Baseerat Online News Portal

سال 2020 کی عیدالفطرنسل در نسل یاد رکھے گی۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ۔8790193834

یقیناً 2020 کی عید الفطرکو تاریخ کے صفحوں پر غم کی سیاہی سے ضرور لکھی جائے گی اور اسے نسل در نسل یاد رکھے گی ، جب بھی 2020 کا ذکر ہوگااس وقت عید کو بھی یاد کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ رمضان کا پاک مہینہ اور عید جیسی عظیم تہوار کس مشکل اور تاریک دور سے گذری تھی، کس طرح ملک کا مسلمان اپنے اپنے گھروں میں قید وبندہو کر رمضان کے روزے رکھے، پنچ گانہ نمازیں پڑھیں اور اپنی خوشیوں کو قربان کرکے گھر پر ہی عیدین کی نماز ادا کی۔مجھے یاد نہیں اور تاریخ میں بھی کہیں نہیں ملتی کہ اس طرح کے پر آ شوب دور کو کسی نے دیکھا ہوجہاں عبادت گاہیں بند ہوں اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور سارا ملک ویران دیکھائی دے رہاہو۔کہا جاتا ہے نا کہ جب اللہ کو بھلا کر اسکی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا میں کوئی چھیڑ چھاڑ کرے یا پھرقرآن پاک کو طاقوں میں رکھ کر، بدفعلی،اور اچھے برے کی تمیز کو نہ سمجھ کربرائیوں کے دلدل میں چلا جائے تواللہ تعالیٰ اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتا ہے تاکہ یہ سمجھ میں آ جائے کہ اسکا جلال ابھی باقی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کورونا جیسی وباء کو ملک میں عذاب بنا کر بھیج دیا اور جو ہوا اور اب تک جو ہو رہا ہے وہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہے ۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ اس وباء کے آگے بلندیوں کو چھونے والے ماہرین بھی سرنگوں ہیں۔انہیں یہ بات سمجھ میں اب تک نہیں آ رہی ہے کہ اس وباء سے کسطرح سے نبٹا جائے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان تین مہینوں کے دوران کورونا وائرس نے انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چین و سکون جھین لئے ہیں پورے عالم میں بے چینی کا ماحول دیکھا جا رہا ہے۔مساجد ویران پڑی ہیں رمضان اور عید کی نمازیں گھر پر ہی پڑھنے کو مجبور ہو گئے ہیں۔حالانکہ مسلم ممالک میں عیدین کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد کے دروازے کھول دئے ہیں ساتھ ہی کچھ ممالک میں مسجد میں ہی پنچ گانہ نماز ادا کرنے کی بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے لیکن ہمارے ہندوستان میں ابھی بھی پوری طرح پابندی عائدہے، یہاں کے مساجد کے دروزے ابھی تک بند پڑے ہیں حکومت ہند نے نہ تو مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی انہوں نے اجتماعی طور سے عیدین کی نماز پڑھنے کی چھوٹ دی ہے ہندوستانی علمائوں نے بھی حکومت ہند کی ہدایات کو قبول کرتے ہوئے اپیل جاری کی ہے جس میں مسلمانوں سے عیدین کی نماز مساجد میں پڑھنے سے باز رہنے کو کہا گیا ہے دلیل یہ دی گئی ہے کہ اگر اجتماعی طور سے نماز پڑھی جائے گی تو کورونا جیسی وباء کو دعوت دینے جیسا ہوگا اور یہ وباء نہ تو ہندو دیکھتی ہے اور نا مسلمان یہ کسی کی بھی جان لے سکتی ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔حالانکہ ملک کے سبھی مسلمانوں نے حکومت کی ہدایات اور علمائوں کی اپیل کو مانتے ہوئے عیدین کی نماز عید گاہوں اور مساجد میں پڑھنے سے اپنے آپ کو روک لیا ہے اور گھر میں ہی نماز پڑھنے کا فیصلہ لیا ہے لیکن آخر یہ کب تک اسی طرح چلتا رہے گا سب کے ذہن میں کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں جسکا جواب نہ تو حکومت ہند کے پاس ہے اور نہ ہی ملک کے علمائوں کے پاس ہے۔کورونا وباء کو لے کر ہر طرف افرا تفری کا عالم ہے۔