Baseerat Online News Portal

سرحدوں پر امن

الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
کسی بھی خطہ کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لئے ’امن ‘ایک ناگزیر چیز ہے۔ بدامنی، پر آشوب ماحول، افراتفری اور امن وقانون کی صورتحال نہ صرف ترقی میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے بلکہ یہ کئی سماجی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ جہاں امن نہیں وہاں پر ترقی کی منازل طے کرنے کے خواب دیکھنا ہوا میں تیرمارنے کے مترادف ہیں کیونکہ حکومتی مشینری کی ساری توجہ امن وقانون کی صورتحال پر مرکوز رہتی ہے جس وجہ سے کئی ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جومعاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔جموں وکشمیر گذشتہ چار دہائیوں سے خاص کر امن وقانون کی صورتحال سے جوجتا رہا ہے میں جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں کے سر سے والدکا سایہ اُٹھ گیا، ہزاروں خواتین جوانی کی عمر میں ہی بیوہ ہوگئیں، بڑھاپے کاسہارا اولاد کو کھونے سے والدین بچی کچھی عمر سسک سسک کر گذارنے پر مجبور ہوئے۔ اخلاقی بے راہ روی، بے حیائی ، غربت، بے روزگاری جیسے مسائل نے ہمارا معاشرے کو جھکڑلیا۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ذہنی ونفسیاتی امراض کا بھی شکار ہوئے۔ سب سے تشویش کن مسئلہ جس نے جنم لیا وہ تھا منشیات کا استعمال جس نے ہماری نوجوان نسل کو ہی تباہ وبرباد کر دیا ہے۔وقت رہتے اِس پر کنٹرول نہ کرنے سے آج یہ اپنی جڑیں نوجوان نسل میں اس طرح جما چکی ہیں، کہ اِس کو اُکھاڑابہت مشکل ہوگیا ہے۔ المختصر کہ امن وقانون کی صورتحال ان گنت مسائل کا موجب بنی ، جس کے دور رس منفی نتائج ہم پر اور ہماری آنے والی نسلوں پر پڑیں گے۔ آج آپ نظر دوڑائیں تو ہمارے معاشرے میں ہزاروں خواتین ایسی ہیں جوکہ جوانی سے بڑھاپے کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں لیکن اُنہیں رشتے نہیں ملتے، یہی حال لڑکوں کا بھی ہے۔
اگرامن ہوتا تو حکومت کی توجہ اِن مسائل کو حل کرنے پر مرکوز رہتی ۔دُنیا بھر میں جہاں جہاں افراتفری کا ماحول ہے، اُس معاشرے کی کم وبیش ایسی ہی حالت ہے۔ جموں وکشمیر کا بھی شمار ایسے ہی خطوں میں ہوتا ہے۔ کشمیر وادی جوکہ خاص طور سے پچھلے تین دہائیوں سے ایسی صورتحال سے متاثر ہے، وہیں کنٹرول لائن اور پاکستان کے ساتھ لگنے والی بین الاقوامی سرحد کے نزدیک رہائش پذیر لوگ تو سال 1947کے بعد سے ہی لگاتار سرحدی کشیدگی، شلنگ اور فائرنگ کی وجہ سے خوف وسائے میں زندگی گذارنے پر مجبور رہے ہیں۔ اگر چہ دونوں ممالک کے درمیان حدمتارکہ پر فائربندی کے کئی معاہدات ہوئے لیکن اِن پر اُس قدر سختی سے عملدرآمد نہ ہوسکا۔ 1989کے بعد سال 2003تک ایل او سی ہویا بین الاقوامی سرحد وہاں کے مکینوں کے لئے انتہائی آزمائش کن رہا ہے۔ 2003میں ہندو پاک کے مابین ہوئے جنگ بندی معاہدہ کے بعد لکھن پور سے لیکر کرگل، اوڑی ، کرناہ، راجوری پونچھ تک سرحدوں پر امن کی فضاء قائم ہوئی جس سے یہاں پر تعمیر وترقی کا ایک دور شروع ہوا۔ترقیاتی وتعلیمی سرگرمیاں کافی حد تک بحال ہوئیں لیکن چند سالوں بعد ہی دوبارہ سے کراس فائرنگ معمول بن گیا جس کے لئے کبھی بھارت نے پاکستان اور کبھی پاکستان نے بھارت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔دونوں ممالک کی طرف سے سفارتخاروں کے باہر احتجاج درج کئے گئے ، دفتر خارجہ میں سفارتکاروں کی طلبی ہوتی رہی اور فلیک میٹنگوں کا بھی انعقاد ہوتا رہا ، مگر پھر کچھ دن بعد ہی پھر وہی معمول کی فائرنگ۔ اس معاہدے پر عمل آوری نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک میں حکومتی سطح پر تعلقات میں تلخیاں رہیں۔’بیک چینل ‘ اور ٹریک ٹو سطح پر اگر چہ مسلسل حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں جاری بھی رہیں لیکن بیچ بیچ میں کچھ نہ کچھ ایساناخوشگوار واقع ضرور رونما ہوجاتا رہا جوکئی ماہ اور ہفتوں کی محنت پر پانی پھر جاتارہا۔ سرحدی چپقلش، سرد جنگ، پراکسی وار نے دو طرفہ بھاری جانی ومالی نقصان کیا، ترقیاتی عمل متاثر ہوا۔ دیگر شعبہ جات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دو طرفہ اپنے دفاعی شعبہ کو مضبوط تر کرنے پر سالانہ بجٹ کا اچھا خاصا شیئر رکھاگیا۔رواں برس فروری کے آخری ہفتہ میں دو طرفہ افواج کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں 2003اور اِس سے قبل فائربندی کے لئے ہوئے تمام معاہدوں پر سختی سے فی الفور عملدرآمد کرنے کا اعلان کیاگیا، یہ ایک اہم پیش رفت غیر معمولی تھی جس نے دو طرفہ عوام کو حیران بھی کیا اور خوشی کا سامان بھی پیدا کیا۔ اس علان کے بعد سے الحمدُ للہ سرحدوں پر مکمل سکوت ہے، دوطرفہ بندوقیں خاموش ہی، جس سے سرحدی مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، تار بندی کے اندر کھیتوں میں دوبارہ کسانوں نے جانا شروع کیا ہے، کئی لوگ جوراست فائرنگ کی رینج میں آتے تھے اور محفوظ مقامات پر پناہ لی تھی، نے واپس اپنے گھروں کا رُخ کیا۔ کنٹرول لائن کے نزدیکی علاقوں میں لوگوں کی چہل پہل بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دیر آئند درست آئند یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ امن کی شروعات کسی بھی وقت، کسی بھی طرف سے ہو، اُس کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے۔ خطہ میں امن دونوں ممالک کے وسیع ترمفادات میں ہے ۔ سرحدوں پر امن ہوگا تو دونوں ممالک غریبی، بے روزگاری، تعلیم، صحت ، معیشت ودیگر شعبہ جات کی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں گے۔ بہترتجارتی تعلقات بھی دونوں ممالک کے معاشی استحکام کے لئے بہت ضروری ہیں۔پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات سے ہندوستان کے لئے وسطی ایشیاء میں براستہ پاکستان تجارت کرنا بھی فائیدہ مند ہے۔ممبئی بلاسٹ، پٹھانکوٹ حملہ، پلوامہ اور اوڑی حملہ، سرجیکل اسٹرائیک، بالاکوٹ ائر اسٹرائیک جیسے واقعات نے دونوں ممالک نے جنگی حالات یقینی بنادیئے تھے ، کے باوجود یہ سرحدوں پر قیام امن کا فیصلہ غیر معمولی اور تاریخی ہے۔ چاہئے کہ اِس عمل کو مضبوط سے مضبوط کیاجائے، تعلقات بہتر سے بہتر بنانے کے لئے اس فیصلے کو کامیاب بناکر مزید اقدامات اُٹھائے جائیں، جو دوپڑوسیوں کو قریب سے قریب لائیں کیونکہ ہم دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی بدل نہیں سکتے‘۔ہمیں ہر حال میں ایکساتھ ہی رہنا ہے تو کیوں نہ بہتر ہو کہ ’جیو اور جینے دو‘کی پالیسی پرگامزن ہوکر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں اور ایکدوسرے کے جذبات، احساسات کا احترام کرتے ہوئے خوشی وغمی میں سہارا بنیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]
ٍ

Comments are closed.