Baseerat Online News Portal

زبان تو کھول نظر تو ملا! 

 

نور اللہ نور

پہلے حجاب کا معاملہ لیکر نفرت پھیلائی گئی ،پھر گوشت کھانے اور نہ کھانے کو لیکر ہنگامہ برپا کیا گیا، اذان کو لیکر سیاست ہورہی ہے اور نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے، ہندو دنگائیوں کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیئے جا رہےہیں،اور اب بنا کسی تفتیش و تحقیق مسلمانوں کے گھر زمیں دوز کئے جارہے ہیں۔

اتنے سارے واقعات ہوئے،ایک فرقے کو مسلسل تختہ مشق بنایا گیا ، دھرم اور ذاتی کے نام پر ننگا ناچ ہوا مگر ان تمام منظر نامے سے عزت مآب وزیراعظم بے خبر رہے یا پھر چشم پوشی کرتے رہے، سب کے وکاس کی بات کرنے والے صاحب ایک فرقے کو ہدف کا نشانہ بننے پر چپی سادھے رہے اور ایک بار بھی زبان نہیں کھولی، غیر ممالک میں جا کر جمہوریت کی دہائی دینے والے اور مصنوعی جمہوریت پر اپنی پشت تھتھپانے والے صاحب کے سامنے جمہوریت کو روندا گیا مگر ان کے لبوں پر جنبش تک نہیں آئی۔

ملک کا پردھان ملک کا سیوک ہوتا ہے ، رعایا کا تحفظ اس کا اولین فریضہ ہوتا ہے مگر ہمارے صاحب نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس رعایا کی خبر گیری کا وقت ہے، ہمارے صاحب اپنی تقریر میں” ناری سمان ” کی بات کرتے ہیں مگر ان ہی کی شہر میں بیٹیوں کی عصمت اچھالنے کی دھمکی انہیں سنائی نہیں دیتی ذرا اور بھی ان کے دل میں حرکت پیدا نہیں ہوئی۔

جناب کہتے تھے کہ "دیش بکنے نہیں دونگا” مگر حقیقت یہ ہیکہ انہوں نے نے ملک کو دنگائیوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے، جناب کا وعدہ تھا کہ ملک کو ترقی پر راہ پر چلیں گے مگر یہاں اس کے برعکس ملک کو نفرت و عصبیت کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔

پتہ نہیں وہ ملک چلا رہےہیں یا پھر وہ خود ہی کسی کے اشارے پر چل رہےہیں؟ آخر یہ جبر و تشدد کب تک روا رہے گا؟ یہاں بغیر کسی تحقیق کے کسی کا آشیانہ اجاڑا جا رہا ہے مگر وزیراعظم خاموش تماشا دیکھ رہےہیں، خواتین کی عزت اچھالی جارہی ہے مگر ان کو احساس تک نہیں ہے، ایک فرقے کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے اور ان کے دل میں ہلچل نہیں ہوتی۔

آخر وزیراعظم کی خاموشی کب ختم ہوگی؟ کیا وہ بچیاں جن کا حجاب کی وجہ سے مستقبل خطرے میں ہے آپ اس کے جواب دہ نہیں ہیں؟ ان کو بچیوں کا ذمہ دار کون ہوگا؟ جرم ثابت ہوئے بغیر فیصلہ ہوگا تو پھر عدلیہ کو مقفل کر کے وکلاء اور جج کو پکوڑے فروخت کرنے کے کام پر لگا دیجئے! اگر بچیوں کو کھلے عام ریپ کی دھمکی ملے تو پھر وزیراعظم ناری سمان کی بات کس منھ سے کرتے ہیں؟ جب وزیراعظم سب کا وکاس چاہتے ہیں تو "سلیم” کی دکان جل جاتی ہے اور "روی” کی بچ جاتی ہے کیوں؟ حقیقت یہ ہیکہ وزیراعظم صرف ایک طبقے کے ساتھ ہیں اور وکاس بھی انہیں کا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم! ہم بھی اس ملک کے باشندے ہیں اور ہم بھی برابر کے حق دار ہیں، ہماری بربادیوں کا جواب آپ کو دینا ہوگا، ہمارے جلتے آشیانوں کو حساب دینا پڑے گا،وزیر اعظم صاحب آنکھیں کھولیے! عصبیت کی عینک ذرا نیچے کیجئے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیجئے!

 

زباں تو کھول ، نظر تو ملا ،جواب تو دے!

میں کتنی بار لٹا ہوں مجھے حساب تو دے!

Comments are closed.