Baseerat Online News Portal

رونق علی کاسانحہ ارتحال!اک شخص سارے شہرکوویران کرگیا

صدام حسین فیضی(ہماراسماج دہلی)
9528568085

اس وسیع وعریض لیکن فانی دنیامیںآسمان وزمین کی تخلیق،فرشتوں،جنّ وانس اورچرندپرنددرندکے پیداکرنے کااصل مقصد عبادتِ الٰہی ورضائے الٰہی ہے اورانسانوںکیساتھ حُسنِ سلوک ہے اورتمام مخلوقات میںسب سے بڑامرتبہ انسانوںکودیاگیاہے۔سالہا سال قبل اس دنیاکاوجودعمل میںآیاتھااورخوداللہ تعالیٰ نے اس کواپنے نورسے پیداکرکے اپنی روح اس میںپھونک دی تھی۔ابوالبشر سیّدناآدم ؑ کے بعدان کی پسلی سے حضرت حواؑ کوپیداکیاگیا۔ اِس کی تخلیق گندے اورناپاک قطر ے(منی)اورخون سے ہوتی ہے جو لو تھڑ ے کی شکل اختیار کرنے کے بعدایک خوبصورت ڈھانچہ اورشکل وصورت میںماںکے پیٹ سے پیداہوتاہے۔اس کی پیدائش کے وقت ماںکوبہت سی پریشانیوںاوردشواریوںکاسامنادرکارہوتاہے مگرولادت کے بعدبچے کی بہترین پرورش ،تعلیم وتربیت،شادی بیاہ اورکفالت والدین کے ہاتھوں میںہوتی ہے کہ وہ اس کوکس راہ پرگامزن کریںجوخوبیاں،صلاحیتیںاورعادات والدین میںہوتی ہیںوہی اس کی اولادمیںبھی پیداہوجاتی ہیں۔والدین حق پرست ،نیک ،دیندارہوںتواولادمیںبھی یہ خوبیاںآجاتی ہیںاس کابہترین نمونہ آپ کے سامنے مولانارونق علی تھے جواپنے والدین کے نقش قدم پرایسے چلے کہ سماج کے کئی گھرانوںکی زندگی اپنی دیانتداری ،ایمانداری اورتقویٰ سے تبدیل کردی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکوکائنات کاسرتاج بنایاہے بشرطیہ کہ وہ صاحبِ ایمان اورعملِ صالح پرکاربندہو۔انسان کی تخلیق کا مقصدہی عبادت ِالٰہی ہے۔اس پربہت ساری ذمہ داریاںعقائدکی گئی ہیں۔اس پریہ ذمہ داری بھی عائدکی گئی ہے کہ وہ اس کے دین کی تبلیغ کرے،قرآن عظیم کے پیغامات کوعام کرے اوراس کی رسّی(قرآن) کومضبوطی سے خودبھی تھامے اوردوسروںکوبھی تھامنے کی تبلیغ کرے۔راہِ حق پرلانے کاکام کرے اورفروغ دین کیلئے کوشاںہو۔
یکم جولائی 1935کواترپردیش کے بدایوںضلع میںجنم لینے والاایک معصوم رونق علی ولدعلی حسن بچپن سے ہی نماز،رزہ،صدقہ و خیرات،نفلی عبادات ،غریب وبے بسوںکی پرورش کرتے کرتے تحریکِ اسلامی سے جڑگیا۔ ابتدائی تعلیم گھرپرہوئی اوربعدمیںاعلیٰ تعلیم گھر کے باہرحاصل کی اورحصول تعلیم کے خاطرگرمی،سردی،برسات یاحالات کی طرف مڑکرنہیںدیکھابلکہ اپنی منزلیںطے کیں۔ شروع سے ہی صاحبِ ایمان اوراعمال صالح پرکاربندہونے کیساتھ ہی انتہائی دیانتدار،مخلص،جفاکش،اصولوںکاسخت پابندیہ مردِمؤمن ہمیشہ حق کو حق اورباطل کوباطل کہنے کی جرأت وطاقت رکھتاتھا۔تعلیم سے فراغت کے بعدمقامی مکاتب سے جڑے رہے اوربعدمیں 1956 میں اس دورکی ملک بھرمیںمقبول تعلیم گاہ مرکزی درسگاہ اسلامی رام پورمیںریاضی پربہترین عبور رکھنے کی بناپراستاد مقررہوگئے۔ 15 نومبر 2020کواس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔انّاللہ وانّاالیہ راجعون ۔آسماںتیری لحدپرشبنم افشانی کرے۔
