Baseerat Online News Portal

سر سید احمد خان؛ ایک عہد ساز شخصیت

 

 

عاطف شبلی

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

اللہ تبارک وتعالی نے اس کائنات میں گوناگوں مخلوقات اور انکی احتیاجات و ضروریات کے لئے حسب خواہ نعمتیں پیدا فرمائی ہیں، پھر ان تمام مخلوقات میں اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو سب سے اشرف وافضل بنایا، پھر انسانوں میں بھی اللہ نے مختلف الافکار والاذہان لوگوں کو پیدا فرمایا اور ایسی ایسی عبقری شخصیات پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے انسانوں کی راہنمائی، انکے فلاح وبہبود، انکی اصلاح کے لئے کار ہائے نمایاں انجام دیتے رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے ہیں، اور کرۂ ارضی پر تاقیامت یہ زریں سلسلہ جاری رہیگا(ان شاء اللہ)، انہیں ذہین و فطین، اسی عقد ثمین کے قیمتی موتیوں میں سے ایک اہم موتی اور اس طلائی زنجیر کی ایک اہم کڑی سر سید احمد خانؒ ہیں، جنہوں نے دہلی کے سادات خانوادے میں اپنی وجودی آنکھیں کھولیں اور ۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء میں ایک شیرازۂ علم ومعرفت اور ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی زندگی میں وہ کارنامے انجام دئیے جسے دنیا کی آنکھوں وچشم فلک نے نگاہ قدر سے دیکھا ہے۔

 

شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی

ورنہ کلی کلی یہاں محو تھی خواب ناز میں

 

سر سید احمدخانؒ نے دہلی کے ایک دیندار سادات گھرانے میں اپنی وجودی آنکھیں کھولیں، انکے والد سید متقی محمد شہشاہ اکبر ثانی کے مشیر اور جد امجد سید ہادی عالمگیر شاہی دربار میں ایک عہدے پر فائز تھے، اسی طرح انکے نانا خواجہ فرید الدین بھی شہنشاہ اکبر ثانی کے دربار میں بحیثیت وزیر تھے، گویا انکا خانوادہ مغلیہ دربار شاہی سے وابستہ تھا، سر سید احمد خان کی والدہ عزیز النساء جو کہ دینی مزاج رکھنے والی بہت ہی مہذب و تربیت یافتہ خاتون تھیں جنہوں نے سر سید کی ابتدائی تعلیم و تربیت خود اپنے پاس کی، سر سید نے برطانوی دور میں ملازمت اختیار کیا اور مختلف مناصب پرفائز رہ کر نہات دیانت داری و حسن خوبی سے خدمات انجام دئے جسکا خود برطانوی حکومت نے اعتراف کیا سر سید کو مختلف خطابات :سر، جواد الدولہ، عارف جنگ وغیرہ سے نوازا گیا۔

 

تحریک آزادیِ ہند ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ اور سقوطِ دہلی کے بعد ہندی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے سر سید نے جو مجاہدو اور کاوشیں کی ہیں جسے عرف عام میں ’’علی گڑھ تحریک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس تحریک کا آغاز تو اس جنگ سے کافی قبل ہی ہوچکا تھا جس وقت غازی پور میں ’’سائینٹفک سوسائیٹی‘‘ کا قیام عمل پذیر ہوا تھا، جوکہ اس تحریک کی ایک اہم کڑی اور بنیاد تھی، لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے، سقوط دہلی اور جنگ آزادی کے واقعات کا اولین نتیجہ تو ناامیدی، پژمردگی اور مایوسی تھا، لیکن وقت کے ان واقعات و حالات نے انکے اندر کے مصلحانہ شان کو اجاگر کردیا اور سر سید میدان فکر وعلم وعمل میں سرگرم ہوگئے، اور علی گڑھ تحریک جو کل تک محض بیج کی حیثیت رکھتی تھی سرزمین ہند بل کہ کرۂ ارضی کے لئے علم کا ایک ایسا‌ درخت بنکر نمایاں ہوا جسکی جڑیں مضبوط، جسکی شاخیں وسیع اور جس میں علوم وفنون کے مہکتے پھول چہار دانگ عالم میں اپنی خوشبو پھیلانے لگے تھے، اور سر سید اسکی بارآوری میں ہمہ تک کوشاں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹفارم پر لانے میں منہمک ہوگئے تھے۔

