Baseerat Online News Portal

"دی کشمیر فائلز” باہمی نفرت کو ہوا دینے کی کوشش۔

 

 

نور اللہ نور

 

ملک میں پچھلے کئی سال سے نفرت کی آبیاری ہورہی ہے اور منصوبہ بند طریقے سے منافرت کی فضا قائم کی جارہی ہے۔ جس کا ظہور وقفے وقفے سے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔

بھیڑوں کے ذریعہ معصوموں کو زدو کوب کرنا، سلی بائی اور بلی بائی ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کی حرمت سے کھلواڑ کرنا ، مذہبی آزادی پر عدلیہ کے سہارے دست درازی کرنا اسی نفرت کا عملی مشاہدہ ہے۔

 

اس نفرت کو فروغ دینے میں فلم انڈسٹری بھی پیش پیش ہے ابھی حال ہی میں ایک فلم "دی کشمیر” فائلز کے نام سے ریلیز ہوئی ہے جو حقیقت سے دور اور نفرتی مواد سے پر ہے،کہا جاتاہے کہ فلم سماج کا آئینہ ہوتی ہے مگر افسوس ہیکہ اس آئینے میں حقائق نہیں بلکہ ایک فرقے کے تئیں نفرت منعکس ہے، اور یہ فلم حقیقی منظر کشی کے بجائے مذہبی جنونیت کے الاؤ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔

اور یہ لوگ اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے جس کا اندازہ سنیما گھروں میں توڑ پھوڑ، تھیٹر کے باہر گونجتے جے شری رام کے نعرے اور اس کے بعد شوشل میڈیا پر مسلمانوں کو دیئے جانے والے شب و شتم سے لگایا جاسکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا تجزیہ اور اور فلم کا ٹریلر اس بات کی بین دلیل ہے کہ اس فلم کا مقصد نفرت کی تشہیر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ حقائق کو سرے مسترد کرکے نفرتی مواد کی خوب آمیزش کی گئی ہے اور اصل حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا۔

فلم میں مسلمانوں کے ظالم دکھایا گیا ہے اور کشمیری پنڈتوں کو مظلوم مگر اس کے پیچھے کے محرکات کیا تھے اور کن کن لوگوں کی ایماء پر یہ انسانیت کا ننگا ناچ ہوا اسے بھی سرے سے خارج کردیا گیا۔

دراصل تقسیم ہند کے بعد سے ہی کشمیر متنازع اراضی بن گیا اور ہر کوئی اس پر اپنی ملکیت جتانے لگا اور خالص کشمیریوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں کسی کی ماتحتی میں نہیں رہنا ان ہی کشمکش کے بنا پر سب نے اپنے اپنے مفاد کی روٹی سینکی اور سیاسی دکان چمکائی جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسہ ہوگیا ، اس حقیقت پر فلم میں کہیں بات نہیں ہوئی ہے۔

اسی طرح کے اس وقت بے جے پی ہی دوسری پارٹی کے حمایت کے ذریعہ اقتدار میں تھے اور ” جگموہن” وہاں کے گورنر تھے اور انہوں نے سیاسی مفاد کے لیے ہندؤوں کو مسلمان کا خوف دکھاکر بھگانے کا کام کیا مگر اسے بھی نہیں بتایا گیا اور اس کی پردہ پوشی کردی گئی۔

اور سب سے اہم بات کہ کشمیری پنڈتوں سے زیادہ زخم مسلمانوں کے ملے ہوئے ہیں ایک عرصے سے ان کی زندگی جہنم بنادیا گیا،ان کے بچے کو دہشتگرد کہ کر موت کے گھاٹ اتار دیاگیا مگر ان کا درد بیان نہیں کیا بلکہ ان کو ظالم بناکر پیش کیا

اور بھی بہت ساری خامیاں ہیں جو اس بات کی طرف مشیر ہے کہ فلم کا اصل نفرت کو بڑھاوا دینا ہے اور دنگا بھڑکانا ہے اور سب سے قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ پردھان منتری جیسے ذمہ دار شخص بھی اس کو دیکھنے کا مشورہ دے رہا ہے۔

Comments are closed.