ماسٹررونق علی نے تقریبا38سال مرکزی درسگاہ اسلامی میںدرس وتدریس انجام دینے کے ساتھ ہی بچوںکی خارجی صلاحیتوںکو نکھارا،ان میںدین کاجذبہ پیداکیا۔ان میںسے ایسے ایسے نایاب گوہر و جوہر اس عرصہ میںتیارکئے جن کے بارے میںعقل تصوربھی نہیں
کرسکتی۔یہ سب آ ج اپنے علاقوںمیںدین کوبھی فروغ دے رہے ہیںاور دنیاوی شعبوںمیںبھی اپنی منفرد شناخت بنائے ہوئے ہیں مگر افسوس صدافسوس آپ کے سبکدوش ہونے کے بعدیہاںکی مضبوط تعلیم کی دیواروںکوآہستہ آہستہ مسمارکیاجانے لگاجس کاملال انہیں آخر وقت تک ستاتارہااوروہ اس پربے حدفکرمندرہاکرتے تھے۔اکثروبیشتروہ مرکزی درسگاہ اسلامی کے علمی وقاراور اس چہاردیواری میں رہتے ہوئے جوقربانیاںدی گئیںان کاتذکرہ کیاکرتے تھے۔ بقول مرحوم رونق علی ’’یہ ایک دانش گاہ تھی جس نے ہزاروںافرادکی زندگی بدل دی اوران کوراہ راست مل گئی۔مگرافسوس کہ آج یہ ادارہ اپنے بانیان ، قدیم اساتذہ ،محبین اورکارکنوںکی قربانیوں کورورہاہے‘‘ان کا فرمان تھاہمارے اکابرین نے اس کواپنے خون پسینہ سے سینچاہے اورآج اس کاحال یہ ہے کہ اس میںطلباء کی تعداداتنی کم ہے ۔
مولانارونق علی شروع سے ہی دینداراورامانت دارتھے ۔سنِ بلوغ سے اپنے زندگی کے آخراوقات تک نمازکے پابند رہے اس لئے اپنے شاگرد،عزیزاوردیگرمسلمانوںکوبھی نمازباجماعت اداکرنے کی تلقین کیاکرتے تھے ۔ان کاکہناتھاکہ اگرانسان نماز کا پابند ہو جائے تووہ وقت کابھی پابندبن جاتاہے۔ ان میںجہاںبہت سی خوبیاںتھیںان میںایک بے باکی بھی تھی اورہربڑے کام اورپریشانی کے وقت یہی کہا کر تے تھے اللہ تعالیٰ نے جوفیصلہ کرلیاہے اس کے آگے کچھ ہونے والانہیںہے ۔چاہے جتنے بھی زمین پرپیرمارلو اب اللہ کے قبضہ قدرت میںہے وہ کیاچاہتاہے ۔اس پرہمارابھی ایمان ویقین ہے جوبھی ہوگاوہ اللہ کی جانب سے ہوگااوروہی زیادہ بہترکرنے والا ہے۔85سالہ زندگی میںکئی نازک اورسنگین موڑزندگی میںآئے مگروہ اللہ پربھروسہ رکھتے تھے اس لئے بہ آسانی ان کوپارکرلیا۔
قوموںکی زندگی کارازاسلاف کے کارناموںسے واقفیت اوران سے روشنی حاصل کرنے میںمضمرہے جس کوامانت سمجھ کربغیرکسی کتر بیونت کے، اپناپسندیدہ رنگ چڑھائے بنا ٗجوںکاتوں،بے کم وکاست آنے والی نسلوںکومنتقل کردیناچاہئے یہ تسلسل پاورہائوس کا کام کرتاہے ،ان کی بے مثل خدمات ،یادگارکارناموںاورقربانیوںکاخون مسلسل حرکت میںرکھ کرقوموںکوحیات عطاکرتاہے اور نوجوانوں میںایک ولولہ اورآگے بڑھنے کاجذبہ پیداکرتاہے۔