Baseerat Online News Portal

روکے نہ رک سکے گا سیل روا ں ہمارا

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )
زندہ دل قومیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے لئے عزت و وقار کا راستہ تلاش کرلیتی ہیں ۔ وہ دوسروں کے سہارے سے زیادہ اپنی خود اعتمادی اور عزم مستحکم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنا سفر کامیابی سے طے کرتی ہیںا ور بالآخر نشان منزل کو چھولیتی ہیں ۔اس کے برعکس جن قوموں میں خود اعتمادی اور عزائم کا فقدان ہوتا ہے وہ صرف اور صرف دوسروں کی دست نگر بن کر رہ جاتی ہیں ۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قسطنطنیہ(استنبول )عیسائیوں کی ایسی مملکت تھی جو ایک لحاظ سے ناقابل تسخیر قلعہ کہلاتی تھی بڑی سے بڑی جانباز قومیں ان کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرلیتی تھیں ،متعدد مسلم سلاطین نے اس مملکت پر پے درپے حملے کئے لیکن ہمیشہ شکست ہی ان کا مقدر بنی لیکن ایک ایسا سلطان جو تاریخ میں سلطان محمد فاتح کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے اس ناقابل تسخیر قلعہ کو فتح کرلیا اور اسے اپنی مملکت میں شامل کرلیا ۔کہتے ہیں کہ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا اور دونوں طرف سے خونریز جنگ کا آغاز ہواتووہ رومن امپائر کیلئے سخت آزمائش کا وقت تھااس نے مسلم افواج کو پسپا کرنے کیلئے سارا زور استعمال کرڈالا انجام کا رمحمد فاتح کے عزائم کے سامنے نہیں ٹک سکے ۔اس وقت عیسائی علماء کا ایک سربرآوردہ گروہ مسلکی بحث میں الجھا ہوا تھا ان میں اس بات پر مناظرہ ہورہا تھا کہ فلاں موقع پر حضرت مسیح علیہ السلام نے خمیری روٹی کھائی تھی یا فطیری ،اس کے علاوہ ایک سوئی کے انتہائی باریک سوراخ سے بیک وقت کتنے ہزار فرشتے گزرسکتے ہیں ۔
یہی صورتحال اسلامی سلطنت بغدادمیں بھی ہوئی جب امیرالمومنین مستعصم باللہ کے وزیراعظم علقمی کی مسلکی دشمنی اور مملکت کے خلاف اس کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں اس نے منگول حکمراں سے خفیہ خط وکتابت کے ذریعے بغداد پرحملے کی ترغیب دی اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کی اس نے خلیفہ کو سمجھا بجھا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ فوجوں کی تعداد نصف کردی جائے جن پراچھا خاصا سرمایہ صرف ہوجاتا ہے ،پھر بچی کھچی فوجوں کو بغداد سے باہر سرحدوں پر روانہ کردیا ،ٹھیک اسی وقت ہلاکو نے حملہ کردیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی ،خلیفہ مستعصم باللہ کو گرفتار کرلیا گیا اور ٹاٹ کے نمدے میں باندھ کر اس پر لاتوں اور گھونسوں کی اس قدر بارش کی گئی کہ دم گھٹنے کے سبب اس کی جان چلی گئی ۔اس حملے میں کم و بیش ۱۵؍سے ۱۶؍لاکھ مسلمان تہہ تیغ کردیئے گئے ،روایات میں آتا ہے کہ اس خونریزی کے سبب دریائے دجلہ کا پانی ہفتوں سرخ رہا ، گھوڑوں کی سمیں خون اور کیچڑ میں لت پت رہتی تھیں ،کتب خانوں کو دریا برد کردیا گیا۔بغداد کی اسی حالت زار پر شیخ سعدی شیرازیؒ نے اپنے تاثرات اس طرح منظوم کئے تھے ۔؍آسماں را حق بود گر خوں ببارد برزمیں؍ برزوال ملک مستعصم امیرالمومنیں ؍کہا جاتا ہے کہ جس وقت ہلاکو بغداد میں گھس کر قتل عام کررہا تھا اس وقت دریائے دجلہ کے کنارے علماء مسلکی بحث میں الجھے ہوئے تھے ۔
