Baseerat Online News Portal

سر سید احمد خان: نظریہ، تنظیم اور اکیس ویں صدی

ڈاکٹر خالد مبشر
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی -۲۵
سرسید احمد خان کا وژن، مشن، نظریہ، اسلوبِ زیست، شخصی خمیر و سرشت، نظام کار اور ان کا بیکراں کینوس ان کی عظمت کے تشکیلی عناصر ہیں۔ سرسیدی نظریہ و نظام کی ابدیت و سرمدیت غیر مشکوک ہے۔ سرسید نے مذہب، تہذیب، ادب، صحافت، علوم و فنون، تعلیم، معاشرتی ساخت اور حیات کے مختلف ابعاد و جہات کو نئے اور صحت مند امکانات سے ہم آہنگ کیا۔ ان کی ذہنی اور فکری ساخت کی تعمیر میں نیچرلزم، مادیت، عقلیت پسندی، سائنسی طرز تفکیر، استدلالی و تجزیاتی اسلوب، حقیقت پسندی، افادی نقطۂ نظر، اخلاقی، اصلاحی اور صالحیت پسندانہ مزاج و افتاد طبع جیسے عوامل و محرکات کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ سرسید احمد خان ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک خدا، مذہب اور آخرت سمیت تمام معتقدات اس وقت تک تسلیم نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ عقل اس کی اجازت نہ دے۔ انھوں نے تنازع للبقا اور نظریۂ توافق و تطابق کی شدت سے تائید کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ مغربی تہذیب اور علوم و فنون کو اختیار و اکتساب کرنے میں ہی قومی بقا اور فلاح کا راز مضمر ہے۔ انھوں نے ماورائیت، مافوق الفطری عناصر سے باطنی وابستگی، غیر ضروری روحانی مراقبہ و ریاض، توہم اور خیالی جنت کی سرمستی و سرشاری کو تنزل، انحطاط اور پستی کے بنیادی محرکات گردانتے ہوئے مادیت اساس زندگی کے فروغ و استحکام کو ضروری قرار دیا۔ انھوں نے نیچرلزم کی اساس پر شعر و ادب کی تطہیر، تشکیل اور تشہیر کے لیے رہنما خطوط بھی متعین کیے، مثالی نمونے بھی پیش کیے اور اس کو فروغ بخشنے کے لیے ایک گروہ بھی تیار کیا۔ انھوں نے پوری شدت سے اس امر کی تبلیغ کی کہ مغربی اور عصری علوم و فنون کے بغیر ہم فلاح یاب نہیں ہو سکتے۔ سرسید احمد خان نے بنیادی طور پر نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھا۔ چناں چہ سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، تہذیب الاخلاق، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اسی عظیم خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی عملی تدابیر تھیں۔
سرسید احمد خان پر یہ بات خوب روشن تھی کہ قومی ترقی کے لیے ترقی یافتہ قوم کے علمی سرمائے کو جذب کرنا اولین شرط ہے اور یہ کام ترجمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعہ مغربی علوم و فنون کی اعلا اور معیاری کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔ سرسید احمد خان کو اس بات کا بھی شعور حاصل تھا کہ قوموں کی بیداری، شعور و آگہی کے فروغ، اصلاح اور ذہنی تربیت کے لیے صحافت سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہو سکتا۔ چناں چہ انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔
سر سید احمد خان کو یقین تھا کہ ہمارا کلاسیکی شعر و ادب نئی زندگی، نئے بشر، نئی دنیا اور نئے نشیب و فراز کا ساتھ نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے۔ یہ ادب تخیل، توہم، فرسودگی، ماورائی دنیا، مبالغہ، لفاظی اور انشا پردازی کی وہ خواب آور اور متنوم دوا ہے جو قوم کو مدہوش کر دینے والا ہے۔ لہٰذا ایک ایسا ادب وجود میں آنا چاہیے جو مقصدی ہو، اصلاحی ہو ، افادی ہو، اخلاق اور سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے آمادہ کرتا ہو اور قومی صلاح و فلاح کا جذبہ پیدا کرتا ہو۔