مولانارونق علی نوراللہ مرقدہٗ کی شخصیت اوران کی گراںقدرقولی وعملی اورملی و سماجی وادبی خدمات یہ حق رکھتی ہیںکہ ان کونہ صرف تاریخ میں محفوظ رکھاجائے بلکہ نسل درنسل منتقل بھی کیاجاتارہے تاکہ انہیں بھی محسوس ہوکہ ہماراماضی روشن وتابناک رہاہے ۔اس خاک میںکیسی کیسی ہستیاںپنہاںہوگئیںجنہوںنے دلوںکی دنیابدل دی اوراپنے جلومیںتوشہ آخرت بھی لئے ہیں۔مرحوم رونق علی وہ آگ تھے جس میں خام سوناتپ کرکندن بن جاتاہے ،وہ خوشبوتھے جوبھی پاس رہا معطرہوگیا،ان کواپنی رگِ جاںسے بھی زیادہ قریب محسوس کیااوران کی زندگیاںتبدیل کردیں۔
حق یہ ہے مرحوم سرمایہ دارنہیںتھے البتہ دل کے غنی تھے،قول کے سچے ،عزم کے پختہ تھے جس کی وجہ سے نشست گاہ میںمحبین کا ہجوم رہاکرتاتھا۔زندگی میںبہت سی پریشانیاںجھیلی ،حالات سے مقابلہ کیامگرہمت نہیںہاری ۔باوجوداس کے تمام بچوں کو دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ وپیراستہ کیا ۔ایک بڑااہم کارنامہ یہ بھی رہاہے کہ سیکڑوںنہیںہزاروںبچوںکوایک مربی ومشفق باپ کی طرح تعلیم دلائی جن میں بہت سوںکی فیس اوردیگرضروری اخراجات کابوجھ بھی اٹھایا۔اس میں کوئی دورائے نہیںکہ زندگی کے آخری وقت تک بیوہ، غریب اوریتیموںکوماہانہ وظائف دینے کے ساتھ موسم سرمامیںلحاف،گدے اور کپڑے دینے کاسلسلہ بدستورجاری وساری رکھا ۔ہمیشہ انسان کواس کی محنت کی اجرت میںکچھ اضافہ کرخاموشی سے دیاکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ رکشہ پولر انہیںخودرکشہ روک کر بٹھایا کرتے تھے۔ان کے حال چال جانتے اورمددکرنے میںپیچھے نہیںہٹتے تھے اورکبھی کسی کارازفاش نہیں کرتے تھے۔وہ اکثرلوگوںکے گھر جاتے ان کی پریشانی اورضرورتوںکودیکھتے اورجہاںتک ممکن ہوتاحل کرتے۔ خصوصاََلڑکیوںکی تعلیم وتربیت کیلئے ہمیشہ کوشاںرہتے،ان کے داخلے کراتے اورفیس کی ادائیگی میںبڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے۔ اس کی سیکڑوںمثالیںرام پورمیںبھی موجودہیں۔
حدیث شریف میںآتاہے کہ انسان کے دنیاسے رخصت ہونے کے بعداس کے عمل کے ثواب کاسلسلہ منقطع ہوجاتاہے مگرتین چیزیں ایسی ہیںجن کاثواب مرنے کے بعدبھی ملتارہتاہے۔صدقئہ جاریہ،علمِ نافع اورنیک اولادجواس کیلئے دعاکرے۔الحمدللہ مرحوم میں تینوں چیزیںکوٹ کوٹ کرپا ئی جاتی ہیں۔اللہ نے ان کو7اولاددی ہیںجن میں6حیات ہیںجواپنے اپنے میدانوںمیںمصروف ِعمل ہیں یہ خوش قسمتی کی بات ہے سبھی اپنے والدِمحترم کی طرح راہِ دین پرقائم ہونے کیساتھ ہرنیک کام میںبڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیںاورآگے بھی لیتے رہیںگے۔ مرحوم کی وفات سے زبردست قلبی وذہنی صدمہ یوںبھی پہنچاہے کہ وہ میرے اہلِ خانہ سے نہایت نزدیک تراورحددرجہ لگائو رکھتے تھے۔