Baseerat Online News Portal

سہ آتشہ

(مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند کی یاد میں )
محمد رضی الرحمن قاسمی
ینبع ، مدینہ طیبہ
مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ (رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند) آج 6 جون 2020 ء کو اپنے رب کریم کے جوار رحمت میں جا پہنچے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ عزوجل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔
میری ان سے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں دو ملاقاتیں ہیں۔ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مخدومی استاذ محترم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ مختلف میدان کے ماہرین اور مختلف اداروں، تنظیموں اور جماعتوں سے وابستہ افراد کو معہد میں بلاتے رہتے ہیں؛ تاکہ معہد میں زیرتربیت فضلاء کو براہ راست مختلف مکاتب فکر، تنظیموں، اداروں، ان کے افکار و نظریات اور طریقۂ کار کو سمجھنے کا موقع ملے، اس سے جہاں بہت سی بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں، وہیں اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہ کر وسیع ذہنی افق اور کشادہ ظرفی کے ساتھ باہمی تعلق استوار کرنے اور رکھنے کا سلیقہ بھی پیدا ہوتا ہے، جو اتحاد امت کے لئے ضروری ہے۔

2008 ء سے 2010ء تک (تین تعلیمی سال) مجھے معہد میں مخدومی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ اور دوسرے اساتذہ کے زیرتربیت رہنے کا موقع ملا، ان دنوں یہ معمول تھا کہ مہینہ میں کم از کم تین یا چار شرعی علوم یا دوسرے مفید علوم کے ایکسپرٹ یا کسی بھی ادارہ، مکتبۂ فکر یا تنظیم سے ذمہ دارانہ وابستگی رکھنے والےافراد کو توسیعی خطبات اور محاضرے کے لئے بلایا جاتا تھا، یقین ہے کہ اب بھی معہد میں یہ معمول ہوگا۔

مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ سے میری دونوں ملاقاتیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں، مولانا قاسمی رحمہ اللہ نے اپنی ایک آمد میں وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر سا خطاب کیا تھا؛ البتہ ایک بار مفصل توسیعی خطبہ دیا تھا، جس میں بنیادی طور پر اسی موضوع پر گفتگو کی تھی کہ مختلف مکاتب فکر، جماعتوں اور اداروں کو باہمی افکار و نظریات اور طریقۂ کار میں اختلاف کے باوجود کس طرح متفق رہنا چاہئے اور ان سے وابستہ افراد کو کس طرح امت کو متفق رکھنے کی سعی کرنی چاہئے۔ کسی قدر مفصل لیکچر کے بعد سوال و جواب کا بھی طویل سیشن رہا اور بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔

مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ کی جن باتوں نے میرے دل پر گہرے نقش ثبت کئے، ان میں ایک ان کا مرتب اسلوب گفتگو تھا کہ لیکچر میں ساری باتیں ایک دوسرے سے مربوط اور لڑی میں پروئی جیسی تھیں، مرتب گفتگو محاضر کی بات کو واضح طور پر سامعین تک پہونچاتی ہے اور بنیادی نکات کو یاد رکھنا سامعین کے لئے آسان ہوتا ہے اور اس پوری گفتگو کے پیچھے محاضر کا جو نظریہ اور ہدف ہوتا ہے، وہ بھی سامعین تک بے غبار پہنچتا ہے۔

مولانا قاسمی رحمہ اللہ کی دوسری بات جو دل و نگاہ کو بہت بھائی وہ آپ کی جامہ زیبی اور نستعلیق شخصیت تھی، اللہ عزوجل نے وجیہ و شکیل بنایا تھا، اس پر لباس کی ان کی خوش ذوقی مستزاد، پہلی نگاہ پڑتے ہی جاذبیت محسوس ہوئی اور ساتھ میں کچھ وقت گزارنے پر ان کی باوقار شخصیت نے دل میں اس رنگ کو اور گہرا کیا۔

تیسری بات جو آج بھی دل پر نقش ہے، وہ وقار کے ساتھ ان کی ظرافت و بذلہ سنجی تھی، اتنے سنجیدہ موضوع پر مفصل محاضرہ اور طویل سوال و جواب کے سیشن ہونے کے باوجود بھی کسی قسم کی اکتاہٹ نہیں محسوس ہوئی کہ دوران گفتگو گاہے گاہے مفید باتیں بھی اس طرح ہنستے مسکراتے جملوں میں کہ گئے کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی؛ لیکن ساتھ ہی فکر کے ایک نئے در کو بھی وا کر گئی۔

میں نے پوچھا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں، جس سیاق و سباق میں یہ سوال میں نے پوچھا تھا، انہوں نے احترام کے ساتھ محبت میں لپٹی میری شوخی کو محسوس کر لیا اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے دار العلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کیا ہے، مظاہر علوم سے بھی کسب فیض کیا ہے، جماعت اسلامی سے عرصہ دراز سے ذمہ دارانہ وابستگی ہے، بریلوی مکتب فکر کے علماء و مشائخ کے ساتھ بھی رہنے اور ان سے غیر رسمی استفادہ کا موقع ملا ہے، میرا تعلق تمام اداروں، تنظیموں اور مکاتب فکر کے لوگوں سے احترام والا ہے ، میں دو آتشہ نہیں، سہ آتشہ ہوں ۔
رحمه الله وادخله فسيح جناته وألهم أهله و ذويه الصبر والسلوان.

Comments are closed.