Baseerat Online News Portal

زبردستی تبدیلیٔ مذہب : قرآن مجید اور سیرت نبویﷺ کی روشنی میں!

 

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

 

کارگزار جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

ہندوستان میں موجودہ حکومت اور بر سرِ اقتدار پارٹی نے الیکشن جیتنے کا ایک آسان اور مختصر راستہ دریافت کر لیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب الیکشن ہونے والا ہو تو کسی نہ کسی طرح ہندو مسلم مسئلہ اٹھا دیا جائے، اور میڈیا کو اس کی تشہیر پر لگا دیا جائے، اس وقت بھی حکومتِ اتر پردیش نے جو ڈاکٹر عمر گوتم اور ان کے رفیق مولانا جہانگیر قاسمی کو زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے عنوان سے گرفتار کر لیا ہے، وہ اسی نوعیت کا عمل ہے، سوچئے جس ملک میں ۸۰؍ فیصد ہندو آبادی ہو، شہر شہر، گاؤں گاؤں، محلہ محلہ اُن کی اکثریت ہو، ۸۰؍ فیصد سے زیادہ پولیس ملازمین اور انٹلی جنس کا عملہ ہندو ہو، مسلمان فسادات کی مار سہہ سہہ کر سہمے ہوئے ہوں، وہاں کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی ہندو کا زبردستی مذہب تبدیل کرا دیا جائے؟ یہ یقیناََ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جو ان شاء اللہ ضرور ناکام ہوگی۔

 

دین وشریعت کے بنیادی ماٰخذ دو ہیں:  قرآن مجید ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل ؛ اس لئے ہمیں جبری تبدیلیٔ مذہب کے سلسلہ میں قرآن و سنت کا خود مطالعہ کرنا چاہئے اور برادران وطن تک اس پروپیگنڈہ کی حقیقت اور سچائی کو پہنچانا چاہئے۔

 

جہاں تک قرآن مجید کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں واضح ہوچکی ہے ؛ لہٰذا دین کے معاملہ میں کوئی جبر و دباؤ نہیں ہے: ’’لا اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘ (البقرۃ : ۲۵۶) اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا : آپ کا کام صرف نصیحت کرناہے ، آپ داروغہ نہیں ہیں کہ ان کو اپنی بات ماننے پر مجبور کریں : ’’ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌ ، لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ‘‘  (الغاشیۃ : ۲۱-۲۲) ایک موقع پر ارشاد ہوا کہ اللہ چاہتا تو تمام انسان ہی مومن ہوجاتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیں گے ؟ ’’اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰی یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘ (یونس : ۹۹) پیغمبر اسلام ﷺکو ہدایت فرمائی گئی کہ اگر غیر مسلم آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، آپ کی ذمہ داری اتنی ہی ہے کہ پیغامِ ہدایت کو صاف صاف اور کھلے طورپر پہنچادیں اور بس : ’’فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ‘‘ (النحل : ۸۲)آپ سے فرمایا گیا کہ جو لوگ کفر پر بضد ہیں ، ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین : ’’لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ‘‘ (الکافرون : ۶)ایک اور موقع پر آپ کی زبان مبارک سے کہلادیا گیا کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال : ’’لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١‘‘ ۔ (الشوریٰ : ۱۵)

 

پھر یہ کہ ایمان دل کی تصدیق کا نام ہے نہ کہ زبان کے اقرار کا؛ اسی لئے قرآن مجید نے ایمان کی نسبت قلب کی طرف کی ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اولٰئک كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ‘‘ (مجادلۃ : ۲۲) ’’مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ‘‘ (المائدۃ : ۴۱) اور ظاہر ہے کہ دل کے ماننے اور نہ ماننے پر دوسرے کا قابو نہیں ہے ، طاقت کے ذریعہ جسم پر جبر کیا جا سکتا ہے، دل پر جبرنہیں کیا جاسکتا ؛اس لئے اگر جبراً کسی سے کلمۂ ایمان کا اقرار کرالیا جائے تب بھی وہ مومن نہیں ہوسکتا ، تو ظاہر ہے کہ جب خود اسلام نے دین کے معاملے میں جبر و اکراہ سے منع کیا ہے اور جبر و اکراہ کے ذریعہ عقیدۂ توحید کا اقرار کرالیا جائے تو بھی انسان مومن نہیں ہوتا، تو کوئی مسلمان غیر مسلم بھائی کو کیوں کلمہ پڑھنے پر مجبور کرے گا؟

 

