Baseerat Online News Portal

سلف صالحین کا رمضان اور ہم

نثار احمد حصیر القاسمی
(شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ حیدرآباد)
[email protected] 0091-9393128156

رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے ، یہ صیام و قیام ، رحمت و مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے ، یہ قوت ایمانی میں صلابت و اضافہ کرنے اور جسمانی صحت کو یقینی بنانے کا مہینہ ہے ، یہ صدقہ و خیرات اور جود و سخا کا مہینہ ہے ، یہ اللہ کی طرف رُجوع کرنے اور آپس میں ایک دوسرے سے معافی تلافی کرنے کا مہینہ ہے ۔
اللہ نے اس ماہ کو بنایا ہی اس لئے ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کو بخشواکر اپنی روح میں تازگی پیدا کرے ، نفوس کو پاک و صاف کرسکے ، اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرسکے ، خواب غفلت سے بیدار ہوکر طاعت و بندگی کی راہ اختیار کرسکے اور پرہیزگاری کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرسکے ۔
اس وقت جب کہ ساری دنیا کورونا وائرس کے شکنجہ میں جکڑی ہوئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقید ہیں ، مسلمان اس ماہ صیام کا استقبال کررہے ہیں ، مگر اس مہمان کا استقبال ہم شاید اس طرح نہیں کر رہے ہیں جس طرح ہمارے اسلاف کیا کرتے تھے ۔
سلف صالحین اس کی آمد پر شاداں و فرحاں ہوتے تھے ، اسے پانے پر اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے اور شکر بجالاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ دین اسلام کے ستونون میں سے ایک اہم ستون ہے ، اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۔ ( متفق علیہ )
اللہ کے نبی ﷺ خوشخبری دیا کرتے تھے کہ رمضان آگیا ہے، یہ بابرکت مہینہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں ، جنت کے دروازے اس میں کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے اور مردود شیاطین کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں ، اس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے ، جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ سراپا محروم رہا ۔ ( صحیح سنن النسائی )
ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں بھلا مومن جنت کے دروازوں کے کھلنے سے خوش کیوں نہ ہو ، گنہگاروں کو جہنم کے دروازے بند کئے جانے پر مسرت کیوں نہ ہو ، اور صاحب عقل و دانش کو شیاطین کے پا بزنجیر وسلاسل ہونے پر خوشی و راحت کیوں محسوس نہ ہو ، بھلا کوئی اور وقت اس جیسا میسر آسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔
ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں ماہ رمضان کو پانا اور اس میں روزے رکھنے کی توفیق ملنا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، جس کا اندازہ ابن ماجہ کی اس حدیث سے ہوتا ہے اور جس میں یہ ہے کہ تین صحابہ میں سے دو شہید ہوگئے اور تیسرے کی وفات ان کے ایک سال بعد بستر مرگ پر ہوئی ، مگر وہ جنت میں پہلے داخل کئے گئے ، رسول اللہ ﷺ نے وجہ بتاتے ہوئے فرمایا ، کیا اس نے اتنی اتنی نمازیں نہیں پڑھیں ، کیا اس نے اس کے بعد رمضان کو پاکر اس کے روزے نہیں رکھے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ان کے اور اُن کے درمیان اتنا ہی فرق ہے ، جتنا آسمان و زمین کے درمیان ۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ سلف صالحین کے لئے درسگاہ ہوا کرتا تھا ، وہ اس ماہ میں خود کو پورے سال پرہیزگاری اور روزوں و عبادتوں کے لئے تیار کرتے ؛ کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
من صام یوما فی سبیل اللّٰه باعد اللّٰه وجھہ عن النار سبعین خریفا ۔ (متفق علیہ )
جو اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے گا ، اللہ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دُور کردیں گے ۔
سلف صالحین رمضان میں اپنے آپ کو پورے سال قیام لیل اور راتوں کی عبادت و تہجد کے لئے تیار کرتے تھے ؛ کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ اس کے ذریعہ خاص نور عطا فرماتے اور بندوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں ۔
مشہور محدث حضرت سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں کہ جب انسان راتوں میں عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو نورانی بنادیتے ہیں ، پھر ہر مسلمان اس سے محبت کرنے لگتا ہے ، جس نے کبھی اسے نہیں دیکھا ، وہ بھی جب اسے دیکھتا ہے تو کہتا ہے مجھے اس نورانی چہرے والے سے بڑی اُلفت و محبت اور لگاؤ ہے ۔
حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا بات ہے کہ جو لوگ رات میں جدوجہد اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں ، وہ لوگوں میں زیادہ حسین صورت والے ہوتے ہیں ، خواہ رنگ و نسل کچھ بھی ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رحمان کے ساتھ خلوت نشینی اختیار کی تو اس ذات نے اپنا کچھ نور اسے عطا کردیا ۔
مشہور محدث جلیل حضرت سفیان ثوریؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو وہ اپنے سارے کام دھندے اور مشغولیت ترک کردیتے اور پورے طورپر قرآن میں مشغول ہوجایا کرتے تھے ۔
امام بخاریؒ کے تذکرے میں آتا ہے کہ وہ رمضان میں ہر دن حالت صوم میں ایک ختم کرتے ، پھر تراویح کے بعد نوافل میں ہر تین دن میں ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے ۔
سلف صالحین رمضان المبارک کو بخل و کنجوسی اور کدورتوں کا علاج سمجھتے اور جود و سخا اور صدقۂ و خیرات اور داد و ہش کا موسم سمجھتے تھے ؛ کیوںکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ، اور آپ ﷺ کی سخاوت رمضان میں اور بھی زیادہ ہوجاتی تھی ، جب کہ جبرئیل آپ سے ملنے آتے تھے اور جبرئیل رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملنے آتے اور قرآن کا دور کیا کرتے تھے ، تو رسول اللہ ﷺ خیر کی سخاوت میں تیز و تندہواؤں و طوفانوں سے بھی زیادہ سخی ہوجاتےتھے ۔ ( متفق علیہ )
مسند احمد کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آپ سے جو مانگا جاتا آپ ﷺ اسے وہ ضرور عطا فرماتے تھے ، امام ذہبیؒ نے تذکرہ میں تحریر کیا ہے کہ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ حماد بن ابی سلیمان بڑے مال و دولت والے تھے ، وہ رمضان میں پانچ سو لوگوں کو افطار کراتے اور عید کے بعد ہر ایک کو سو سو درہم دیا کرتے تھے ۔
رمضان میں سلف صالحین نیکی و بھلائی ، داد و دہش اور دوسروں کی حاجت روائی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے ی کوشش کرتے اور اس طرح اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے اور جنت میں اپنا مقام بنانے کی جدوجہد میں لگے رہتے تھے ۔
آج مسلمانوں کی حالت اس کے بالکل برعکس ہے ، بہت سے تو وہ ہیں جو روزہ بھی نہیں رکھتے اور جو رکھتے ہیں وہ معاصی سے نہیں بچتے ، بہتوں نے اس ماہ کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیا ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ دن کا کوٹا رات میں پورا کرلیا جائے ، ہمارے نوجوان راتوں میں جاگ کر آوارہ پھرا کرتے ، بازاروں میں فضول گھوما کرتے اور بے دریغ و بے جھجھک منکرات کا ارتکاب کیا کرتے تھے ، یہ غنیمت اور فضل خداوندی ہے کہ اس سال کورونا وبا کی وجہ سے یہ گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ اپنے اوقات کو فضولیات اور فحش چیزوں کے مشاہدے میں گذارنے کی بجائے ذکر و اذکار ، تلاوت قرآن اور عبادات میں گزاریں اور اگر یہ نہ کرسکتے ہوں تو کم از کم منکرات سے بچتے رہیں اور یاد رکھیں کہ آج ساری دنیا میں مسلمان پس رہے اور سخت آزمائش کے دور سے گذر رہے ہیں ، یہ ابتلاو آزمائش اسی لئے ہے کہ ہم نے اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرایا ، ان کے احکام سے منھ موڑا ، ناشکری کو اپنا شیوہ بنایا ، اللہ اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعہ ہمیں خواب غفلت سے جگانا چاہتا ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کے راستے سے ہٹ کر اللہ کے راستہ پر چلنے لگیں ، اللہ ہمیں پھر اقتدار و حکمرانی دینا چاہتا ہے کہ دنیا کی ساری حکمرانی کا نظام ناکام ہوچکا ہے ، مگر یہ ہمیں اسی وقت ملے گا جب کہ ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں ، جن کی حکمرانی مشرق و مغرب پر تھی ، اور دنیا ان سے تھراتی تھی ، آج بھی ہم اگر اسلام کے سچے سپاہی بن جائیں ، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، کتاب و سنت کو مشعلِ راہ بناکر اسے اپنی زندگی میں نافذ کرلیں اور فرد سے جماعت تک ہرکوئی عدل و انصاف کو اپنا شعار بنالے تو اللہ ضرور ہمیں اس روئے زمین کی باگ ڈور سپرد کردے گا ۔
آئیں ہم عزم کریں کہ آج سے ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ، اپنی مرضی کو قربان کرکے اللہ کی مرضی کو اپنائیں گے ۔

Comments are closed.