Baseerat Online News Portal

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے!

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
رجب کا مہینہ اسلامی تاریخ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’ واقعۂ معراج ‘‘ کے لئے جانا جاتا ہے ، یہ واقعہ کس سن میں پیش آیا ؟ اس سلسلے میں سیرت نگاروں کے درمیان خاصا اختلاف رائے ہے ، لیکن مشہور یہی ہے کہ ہجرت کا بارہواں سال اور رجب کی ستائیس تاریخ کو یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا ، معراج سے مراد وہ آلہ اور ذریعہ ہے جس کے ذریعہ بلندی پر چڑھاجائے؛ اسی لئے اُردو میں اس کا ترجمہ ’ سیڑھی ‘ سے بھی کیا جاتا ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق ہر اس ذریعہ پر ہوتا ہے جو آدمی کو بلندی پر لے جائے ، خواہ وہ اینٹوں اور پتھروں سے تراشے ہوئے زینے ہوں ، آج کی ترقی یافتہ دنیا میں لفٹ یا کوئی اور الکٹرانک سواری ہو ، چاند کی حدود سے گزرتے ہوئے راکٹ ہوں یا کوئی اور ذریعۂ سفر ، یہ سب لغوی معنی کے اعتبار سے ’’ معراج ‘‘ کے لفظ میں داخل ہے ، حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سفر آسمانی کے لئے براق اور ایک خاص مرحلہ پر رف رف کا انتخاب کیا گیا تھا اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے آسمانوں بلکہ عرش بریں کے قریب تک سفر فرمایا؛ اسی لئے سیرت نگار حضرات مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو ’’ اسراء ‘‘ اور بیت المقدس سے عالم بالا تک کے سفر کو ’’ معراج ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
واقعۂ معراج میں بہت سے سبق آموز اور عبرت آمیز پہلو ہیں اور کتنے ہی نقوش نصح وموعظت اس واقعہ کی تہہ میں چھپے ہوئے ہیں ، ان میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ واقعۂ معراج کن حالات میں پیش آیا ؟ اور معراج کے واقعہ کے بعد کیا کچھ حالات سامنے آئے ؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۵۷۰ء میں پیدا ہوئے اور جب عمر مبارک چالیس سال ہوئی ، تو نبوت سے سرفراز فرمائے گئے ، نبی بنائے جانے کے بعد کچھ کم و بیش تیرہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں گزارے ، ان تیرہ سالوں میں کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہیں تھی ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں کے بند درازوں کو کھولنے اور فکر و خیال کی چوکھٹوں پر دستک دینے کی کوشش نہ کی ہو ، اپنوں کے پاس پہنچے ، بیگانوں کی خوشامدیں کی ، کانٹے بچھانے والوں پر محبت کے پھول نثار کئے ، کوچہ کوچہ میں آبلہ پائی کی ، صحرا اور بیایانوں میں راہ نوردی کی ، ہر تلخ کامی کو برداشت کیا ، دشمنوں کی کڑوی کسیلی باتوں کو انگیز فرمایا ۔
ان مشقتوں کے باوجود ظاہری حالات کے اعتبار سے دو وجود تھے ، جو آپ کے لئے حامی و محافظ اورسہارا بنے ہوئے تھے : ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محسن چچا حضرت ابوطالب ، جن کو بنوہاشم اور بنومطلب کی قیادت حاصل تھی اور اس لئے ان قبائل کی پناہ زمانۂ جاہلیت کے قبائلی قانون کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی ، دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات اور ہم دم و غم خوار حضرت خدیجہ ؓجو آپ کے زخم پر مرہم رکھا کرتیں اور اپنی دل داری اور محبت کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم ہلکے کرتیں ؛ لیکن نبوت کے دسویں سال حضرت ابوطالب کا اور ان کے چند ہی دنوں بعد حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا اور اس طرح ظاہری طورپر آپ کی تائید و تقویت کے دو اہم ستون بھی گر گئے؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو ’’ عام الحزن ‘‘ ( غم کا سال ) قراردیا ، اب مخالفتوں نے شدت اختیار کرلی ، بنوہاشم کی قیادت ابولہب کے ہاتھ میں آئی ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ، اب تک لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی ایذا رسانی کی ہمت نہیں ہوئی تھی؛ لیکن اب ان کی جسارتیں بڑھ گئیں ۔
ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا اور اہل طائف کو ایمان کی دعوت دی؛ لیکن وہ اہل مکہ سے بھی زیادہ سنگ دل اور شقی القلب ثابت ہوئے ، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی بدسلوکی روا رکھی جس نے اہل مکہ کی زیادتیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ، غرض کہ مصیبتوں اور آزمائشوں کی گھٹائیں تہہ در تہہ گہری ہوچکی تھیں ، مایوسیوں اور نا اُمیدیوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور بظاہر راستے بند ہوچکے تھے ، ان حالات میں معراج کا واقعہ پیش آیا ، یہ واقعہ جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کے عروج جسمانی کا تھا ، وہیں دعوتِ اسلام کے عروج و سربلندی اور ارتقاء کا نقطۂ آغاز بھی بن گیا ، اسی واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہجرت کا حکم ہوا اور ہجرت ہی نے کامیابی و ظفر مندی کے راستے کھولے اور صرف آٹھ سال کے بعد مکہ کی وہی سرزمین جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے یار و مدرگار نکلنے پر مجبور کئے گئے تھے ، آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں بچھی ہوئی تھی اور کاتب ِتقدیر نے ہمیشہ کے لئے اس کی قسمت اسلام سے وابستہ کردی تھی ، غرض کہ واقعۂ طائف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتلاء و آزمائش کا نقطۂ عروج تھا ، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے واقعۂ معراج کے ذریعہ دل داری کا سامان کیا اور اسلام کی ظفر مندی اور ترقی کا ایک نیا باب کھل گیا ۔
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے واقعۂ طائف اور واقعۂ معراج کے پس منظر میں خوب لکھا ہے :
یہ حیاتِ طیبہ کا ایک بہت بڑا موڑ ہے ، اب تک اﷲ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے حوالے تھا ، کہ جس طرح چاہیں ، پرکھ لیں ، سیرت و کردار کی کسوٹی پر ، صداقت و امانت کے معیار پر ، چاہے طنز و استہزاء کے تیر چلائیں ، گالی و زبان درازی کے تازیانے برسائیں ، معاشی ناکہ بندی کا ہتھیار آزمائیں ، بندھنوں کی معاشرتی زنجیریں کاٹ دیں ، سربازار رسوا کریں ، سنگ باری سے جسم اطہر لہولہان کردیں ، مظلومیت کی اس کیفیت میں جو دُعا زبانِ وحی ترجمان سے نکلی ، وہ عرش الٰہی سے جا ٹکرائی ، قبولیت کا اولین مظہر پہاڑوں کا فرشتہ تھا ، جو تعمیل حکم کے لئے حاضر ہوا تھا ، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام آزمائشوں سے گزرکر کامیاب ہوتا ہے ، دنیوی نقطۂ نظر سے سنگ باری اذیت کی انتہا ہے اور روحانی اعتبار سے سرخروئی ہے ، بندہ آزمایا گیا ، دبایا گیا ، پست کیا گیا اورامتحان میں کامیاب ہوگیا تو اٹھایا گیا ، بلند کیا گیا ، معراج سے ہمکنار ہوا ، شعب ِبنی ہاشم کی نظر بندی اور طائف کے بازاروں میں رسوائی کا انعام افلاک کی نظر نوازی اور عرشِ بریں پر عزت افزائی ہے ۔
اس وقت عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی مسلمان جس صورتِ حال سے دوچار ہیں ، وہ یہی ہے کہ قدم قدم پر انھیں ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے ، بظاہر ہزیمتیں اور شکستیں ہر طرف سے ان کو اپنے گھیرے میںلئے ہوئی ہے ، یہاں تک کہ عالم اسلام کے قلب افغانستان اور عراق میں اعدائِ اسلام اپنا قدم جمانے کے لئے کوشاں ہیں اور دنیائے اسلام کی معیشت کی شہ رگ پر مغربی طاقتیں اپنا پنجہ گاڑے ہوئی ہیں ، ان سب کا منشا مسلمانوں کو مرعوب اور خوف زدہ کرنا اورانھیں سرخمیدہ ہونے پر مجبور کرنا ہے ، جیساکہ اہل مکہ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ کیا تھا ؛ لیکن اسلام وہ پودا ہے کہ اسے جس قدر کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور اس کی شاخیں اپنا دائرہ وسیع کرتی جاتی ہیں ، اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَائِ ، قرآن مجید نے اس سلسلے میں عہد نبوت کی اس کیفیت کا خوب نقشہ کھینچا ہے :
