Baseerat Online News Portal

سب کچھ گنوا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا!

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
اداکار اکشے کمار کا ایک اشتہار آیا ہے یہ اشتہار کورونا سے ڈرانے اور اس سے بچنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں قید ہوجانے والے اشتہاروں سے بالکل الٹ ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں سے کورونا کا ڈر نکالنے اور انہیں احتیاطی تدابیر کے ساتھ گھروں سے باہر نکل کر کام پر جانے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اسے لوگوں کی ذمہ داری تک بتاتا ہے ۔ اس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر (اپنی مذکورہ ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ) کسی کو کورونا ہو بھی گیا تو ہمارے اسپتال اس کے علاج کے لئے موجود ہیں ۔ خبر ہے کہ اکشے کمار کا مذکورہ اشتہار وزارت صحت نے جاری کروایا ہے ۔اب کوئی یہ سوال نہ پوچھے کہ یہ اشتہار اکشے کمار کو ہی کیوں دیا گیا ؟ لیکن یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ یہ وہی اکشے کمار ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں وزیر اعظم مودی جی کا ’ غیر سیاسی ‘ انٹر ویو لیا تھا ۔ کورونا کی شروعات میں جب مودی جی نے پی ایم کیئر فنڈ کے تحت چندہ جمع کرنا شروع کیا تھا تو اکشے کمار نے بھی اس میں ۲۵ کروڑ روپئے کی خطیر رقم کا چندہ دیا تھا اور سوشل میڈیا میں ان کے اس یوگدان کا وہ شور اٹھا تھا کہ اس نے دوسرے لوگوں کے کئی سو کروڑ روپئے کے چندے کو بے آواز کردیا تھا۔ علامہ گوگل کے مطابق اکشے کمار اشتہارات کے لئے دو سے تین کروڑ روپئے یومیہ لیتے ہیں اب اس اشتہارکے لئے انہوں نے حکومت سے کوئی اجرت لے کر ۲۵،کروڑ کا حساب برابر کیا ہے یا یہ بھی ان کا یوگدان ہی ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا لیکن جس طرح ان کے ۲۵،کروڑ کے یوگدان کا شور ہوا تھا اس کا ویسا شور بھی نہیں ہے ۔
پچھلے دو ماہ سے حکومت نے کورونا کے ضمن میں اپنی باتوں سے ،لاک ڈاؤن اور گھروں میں بیٹھ رہنے کو ہی کورونا سے بچنے اور بچانے کا ایک ماتر اپائے ہونے کا شور کر کے ، لاک ڈاؤن کو پولس کی زبردست مارپیٹ کے ذریعہ بزور قوت نافذ کرکے ، اس کے علاج کی سخت پالسی اور گائڈ لائن مثلاً طویل کورنٹائن ، کانٹیکٹ ٹریسنگ ، علاقے سیل کرنے ، اموات اور آخری رسومات کے متعلق قابل استفسار پالسی کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کورونا سے زیادہ اس کے علاج کا ڈر پیوست کر رکھا ہے یہاں تک کہ پرائیویٹ ڈاکٹرس بھی حکومت کی پالسی سے اس درجہ خائف ہوگئے ہیں کہ وہ مریضوں کا پوری طرح اور آزادانہ علاج بھی نہیں کر پا رہے ہیں، حکومت ہیلپ لائن اور سرکاری دواخانوں میں علاج کا اعلان تو کررہی ہے لیکن لوگ ریفر کر نے پر بھی سرکاری دواخانوں میں نہیں جارہے ہیں ، اب حکومت ایسے وقت میں لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی ترغیب دے رہی ہے جبکہ مریضوں کی تعداد کئی ہزار یومیہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جبکہ ملک کے کئی علاقوں میں کمیونٹی اسپریڈ یعنی پہلے سے کورونا زدہ علاقے سے سفر کے بغیر ہی اس کا پھیلاؤ شروع ہو چکا ہے ۔ تو کیا اب کورونا نے اعلان کردیا کہ وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام پر جانے والوں کو نہیں ہوگا ؟