سرسید احمد خان کا اصل امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے صرف فلسفہ و فکر پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ صرف مضامین اور خطابت کے ذریعے ہی بری الذمہ نہیں ہو گئے۔ بلکہ انھوں نے اپنے نظریات پر مبنی ایک تحریک بپا کی، ایک کارواں تیار کیا، ایک راہ اور ایک منزل طے کی، ایک ڈھانچہ تیار کیا اور ایک نظام قائم کیا۔ وہ صرف ایک فکری انسان نہیں تھے بلکہ عملیت ان کے خمیر میں رچی بسی تھی اور ایک نظام کی تعمیرمیں جن اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے سرسید احمد خان کی شخصیت ان تمام صفات سے بدرجہ اولیٰ متصف تھی۔ وہ بیک وقت صحت مند دماغ بھی رکھتے تھے، دردمند دل بھی اور توانا دست و بازو بھی۔ وہ بلا کے عبقری تھے، متبحر عالم تھے، ان کے اندر قاموسیت تھی اور وہ دیو پیکر قائد تھے۔ انھوں نے صرف اس پر بس نہیں کیا کہ مغربی اور عصری علوم و فنون کے حصول کی طرف قوم کو ملتفت کریں بلکہ عملاً ایک ٹھوس تعلیمی نظام کی داغ بیل ڈالی لیکن انھوں نے یہ کام اونے پونے ، غیر منصوبہ بند اور بغیر کسی تیاری اور خاکہ کے شروع نہیں کیا بلکہ اس کے لیے انھوں نے کئی مراحل طے کیے۔ پہلا مرحلہ مغربی علوم و فنون کی اردو زبان میں منتقلی کا تھا۔ دوسرا مرحلہ قوم کے روشن دماغوں کو اس عظیم مشن کے لیے آمادہ کرنا اور انھیں ایک مرکز و محور پہ جمع کرنا تھا۔ تیسرا مرحلہ مغربی تعلیمی نظام کا نہایت خوردبینی جائزہ لینا تھا جس کے لیے انھوں نے بنفس نفیس ۱۸۶۹ء میں انگلستان کا سفر کیا۔ وہاں مشہور زمانہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی جزئیات کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ اور معائنہ کیا۔ چوتھے مرحلے میں انھوں نے قوم کو اس تعلیمی نظام کے لیے جگانے کا بیڑا اٹھایا، اس کے لیے تہذیب الاخلاق کا سہارا لیا۔ پانچویں مرحلے میں باقاعدہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنا ڈالی، جہاں انگریز اسکالرس، دانشوران اور مستشرقین کے ساتھ ہندوستان کے معروف و ممتاز علمائے کرام کو درس و تدریس کے لیے منتخب کیا۔ ایک معیاری لائبریری قائم کی، طلبا کی ذہنی اور شخصی ارتقا کے ساتھ اخلاقی تربیت کے لیے دار الاقامہ کی بنیاد ڈالی۔ لیکن سرسید احمد خان کی صدی محیط نگاہ نے دیکھ لیا تھا کہ بغیر کسی منظم، منصوبہ بند اور طویل مدتی نظام کار کے یوں ہی اندھادھند اقتدار وقت سے ٹکڑا جانا قومی خود کشی کے مترادف ہوگا، لہٰذا انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اور علاحدگی کو اپنی ایک صحت مند سیاسی پالیسی کے طور پر اختیار کیا۔ چناں چہ سرسید کی اس بصیرت و فراست کو وقت کے اہم اہل دانش و بینش نے بعد میں داد و تحسین سے نوازا۔
اکیس ویں صدی کی تیسری دہائی کے افق پر بالعموم ہندوستان اور بالخصوص مسلمانانِ ہند کے لیے سرسید کا مذکورہ نظریہ و نظام آج بھی اپنی افادیت ، اہمیت اور معنویت سے لبریز ہے اور سرسید ہی ہماری ملکی و قومی فلاح کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

Comments are closed.