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسَ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانَا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔(آل عمران :۱۷۳)
وہ اصحابِ ایمان کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے مقابلہ میں جمع ہوگئے ہیں ، تم ان سے ڈرو ، اس سے ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور وہ کہنے لگے : ہمیں اﷲ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ۔
اس وقت بھی صورتِ حال یہی ہے کہ کفر کی تمام طاقتیں ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں اور ہاتھ سے ہاتھ تھامے ہوئی ہیں ، خاک کو خاکستر کردینے والے بارود کا ڈھیر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے جمع ہے اور ان ہی میں سے کسی ملک کے ذریعہ مسلمانوں کو کہلایا جاتا ہے کہ وہ فلاں فلاں تبدیلیوں کو قبول کریں ، حکمراں بدلیں ، سرحدوں میں تبدیلی لائیں ، نظام تعلیم میں تغیر کو قبول کریں فلاں دشمن کو دوست اور فلاں دوست کو دشمن بنائیں ، ان حالات میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہئے ؟ یہی کہ وہ حوصلہ و ہمت کی متاع گراں مایہ کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں ، یہ ان کے لئے پست ہمتی اور کم حوصلگی کا ذریعہ نہ ہو ؛ بلکہ اس سے خدا پر ان کا یقین بڑھ جائے ، وہ دنیا کی محکومی قبول کرنے کے بجائے ایک خدا کی محکومی کو اپنے لئے کافی سمجھیں ، وہ مادی طاقتوں کی کارسازی پر یقین کرنے کے بجائے خدا کی قدرت اور کارسازی پر یقین کریں اور کہہ اٹھیں کہ ہمارے لئے ہمارا خدا کافی ہے اور وہی ہمارا کارساز ہے ،حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلَ ۔
اس عداوت کی آخری حد کیا ہوسکتی ہے ؟ متاعِ جان و مال کا لٹ جانا؛ لیکن جس قوم نے خود اپنی رضاء و رغبت سے اپنے جان ومال کو اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت کردیا ہو اور جس کو اس راہ میں پانے سے زیادہ کھونے اور جینے سے زیادہ مرنا عزیز ہو ، کیا اسے بھی کوئی طاقت زیر کرسکتی ہے ؟ اور کیا اس کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کیا جاسکتا ہے ؟؟
معراج کا واقعہ مسلمانوں کے لئے دلداری اور طمانینت کا سامان ہے ، کہ وہ مصیبت اور مایوس کن حالات کی وجہ سے حوصلہ نہ ہاریں؛ بلکہ اس طرح کے واقعات ان کے پائے استقامت کو مضبوط تر کرتا چلا جائے اور خدا پر ان کا یقین بڑھتا جائے ، کہ جیسے رات کی تاریکیوں سے صبح کی پوٹھتی ہے اور گرمی جب اپنی انتہا ء کو پہنچ جاتی ہے ، تو آسمان سے بارانِ رحمت زمین پر نچھاور ہوتی ہے ، اسی طرح باطل کے غلبہ و ظہور کے بعد حق ایک نئی آب و تاب کے ساتھ دنیا کی ظلمتوں پر چھاجاتا ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود اس چراغ کو بجھایا نہیں جاسکتا ، یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُـوْا نُوْرَ اﷲِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمَّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ(الصّف : ۸) یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی گروہ کے لئے سب سے بڑی طاقت اس کا اندرونی حوصلہ اور ہمت مردانہ ہے ، جو قوم اس متاعِ حیات سے محروم ہوجائے ، وہ ایک باعزت اور خود دار قوم کی حیثیت سے اپنا وجود کھودیتی ہے ، ’’ واقعۂ معراج ‘‘ کا پیغام یہی ہے کہ جہد ِمسلسل ، یقین کامل اورثبات و استقامت بالآخر حاملین حق کو عروج و سربلندی سے سرخرو کرتی ہیں !!
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.