وہ وقت پھر بھی خیرالقرون سے بہت قریب تر تھا لوگوں کے اندر غیرت و حمیت کا بہر حال ایک معیار قائم تھا لیکن آج صورتحال بے حد نازک ہوچکی ہے ۔کون سی وہ برائی اور خرابی ہے جس سے ہم محفوظ ہیں ،بغض کینہ و نفرت کا بازار گرم ہے ،جھوٹ ،غیبت اور چغل خوری جیسی لعنت توہم پر جیسے مباح ہوچکی ہے،بھائی بھائی کا دشمن بناہوا ہے ،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق تو درکنارہمیں ان کی خبرگیری کی بھی فرصت نہیں۔ہم جو ٹرسٹ چلاتے ہیں ان پر مالکانہ قبضہ کئے ہوئے بیٹھ گئے ہیںاس کے انتظامی امور میں دوسروں کو نہیں آنے دینے کیلئے سارے حربے استعمال کرتے ہیں ،اپنی جگہ پر اپنے بیٹوں یا خاص لوگوںکوبٹھانے کیلئے سو سو جتن کرڈالتے ہیں ۔اللہ کے رسولﷺ کی صحابہ کو سخت ہدایت تھی کہ جو لوگ عہدے کے خواہش مند ہو ں اور اس کے حصول کی کوشش کریں انہیں ہرگزہرگز کوئی عہدہ نہ دیا جائے ۔آج اس کے برعکس ہم عہدے کے حصول کیلئے جائز ناجائز کچھ بھی کرنے کو تیارہیں ۔ راجیہ سبھا یہاں تک کہ سرکاری کمیٹیوں میں جگہ حاصل کرنے کیلئے خطیر رقم صرف کرڈالتے ہیں ۔گذشتہ دنوں جب ہم دفتر سے لوٹتے ہوئے شب میںباندرہ اسٹیشن پہنچے تو برج پر سے ایک روحانی منظر دیکھ کر دل بڑا مسرورہوا برج کے شمال میں ایک چھوٹے سے میدان میں وعظ کی مجلس چل رہی تھی تھوڑی دیر کیلئے ہم بھی کھڑے ہوگئے لیکن یہ دیکھ کر بے حد تعجب اور افسوس ہوا کہ اس محفل میں بمشکل پندرہ سے بیس افراد موجود تھے جن میں منتظمین بھی شامل تھے۔آج ہمارا یہ کیسا حال ہوگیا ہے کہ سچی اور اچھی باتوں کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں ،ایسی محفلوں میں بیٹھنا ہمارے لئے وبال جان بن جاتا ہے اور بہت جلد اکتا جاتے ہیں لیکن لہولعب اور کھیل تماشوں سے ہماری دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسرے دن جب ہم پھر وہیں سے گزرے تو منظر بدلا ہواپایا، برج کے جنوب میں ایک چھوٹی سی جگہ پرایک بڑے منڈپ میں نہایت تیز آوازمیں ڈی جے بج رہا تھا رنگ برنگی روشنیوں میں سیکڑوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھرک رہے تھے اور ان کے اطراف بیشمار لوگ یہاں تک کہ برج کے اوپر بھی بڑی تعداد میں لوگ لطف اندوز ہورہے تھے ۔میںنے سوچا کہ جس قوم کا یہ حال ہوکہ اس کی دلچسپی تماشوں سے بڑھ جائے اور نیک کاموں سے اکتانے لگے اس کا انجام تو یہی ہوگا جو فی الحال ہے ۔ ایسے میں علماء اور مصلحین امت کی ذمہ داری اوربڑھ جاتی ہے کہ وہ تمام مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس عوامی رجحان کو تبدیل کرنے میں اپنی ساری قوت صرف کردیں ۔لیکن جو خود قابل اصلاح ہوں وہ دوسروں کی اصلاح کس طرح کرسکتے ہیں ۔
آج ملک کی صورتحال انتہائی نازک دور سے گزررہی ہے فاشسٹ جماعتوں کے غلبے کے بعد وہ سار ے کام انجام دیئے جارہے ہیں جو آئین ہند اور قانون کے خلاف ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد موجودہ حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے پر پوری طرح عمل پیرا ہوگئی ہے ۔تین طلاق پر پابندی ،پھر بابری مسجد پر یکطرفہ فیصلہ اور آرٹیکل ۳۷۰کا خاتمہ اور اب شہریت ترمیم بل کی منظوری اور این آرسی کے نفاذ کی طرف بڑھتے قدم نے ثابت کردیا ہے کہ یہ حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہتی ہے جس کے خلاف جامعہ ملیہ اور پھر جے این یو کے طلبا کی آوازاٹھی اور دھیرے دھیرے پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبا اس احتجاج میں شامل ہوگئے ،ان کے ساتھ ہی ملک کے ہندومسلم سکھ عیسائی سبھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن حکومت کے تیور سخت ہیں اور پولس پشتی بان بنی ہوئی ہے، احتجاجیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے لیکن جوش احتجاج میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔یہ اجتماعی احتجاج جس میں سبھی ہندوستانی شامل ہیں جو اس بات کا اعلان ہے کہ ہم سب ہندوستانی ہیں اور دشمنان جمہوریت لاکھ کوششیں کرلیں ہمیں ہمارے موقف اور ارادے سے باز نہیں رکھ سکتے ،ہمیں چاہیئے کہ اپنی ہر ضروری بات کو موخر کرکے احتجاج میں شامل ہوں اور اس سیل رواں کو تھمنے نہ دیں تاکہ فرقہ پرستوں کو منھ کی کھانی پڑے ۔

Comments are closed.