اب آئیے سیرت نبوی کی طرف :آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ میں متعدد ایسے مواقع پیش آئے، جب آپ ﷺکسی گروہ یا فرد کو مسلمان ہونے پر مجبور کرسکتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺنے ایسا نہیں کیا ، چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں  :

 

(۱)  ہجرت کے دوسرے ہی سال غزوۂ بدر کا واقعہ پیش آیا ، جس میں مکہ کے بڑے بڑے بہادر اور سردار شریک جنگ تھے ، یہ جنگ جو آپ پر اہل مکہ کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس میں مسلمانوں کی تعداد اپنے دشمنوں کے مقابلہ ایک تہائی سے بھی کم تھی ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی ، ستر اعداء ِاسلام جنگ میں مارے گئے اور ستر قید کئے گئے ، اگر آپ ﷺ چاہتے تو ان ستر اشخاص کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے تھے؛ مگر ان قیدیوں کے ساتھ آپ نے نہ صرف یہ کہ کسی طرح کے جبر و اکراہ کا سلوک نہیں فرمایا ؛ بلکہ ان کے ساتھ نہایت حسن سلوک کا معاملہ فرمایا اور ان سے اشارہ کنایہ میں بھی مسلمان ہونے کا مطالبہ نہیں کیا۔

 

(۲)  مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ ﷺنے ایک میثاق (دستاویز ِمعاہدہ)تیار کرایا ، اس معاہدہ کے بنیادی مقاصد تین تھے : مدینہ کے تمام باشندوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ، دوسرے : سبھوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ، تیسرے : مدینہ پر کوئی حملہ ہو تو مسلمان اور یہودی مل کر اس کا مقابلہ کریں ، اس سے ظاہر ہے کہ آپ ﷺنے غیر مسلموں کو مذہبی آزادی عطا فرمائی؛ کیوں کہ اس معاہدہ کا ایک اہم رکن تمام لوگوں کے لئے مذہبی آزادی تھا ۔

 

(۳)  مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل تھے ، یہ عظیم الشان قلعوں میں مقیم تھے اور ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی ، ان میں ایک مشہور قبیلہ بنو قینقاع کا تھا ، انھوں نے سب سے پہلے مسلمانو ںکے ساتھ معاہدہ شکنی کی، آپ ﷺنے انھیں سمجھانے کی کوشش کی ؛ لیکن وہ کسی طرح نہیں مانے ، یہاں تک کہ دونوں طرف سے جنگ کا اعلان ہوگیا ، مسلمانوں نے ان کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا ، یہ محاصرہ پندرہ دنوں تک جاری رہا ، بالآخر وہ اس پر راضی ہوگئے کہ رسول اللہ ﷺجو فیصلہ کریں گے ہم اس کو قبول کریں گے ، عبد اللہ بن اُبی جو اُن کا حلیف تھا ، اس نے حضور ﷺکے سامنے تجویز پیش کی کہ اِن کو جلا وطن کردیا جائے ؛ چنانچہ یہ جلاوطن کردیئے گئے ، یہ سات سو افراد تھے ، یہ شام کے علاقے میں ’’ اذرعات ‘‘ نامی جگہ منتقل ہوگئے —  اگر آپ چاہتے تو ان سبھوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرسکتے تھے اور دباؤ ڈال سکتے تھے ؛ لیکن آپ نے ان سے اسلام لانے کا کوئی مطالبہ نہیں فرمایا ۔

 

(۴)  یہودیوں کا دوسرا قبیلہ ’’بنو نضیر‘‘ بھی مدینہ کے قریب آباد تھا اور ان کا قلعہ بھی بہت شاندار تھا ، انھوں نے جب مسلمانوں سے بدعہدی کی اور معاہدہ توڑ دیا تو آپ ﷺنے ان کو دس دنوں کا موقع دیا کہ وہ کہیں اور منتقل ہوجائیں ؛ کیوںکہ ان کی سازشوں کا پردہ فاش ہوگیا تھا کہ انھوںنے رسول اللہ ﷺکو قتل کرنے کی سازش رچی تھی ، ان کی تعداد اٹھارہ سو سے دوہزار تک تھی ، چھ سو اونٹوں پر سوار ہوکر یہ اپنے ساز و سامان کے ساتھ یہاں سے نکل گئے ، کچھ خیبر میں بس گئے اور زیادہ تر شام کی طرف چلے گئے ، (سیرت احمد مجتبیٰ :۲؍۳۵۵) — اگر آپ چاہتے تو ان کو شہر سے  نکالنے کے بجائے ایمان لانے پر مجبور کرتے ، اس سلسلہ میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انصار کی بعض اولاد نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا ، اس لئے یہودی ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ، جب کہ انصار مدینہ نے ان کو روک لیا تھا تو اس موقع پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی :’’لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘ (البقرۃ : ۲۵۶)کہ ’’ دین کے معاملہ میں جبر کرنے کی گنجائش نہیں‘‘ چنانچہ آپ نے انصار کو ان کی اولاد کو روکنے سے منع فرمادیا ۔ (ابی داؤد ، کتاب الجہاد ، باب فی الاسیر یکرہ فی الاسلام )

