر میں بھارتی مظالم پر رپورٹ تیار کرنے کی درخواست کی گئی اور کہا گیا کہ رپورٹ وزرا خارجہ کونسل کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے۔ اجلاس کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اڑتالیسواں اجلاس پاکستان میں منعقد کرایا جائیگا۔
OICکے وزرائے خارجہ اجلاس میں کشمیر پر جائز اور اصولی موقف اپناتے ہوئے مسلم دنیاکی جانب سے مظلوم کشمیری مسلمانوںکوپیغام دیاگیا کہ مسلم ممالک مختلف شعبوں میں بھارت سے تجارتی مفادات کے اشتراک کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے جائز حق کی حمایت کے اظہار میں کسی ہچکچاہٹ کے شکار نہیںجوایک امیدافزابات ہے ۔ایسے عالم میں کہ جب مقبوضہ کشمیر کی جانب سے مغربی دنیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، دنیا کے ستاون مسلم ممالک کا اس مظلوم قوم کے حق میں آواز اٹھانا خوش آئند ہے ،اسی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سامنے تنازع رکھا جائے تو کشمیری باشندوں کو بھارتی جبر سے بچایا جا سکتا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ رہنی چاہئے کہ مسائل صرف قراردادوں سے نہیں ٹھوس عملی اقدامات اوردشمن کی پٹائی اورمرمت سے حل ہوتے ہیں۔ اس لئے تنازع کشمیر کے مبنی بر حق تصفیے کیلئے بھارت کو معیشت، تجارت اور دیگر شعبوں میں بھارت کے خلاف ایسے نتیجہ خیز عملی اقدامات ناگزیر ہیں جوبھارت کومات دے سکیںاور اسے تنازع کشمیر کے منصفانہ حل پر مجبور کر سکیں۔

 

Comments are closed.