Baseerat Online News Portal

سندھیا خاندان کا سیکولرازم

معصوم مرادآبادی
کچھ لوگوں کو اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ کانگریس کے نوجوان اور سرگرم لیڈر جیوتی رادتیہ سندھیا اچانک فرقہ پرست کیسے ہوگئے۔ کل پورے دن سوشل میڈیا پر یہ موضوع حاوی رہا اور لوگ باگ سیکولرازم کا نوحہ پڑھتے رہے۔ حالانکہ سیاست کی سمجھ رکھنے والے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں سیکولرازم کی حیثیت محض ایک کاسٹیوم کی سی ہے ۔ جو لوگ ہمیں بظاہر بڑے سیکولر اور مسلم دوست نظر آتے ہیں وہ اندر سے جیوتی رادتیہ سندھیا سے مختلف نہیں ہیں اور کرسی کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے پرانے دوست رام ولاس پاسوان اور سبرامنیم سوامی ہیں، جن کے سیکولرازم اور مسلم دوستی کی قسمیں کھائی جاسکتی تھیں۔ حال ہی میں دہلی اسمبلی کے انتخابات کے بعد یہاں کے سیکولر ووٹروں کو جو جھٹکا لگا ہے وہ اس کی ٹیس ابھی تک محسوس کررہے ہیں۔
جہاں تک سندھیا خاندان کا سوال ہے تو ہمیشہ سے اس فیملی کے آ دھے لوگ کانگریس میں اور آ دھے بی جے پی میں رہے ہیں۔ گوالیار کی مہارانی اور جیوتی رادتیہ سندھیا کی دادی وجے راجے سندھیا جنہیں لوگ راج ماتا کے نام سے جانتے ہیں بیک وقت بی جے پی اور وشوہندو پریشد کی نایب صدر تھیں۔ انھوں نے بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنے کی انتہائی اشتعال انگیز تحریک میں حصہ لیا تھا اور بابری مسجد انہدام کے بعد سنگھ پریوار کے جن لیڈروں کو ایودھیا میں حراست میں لیا گیا تھا، ان میں راج ماتا بھی شامل تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب لال کرشن اڈوانی کی سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا دہلی میں بستی حضرت نظام الدین سے گذری تھی تو اڈوانی جی نے سوال وجواب کے ایک سیشن میں یہ کہا تھا کہ بی جے پی کا رام جنم بھومی آ ندولن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(یہ وہ زمانہ تھا جب بی جے پی خود کو رام جنم بھومی آندولن سے الگ بتاتی تھی) اس پر میں نے انھیں راج ماتا کے وشوہندو پریشد کا نائب صدر ہونے کی بات یاددلائی تو وہ لاجواب ہوگئے تھے۔ اس سوال وجواب کے نتیجے میں درگاہ حضرت نظام الدین کے وہ مجاور ضرور میرے پیچھے پڑگئے تھے جنھوں نے وہاں اڈوانی جی کا خیر مقدم کرنے کے لئے انھیں مدعو کیا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سندھیا گھرانے کی پہلی سیاسی خاتون یعنی راج ماتا سنگھ پریوار کا اٹوٹ انگ تھیں۔ ان کے بیٹے وجے راجے سندھیا نے بھی اپنا پہلا چناؤ جن سنگھ کے ٹکٹ پر لڑا تھا لیکن بعد کو وہ کانگریس میں شامل ہوگئے تھے۔ یہ بو جھ اب تک ان کے بیٹے جیوتی رادتیہ سندھیا ڈھورہے تھے جو انھوں نے کل بڑی حقارت سے اتار پھینکا ہے۔ وہ آ ج یا کل بی جے پی میں شامل ہوکر راجیہ سبھا اور پھر مرکزی وزارت کا تاج سنبھالیں گے۔ ان کی پھوپی وسندھرا راجے سندھیا پہلے ہی بی جے پی میں ہیں اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں۔ایک اور پھوپی بھی وہیں ہیں۔ اس طرح وہ اپنی جڑوں کی طرف واپس لوٹ گئے ہیں۔
بہت مشکل زمانوں میں ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

Comments are closed.