 

(۵)  اس طرح کے واقعات کئی بار پیش آئے کہ کسی قبیلہ نے مسلمانوں سے جنگ کی، ان کو شکست ہوئی، مسلمان اس موقف میں تھے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کرتے ؛ لیکن آپ ﷺنے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا ۔

 

اس کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ ہے ، اہل مکہ نے آپ ﷺکے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا تھا اور اپنی طرف سے اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ مسلمان کفر کی طرف واپس ہوجائیں ، اس پس منظر میں اگر آپ اہل مکہ کو مسلمان ہونے پر مجبور کرتے تو یہ کوئی ناحق بات نہیں ہوتی ، جب مکہ فتح ہوا تو وہ تمام لوگ آپ کے سامنے تھے، جنھوں نے آپ کو اور ایمان لانے والے کو ناقابل برداشت اذیتیں پہنچائی تھیں اور مدینہ جانے کے بعد بھی مسلمانوں پر تابر توڑ حملے کرتے رہے تھے؛ لیکن آپ نے اس موقع پر ان سبھوں کو معاف کردیا اورفرمایا کہ جو سلوک حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ، وہی سلوک آج میں تمہارے ساتھ کرتا ہوں  :

 

أنتم الطلقاء، لا تثریب علیکم الیوم، یغفر اللّٰه لکم، وھو أرحم الراحمین ۔(تم آزاد ہو، تم پر کوئی پکڑ نہیں، اللہ تم کو معاف کر دے جو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے)

 

اگر آپ ﷺچاہتے تو اس موقع پر تمام مشرکین کو مسلمان ہونے پر مجبور کرسکتے تھے ؛ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، بہت سے لوگ کفر کی حالت پر باقی رہے ، یہاں تک کہ اِس سال اسی حالت میں حج بیت اللہ میں بھی شرکت کی ؛ البتہ اسلام کی سربلندی ، رسول اللہ ﷺ کے عفو و کرم اور معبودانِ باطل کی ناطاقتی کو دیکھ کر از خود جوق درجوق ایمان لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ، اگر آپ کسی گروہ کو جبر و اکراہ کے ذریعہ مسلمان بنانا چاہتے تو اس سے بڑھ کر کوئی اور موقع نہیں تھا ؛ کیوںکہ مکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بسایا تھا اور کعبۃ اللہ کو اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ تعمیر کیاتھا ، جو توحید کے علمبردار تھے اور اہل مکہ اُن ہی کی اولاد تھے ، جو اُن کے راستہ سے بھٹک گئے تھے ۔

 

(۶)  مکہ سے قریب ہی بنو ہوازن کا قبیلہ آباد تھا ، جب مکہ فتح ہوگیا تو بنو ہوازن نے معرکہ سنبھالا اور جنگ پر کمربستہ ہوگئے ؛ کیوںکہ انھیں اپنے تیر اندازوں پر بڑا ناز تھا ، یہ معرکہ حنین سے شروع ہوا اور طائف پر ختم ہوا ، اس جنگ میں چھ ہزار لوگ قید کئے گئے تھے ، جن میں مرد بھی تھے ، عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے ، اگر آپ چاہتے تو ان سب کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرسکتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺنے ان کو آزاد فرمادیا ۔

 

اس موقع پر یہ بات بالکل ممکن تھی کہ آپ ﷺان کی رہائی کو مسلمان ہونے سے مشروط کردیتے ؛ لیکن آپ ﷺنے ایسا نہیں کیا ۔

 