ان کے مشوروںسے فیضیاب ہوا،ان کے اخلاق سے متاثرہوا،بہت سی باتوںکوسیکھنے،سمجھنے اورکرنے کاہنرآیا۔ان کا کہنا تھا کہ جوانسان بھی دین اسلام کیلئے کام کررہاہے اس کی مددکرواوراس کی ستائش کرو ٗہوسکتاہے جوکمیاںہیںوہ دورہوجا ئیں اور خامیاں ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ان میں خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ ہرانسان کی اس کے شعبے میںہمت افزائی کیاکرتے تھے اوراس کوآگے بڑھنے کاموقع دیاکرتے تھے۔صحافت کے تعلق سے ان کامشورہ تھا’’ صحافی کاقلم ایماندارہوناچاہئے گرچہ جان ہی کیوںنہ جارہی ہو‘‘ ۔اردوکے فروغ کیلئے بہت سے اخبارات ورسائل خریداکرتے تھے اوربچوںکوبھی خریدکردیاکرتے تھے۔ سیرت رسول اورتفہیم القرآن لوگوںکوہدیہ کیا کرتے تھے۔
ایک ایسے نازک دورمیںجب امت چہارسوآزمائشوںکے گرداب میںہے ۔دشمن اس کے وجودکومٹانے پرتلے ہوئے ہیں ۔ مسلکی و فروعی اختلافات نے نیم جاںکردیاہے۔ان سخت حالات میںمولانارونق علی کی شخصیت روشن چراغ بن کراندھیرے میں راستہ دکھارہی تھی ایسی شخصیتیں امیدوںکے دیئے جلائے رکھتی ہیں۔ ان کی خدمات کوسچاخراج عقیدت یہ ہے کہ ان کے فیوض وبرکات سے کما حقہ استفادہ کیا جائے ، ملت کوجوڑکررکھاجائے اورملی اتحادکوہرقیمت پربرقراررکھاجائے جس کیلئے وہ زندگی بھرساعی وکوشاںرہے ۔وہ ہر فرقہ کے علماء سے تعلق ہی نہیںرکھتے بلکہ وہ علمائے کرام بھی ان سے تعلق رکھاکرتے تھے۔ان کی مزاج پرسی کیلئے آتے تھے اورمرحوم بھی ان کے یہاںجایاکرتے تھے۔ وہ کہتے تھے تمام لوگ دین کی اشاعت وتبلیغ کیلئے ہی کام کرتے ہیں اسلئے کسی کوبرامت گردانو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ اہلِ خانہ کوصبرجمیل عطافرمائے۔
پیری میںولولے وہ کہاںہیںشباب کے اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
ملک میںکوویڈ19-کے دوران علمی وادبی اورسیاسی وسماجی شخصیات سمیت بڑی تعدادمیںدیگرشعبوںسے تعلق رکھنے والی ہستیاں خاموشی سے ہمیںروتا،بلکتااورسسکتاچھوڑگئی ہیںان چراغوںکے کُل ہونے سے اس دیش کابڑاعلمی وادبی خسارہ ہواہے جس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔اللہ کی ذات سے یقین ِ کامل ہے کہ وہ ضروربہ ضرورہمیںنعم البدل عطاکرے گا۔یقینارونق علی بھی وہ چراغ تھے جس کے گُل ہونے سے فضامیںتاریکی چھاگئی ہے۔ ایسی شخصیات کاجاناتمام طبقات وافرادکیلئے فکرمندی کی بات ہے۔ان کو سچاخراج عقیدت یہی ہے کہ ان کے مشن سے تحریک حاصل کی جائے اوراس میںقطعی لاپروائی نہ برتی جائے ۔
بچھڑاکچھ اس اداسے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہرکوویران کرگیا

Comments are closed.