مجھے کہہ لینے دیجئے کہ 2020 کی یہ عید بچوں کے صبر کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔ حیرت اس بات کی نہیں کہ بڑے بڈھوں نے لاک ڈائون پر عمل کرکے اپنی روز مرہ کی زندگی میں تبدیلی لائی بلکہ تعجب تو اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے معصوم بچوں نے بھی اپنے صبر کا امتحان دیتے ہوئے اپنے اپنے والدین سے عید کے موقع پر نئے نئے کپڑے، جوتے اور ٹوپی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی ضد کر رہے ہیں ۔میں نے جب اپنے کالونی کے کچھ لوگوں سے اس سلسلے میں بات کی تو انکا صاف کہنا تھا کہ اس بار عید میں کسی طرح کا مطالبہ اورضد بچوں نے نہیں کی ایسا لگ رہا تھا کہ بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے صبر عطا کر دی ہے جب کے عموماً عید جیسی خوشی کے تہوار میں بچوں میں جتنی خوشیاں ہوتی ہیں شاید بڑوں میں نہیںہوتی ہے لیکن اس بار بچوں کا صبر دیکھ کر فرشتے بھی رو پڑے ہونگے یہ حال صرف ایک ریاست کے بچوں کا نہیں ہے بلکہ یہ پورے ہندوستان کے بچوں کا ہے جس کے دل میں اللہ نے صبر کا مادہ بھر دیا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا نے بچوں کی سبھی خوشیاں چھین لی ہیں اور انہیں اندر ہی اندر رونے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔
بہر حال!2020 دوچیزوں سے یاد کیا جائے گا ایک تو رمضان اور عید کی نمازیں مساجدکو ویران کرکے گھروں میں پڑھی گئیں دوسرا یہ کہ مودی حکومت فرقہ پرست عناصر کو ہندو مسلم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی خصوصی طور سے ملک کے چند میڈیا متعصبانہ رویہ کو جس طرح سے پیش کیا جس کے وجہ سے غریب مسلمانوں کو جس طرح سے اسکا خمیازہ بھگتنا پڑا اور جو ابھی تک بدستور بھگتنا پڑا رہا ہے وہ یقیناً تاریخ کے اوراق میں لکھے جائیں گے۔کورونا وائرس کے بہانے جسطرح سے مسلمانوں کو ٹارگیٹ بنا کر ان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی گئی وہ ناقابل معافی ہے فرقہ پرست میڈیا کی زبان پر پابندی نہ لگا کر پی ایم مودی نے بھی انہیں حوصلہ بڑھانے کا کام کیا جسے سب نے دیکھا کہ اس کے بعد کیا کیا تماشے ہوئے۔مجھ ییہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ملک کا مسلمان تین چیز سے لڑ رہا ہے ایک کورونا سے، دوسرا ہندو مسلم کرنے والے سیاسی قائدین سے اور تیسرا فرقہ پرست میڈیا سے جس نے پی ایم مودی کو خوش کرنے کے لئے صحافت جیسے پرو قار اور عظیم کام کواپنی کارگذاریوں سے بدنام کرنے کی کوشش کی ۔مجھے یقین ہے کہ ساری باتیں تاریخ کے اوراق میں لکھے جائیں گے تاکہ آنے والی نسلیں اسے پڑھ کر ان پر لعنت بھجیں۔بہر کیف2020 میں عید کی خوشیاں ہمیں راس نہیں آئیں لیکن ابھی سے ہی آئندہ سال کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے ، آئندہ سال کی عید کی خوشیاں ہم اچھے سے منا سکیں اس کے لئے ہمیں اللہ سے سر بسجود ہو کر لو لگا کر گڑگڑا کر معافی مانگنے کی ضرورت ہے ۔ عذاب الہیٰ سے بچنے کے لئے راہ مستقیم پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ آئیندہ سال اپنے خاندان کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ عید کی نماز بھی پڑھ سکیں بچوں کو جو اس سال خوشیاں نہیں مل سکیں ہیں انہیں بھی اللہ سے دعا کریں کہ خوشیاں نصیب ہوں۔اس وقت ہم لوگ لاک ڈائون کے دور سے گذر رہے ہیں ۔ لاک ڈائون میں کہیں کہیں ڈھیل بھی دی گئی ہے ہمیں چاہئے کہ ڈھیل کے باوجود ہم اس خوشی کے موقع کو پوری خوشی کے ساتھ منائیں لیکن ہماری خوشیاں کسی غم کا موجب نہ بن جائے اس لئے ہمیں بہت ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے گھر میں ہی رہ کر عید کی نماز پڑھیں اور خوشیاں منائیں بلکہ عید الفطر کی نماز کے لئے احتیاطی مثال قائم کریں اور حکومت کو یہ بتا دیں کہ ہم زندہ اور بشعور لوگ ہیں اور وقت کے تقاضوں سے بے خبر نہیں ہیں۔۔۔۔ ختم شد

Comments are closed.