(۷)  اسی طرح انفرادی طورپر بھی کئی ایسے مواقع آئے جن میں کوئی اہم دشمن مسلمانوں کی گرفت میں آگیا ، آپ اگر چاہتے تو اسے ایمان پر مجبور کرسکتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا ، اس کی مثال ثمامہ بن اثال حنفی ہیں ، وہ ایک معرکہ میں مسلمانوں کی قید میں آگئے، مسلمان ان کو لے کر مدینہ آئے اور اس زمانے میں قید کرنے کے طریقے کے مطابق مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا ، آپ مسجد میں تشریف لائے تو دریافت فرمایا : ثمامہ تم کیا چاہتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا : اے محمد ! اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جو قتل کا مستحق ہے ، اور اگر رحم کریں گے تو ایک ایسے شخص پر کریں گے جو آپ کا شکر گزار رہے گا ، اور اگر آپ مال چاہتے ہو ں تو جو چاہیں گے، میں دوں گا ، رسول اللہ ﷺنے کوئی جواب نہیں دیا ، کل ہوکر پھر آپ ﷺتشریف لائے اور پھر یہی سوال کیا ، انھوں نے وہی بات دُہرائی جو کل کہی تھی ، آج بھی آپ ﷺنے کوئی جواب نہیں دیا ، تیسرے دن پھر آپ نے یہی سوال کیا اور حضرت ثمامہ نے وہی جواب دیا جو پچھلے دو دنوں سے دے رہے تھے ، اگر آپ چاہتے تو ان کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے تھے اور ظاہری طورپر ہی سہی وہ جان بچانے کے لئے شاید اس کو قبول بھی کرلیتے ؛ لیکن آپ ﷺنے بغیر کسی شرط کے حکم جاری فرمایا کہ ثمامہ کو رہا کردیا جائے۔

 

انھوں نے تین دنوں سے پیغمبر اسلام ﷺ اورمسلمانوں کے جو اخلاق دیکھے تھے ، اس نے ان کے دل کی دنیا کو فتح کرلیا ، وہ وہاں سے نکلے قریب کے ایک درخت کی آڑ میں جاکر غسل کیا ، مسجد واپس آئے اور بارگاہِ نبوی میں عرض کیا  :

 

یا رسول اللہ ﷺ! دنیا میں کوئی شخص میری نظر میں آپ ﷺسے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اور اب آپ ﷺسے زیادہ دنیا میں مجھے کوئی محبوب نہیں ، کوئی مذہب آپ ﷺکے مذہب سے زیادہ میری آنکھوں میں بُرا نہ تھا اور اب وہی سب سے زیادہ پیارا ہے ، کوئی شہر آپ ﷺکے شہر سے زیادہ ناپسند نہ تھا اور اب وہی سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔

 

(۸) قریش کی ستم گری محتاج بیان نہیں ، شعب ابی طالب میں تین برس تک ان ظالموں نے آپ ﷺکو اور آپ کے خاندان کو اس طرح محصور کر رکھا تھا کہ غلہ کا ایک دانہ اندر پہنچ نہیں سکتا تھا ، بچے بھوک سے روتے اور تڑپتے تھے اور یہ بے دردان کی آوازیں سن کر ہنستے اورخوش ہوتے تھے ؛ لیکن رحمت عالم ﷺ نے قریش کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ مکہ میں غلہ یمامہ سے آتا تھا ، یمامہ کے رئیس یہی ثمامہ ابن اثال تھے ، مسلمان ہوکر جب یہ مکہ گئے تو قریش نے تبدیلی مذہب پر ان کو طعنہ دیا ، انھوں نے غصہ سے کہا : ’’ خدا کی قسم ! اب رسول اللہ ﷺکی اجازت کے بغیر گیہوں کا ایک دانہ نہیں ملے گا ‘‘ اس بندش سے مکہ میں اناج کا کال پڑ گیا ، آخر گھبراکر قریش نے آپ ﷺ کی طرف رُجوع کیا ، حضور ﷺ کو رحم آیا اور کہلا بھیجا کہ بندش اُٹھالو ؛ چنانچہ پھر حسب ِدستور غلہ جانے لگا ۔(سیرۃ النبی :۲؍۲۹۰)

 

ان تفصیلات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن مواقع پر غیر مسلم افراد یا غیر مسلم گروہوں کو ایمان لانے پر مجبور کیا جاسکتا تھا ، ان مواقع پر بھی آپ نے کبھی دین کے معاملے میں جبر اوردباؤ کا راستہ اختیار نہیں کیا ، جو لوگ ایمان کے دامن میں آئے ، اپنی مرضی اور خوشی سے آئے ؛ کیوںکہ دین کے لئے جبر و دباؤ اسلام کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ کا منشا انسان کا امتحان ہے اور امتحان اس وقت ہوتا ہے جب کسی عمل پر آدمی کو مجبور نہیں کیا جائے ؛ بلکہ اسے اختیار دیا جائے ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.