دراصل اب حکومت اپنی اوقات پر آگئی ہے ، لاک ڈاؤن کے ذریعہ کورونا تو نہیں رک پایالیکن معیشت کی گاڑی نہ صرف رک گئی بلکہ پٹری سے بھی اتر کر بستر مرگ تک پہنچ گئی ہے اور یہ لاک ڈاؤن پانچ بنام ان لاک اول ( Unlock1 ) دراصل اسی حقیقت کا اقرار ہے کہ لاک ڈاؤن کی اسٹریٹیجی پوری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اب کورونا کا پھیلاؤ روکنے سے زیادہ معیشت کو پٹری پر لانا سرکار کی ترجیحات میں اول مقام پر آگیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سرکار کن لوگوں کو کام پر بلارہی ہے؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ کام کرنے والے لوگ لاک ڈاؤن سے مجبور ہوکر اپنا سامان بوڑھوں اور بچوں کو کندھوں پر لاد کر کڑی دھوپ میں کئی سو کلومیٹر پیدل یا ٹرکوں ٹینکروں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہوئے بعد میں جن کے لئے ٹرین اور بسیں چلائی گئیں وہ بے چارے بھی بھوکے اور پیاسے انہی کے حال پر چھوڑ دئے گئے وہ تو خیر ہوئی کہ راستے میں جگہ جگہ مقامی لوگوں نے ان کے لئے کھا نے پینے کا انتظام کیا اورحکومت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے اٹی اکثریت اور کورونا کے نام مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے والے اور مسلمانوں کو رکشا چلانے اور پنکچر بنانے والے ہونے کا طعنہ دینے والے لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ ان انتظام کرنے والوں میں مسلمان ہی سب سے زیادہ اور سب سے آگے رہے ۔ لیکن ملک کی اکثریت اور ذمہ داروں کا حال یہ ہے کہ ان لوگوں نے مزدوروں کی اس حالت زار پر مدد کا ہاتھ بڑھانا تو دور اس کا اقرار بھی نہیں کیا جسے ساری دنیا نے دیکھااسے انہوں نے مانا ہی نہیں کہ ہاں ایسا ہوا اور یہ سرکار کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہوا ۔ ایک ہتھنی کی حادثاتی موت پر خون کے آنسو رونے والوں اور ماتم کرنے والوں اورفوری ایکشن موڈ میں آکر متعلقہ اتھاریٹیز سے رپورٹ طلب کرنے والے مہاجر مزدوروں کے جان لیوا بحران پر نہ صرف اندھے اور بہرے بنے رہے بلکہ اس سب کے لئے الٹے انہی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جو ان حالات بلا خیز سے گزرے ۔ جالنہ میں ٹرین کی پٹری پر سوئے ہوئے مہاجار مزدورٹرین سے کچل کر ہلاک ہوئے تو کہا گیا کہ وہ پٹری پر سوئے ہی کیوں تھے؟! مسلسل ایسی خبریں آئی کہ ان مہاجر مزدوروں میں کے کئی بھوک سے سڑک حادثوں سے کڑی دھوپ اور گرمی میں پیدل سفر کی تھکان سے مرگئے ، ریلوے اسٹیشن پر ایک مہاجر مزدور عورت کی موت اور اس کی لاش کے ساتھ کھیلتے اور اس کے سر پر پانی ڈالتے بچوں کے ویڈیو اور تصاویر تو خوب شیئر ہوئیں لیکن صاحب ذمہ داروں نے تو یہ کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک میں بھکمری سے کوئی موت نہیں ہوئی۔ اور تو اور ان بے چاروں کی حالت زار پر حکومت سے سوال کرنے والوں کو گدھ بھی کہہ دیا گیا ۔ خیر اب جبکہ یہ سارے مزدور انتہائی تلخ تجربات ،بے کسی اور بے بسی کی لرزہ خیز داستانیں اور سرکار کی بے حسی اور غیر ذمہ داری کے انمٹ نقوش لے کر اپنے گاؤں پہنچ چکے ہیں تو سرکار کن لوگوں کو کام پر جانے کے لئے باہر نکلنے کی ترغیب دے رہی ہے ۔ سرکار اور اس کے حواری کہہ سکتے ہیں کہ یہ ترغیب مقامی لوگوں کو کام پر بلانے کے لئے ہے تو صاحب ہر کام کے لئے اگر مقامی لوگ ہی کافی ہوتے اور ہر مقام پر کام ہوتا تو لوگوں کو روزی روٹی کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہزاروں کلومیٹر دور دوسرے مقامات پر کیوں جانا پڑتا ؟اور اگر آپ پہلے ہی بیس لاکھ کروڑ کے راحت پیکج میں سے وہ جہاں تھے وہیں ان کے رہنے اور کھان پان کا خرچ اٹھا لیتے تو انہیں ان اندوہناک حالات سے دوچار ہوتے ہوئے اپنے گاؤں کو واپس نہ لوٹنا پڑتا ۔ اب کارخانے کھلیں گے صنعتیں شروع ہوں گی لیکن ان میں کام کون کرے گا ؟جو لوگ اتنے جان لیوا حالات سے گزرتے ہوئے شہروں سے اپنے گھروں کو لوٹے ہیں وہ اکشے کمار کے اشتہارکے ذریعہ انہیں ان حالات سے دوچار کرنے کی سب سے بڑی ذمہ دار حکومت اور کا ر خانہ داروں پر بھروسہ کرکے واپس لوٹیں گے کون اس کی ضمانت دے سکتا ہے؟

Comments are closed.