چناں چہ ۱۸۵۷ء کی جنگ اور سقوط دہلی جیسے واقعات نے سر سید پر گہرا اثر ڈالا جس کی وجہ سے انہوں نے قومی خدمات کو اپنی زندگی کا مطمح نگاہ بنا لیا تھا، ابتداء ً سر سید نے بلا تفریق مذہب وملت قومی سطح پر بنائے گئے منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچایا اور غیر مسلموں، اہل ہنود کو گزند پہنچانے سے از حد سرگراں وپریشاں رہے، لیکن ورنکلر یونیورسیٹی کے تجویز پر جس طرح ہندوؤں نے متعصبانہ رویہ اختیار کیا تھا اس سے سر سید کو بہت ہی ٹھیس پہنچی اور انکے لیے بہت ہی تکلیفدہ ثابت ہوئی اور اس ناگہاں واقعے نے انکی فکری جہت کو سرے سے تبدیل کر دیا، اب سر سید محض مسلمانوں کی فکر ارجمندی اور مسلمانوں کو تعلیمی، فکری، علمی وعملی میدان میں لانے کی انتھک کوششیں کرنے لگے اورمسلمانوں کی علمی، فنی وادبی اور تمام دینی وعصری میدانوں میں ماہرین و باصلاحیت افراد تیار کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔

 

سر سید خان کا علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے کا اصل مقصد قومی سطح پر کام کرنا‌ تھا اور روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی جانب تھا اسی وجہ سے سخنوروی اس تحریک کا حصہ نہیں رہی، اور اس تحریک نے جذباتیت کو فروغ دینے کے بہ جائے تدبیر وتدریب اورتعقل اور شعور و ہوش مندی ودانش مندی کو پروان چڑھایا، اس کیلئے محض اردو ہی ایسی زبان تھی جو اسکی بہترین معاونت کر سکتی تھی، لہذا علی گڑھ تحریک نے اردو ادب مین نثر کو عروج بخشا اور اسکی ایک سنجیدہ، باوقار اور متوازن معیار قائم کرکے اسے شاعری وسخنوری کے مسجع و مقفیٰ اسلوب سے محفوظ رکھ کر اسکے سادہ وسلیس ادبی زبان کو جلا بخشا۔

 

سر سید کی بہت سی تصنیفات ہیں جو کہ منصہ شہود پر آئیں ہیں، جنکو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ان میں چند کا بیان کردینا اہم اور مناسب ہوگا:

’’آثار الصنادید‘‘، ’’ تاریخ ضلع بجنور‘‘ سر سید نے یہ تاریخ اپنی اسی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق وتصدیق اورجد وجہد اور محنت کے ساتھ رقم فرمائی ہے، اور یہ ثابت کردیا کہ ۱۸۵۷ء تا ۱۸۵۹ء میں ہونے والی بغاوت کا مسلمانوں سے دور دور کا کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ محض انکی خام خیالی ہے، وہ اس کتاب کی تحقیقات کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ: ’’ گو اس تاریخ میں ضلع بجنور کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی، مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے ہیں۔‘‘ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ یہ کتاب تحریر فرما کر سر سید نے مسلمانوں کی جانب سے انکی ترجمانی کی اور انکی براءت کے اظہار کرنے کی خاطر اپنی پوری قوت وتوانائی صرف فرمادی، اسی طرح انہوں نے ’’خطبات احمدیہ‘‘ کی خامہ فرسائی فرمائی اسی طرح انہوں نے ایک رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجراء کیا جو کبھی ڈوب جاتا تو کبھی طلوع ہوجاتا، یہ رسالہ سر سید احمد کی فکر ونظر کی عمدہ عکاسی کرتا تھا، انکی تمام تر ابحاث دینیہ اسی محور کے گرد گردش کرتی تھی۔

 

سر سید احمد خان ایک اچھے محقق، ایک بہترین اسلوب نگار ادیب، میدان تعلیم کے ایک عظیم مؤسس تھے، بعض اوقات انکا قلم تند ضرور ہوجاتا تھا ، لیکن سر سید ایک بردبار ، عظیم انسان، ثابت قدم راہنما تھے، اگرچہ سر سید کا مذہبی فکر کے تعلق سے فروگزاشت ضرور ہوئیں ہیں البتہ دینیات سے مرغوب اور دینی تعلیم سے کافی شغف تھا اسی وجہ سے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک شعبہ دینیات کے لئے قائم کیا، سر سید کا مقولہ تھا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے داہنے ہاتھ میں کلام الہی ہو اور بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر لاالہ اللہ کا تاج ہو‘‘۔

بالآخر علم و ادب کا یہ گوہر نایاب، فکر و نظر کا تابندہ و درخشندہ ستارہ، مسلمانوں کے تئیں دردمند دل رکھنے والایہ عظیم انسان، یہ شمع روشن ہمشہ کے لیے ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو گل ہوگیا۔

 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

 

 

Comments are closed.