Baseerat Online News Portal

’’سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز ‘‘اگست تا دسمبر 2020

ڈاکٹر صالحہ صدیقی(الٰہ آباد )
سہہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کا تازہ شمارہ اگست تا دسمبر ۲۰۲۰موصول ہوا ۔جہاں ایک طرف پوری دنیا کرونا وائرس کے قہر میں مبتلا ہیں ،ایسے میں سوشل میڈیا ،نیوز، چینلس اور اخبارات کی سرخیاں اسی وائرس سے متعلق خبروں سے بھری پڑی ہیں۔ایسے برے وقت میں ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادب کی خدمت کرنا اور رسالہ کی تیاری کر اسے شائع کرانا واقعی قابل تعریف ہے ۔میں منصور خوشتر صاحب کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوںنے اس اہم رسالے کو بھیج کر مجھے مستفید ہونے کا موقع دیا ۔چند ماہ سے کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریبا تمام ہی رسالوں کی ترسیل میں خلل واقع ہوا۔البتہ منصور خوشتر کی نگرانی میں نکلنے والا دربھنگہ ٹائمز پابندی وقت کے ساتھ شائع ہوتا رہا جو کہ حسن انتظام کی عمدہ مثال ہے ۔دربھنگہ ٹائمز وقتا فوقتا خاص نمبر بھی نکالتا ہے۔جو بہت مقبول ہوئے ،جیسے ’’افسانہ نمبر ‘‘،ناول نمبر ‘‘اور ’’غزل نمبر ‘‘ شامل ہیں ۔جس میں نہ صرف ان اصناف کے نت نئے گوشے منور کیے گئے ۔خصوصا ان میں اکیسویں صدی کے ادب کی سمت و رفتار پر خاص توجہ کی گئی ہے ۔اس رسالے میں تحقیقی او تنقیدی مضامین ،ہم عصر افسانہ نگاروں کے افسانے ڈرامے ،انشائیے ،طنز و مزاح ،رباعیات نظمیں ،غزلیں ،منظوم تبصرے ، نثری تبصرے اور تاثرات سبھی کچھ شامل ہیں اور ہر شمارے میں نئے نئے چہروں سے متعارف کرایا جاتا ہے ۔ہمیشہ کی طرح کا تازہ شمارہ اگست تا دسمبر ۲۰۲۰انتہائی اہم رہا ۔جس میں مختلف عنوانات پر مشتمل مضامین ،افسانے ،افسانچہ ،غزلیں ،تبصرات اور ہندستان کے مختلف خطوں سے دربھنگہ ٹائمز سے متعلق خیالات بھی شامل ہیں۔
۲۰۲۰ جاتے جاتے پوری دنیا کے مناظر کو بدل گیا ۔ادب کے عظیم الشان شعرأ و ادیب اور ممتاز قلمکاروں نے اس سال اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے ۔زیر نظر شمارہ میں اپنے بزرگ شعرأ و ادبأ کو خراک عقیدت پیش کرتے ہوئے منصور صاحب نے 418صفحات پر مشتمل ضخیم شمارے میں تین گوشے نکالے ہیں جن میں شامل ہیں :
(1) گوشۂ پروفیسر مظفر حنفی : اس میں کل تین اہم مضامین شامل ہیں پہلا سیفی سرونجی کا ’’مظفر حنفی تخلیقی قوتوں کا شعر ‘‘دوسرا مضمون ہے پروفیسر ظفر احمد نظامی کا بعنوان ’’پروفیسر مظفر حنفی قلمی چہرہ اور اس گوشے کا تیسرا اور آخری مضمون ہے سلطانہ مہر کا بعنوان ’’مظفر حنفی ایک باکمال شاعر ۔یہ تمام مضامین بہت عرق ریزی سے لکھے گئے ہیں جن سے مظفر حنفی کے فکری و فنی زندگی پر بھرپور روشنی پڑتی ہیں ۔
(2)گوشہ ٔ پروفیسر لطف الرحمن :اس گوشے میں کل چار مضامین شامل ہیں جن میں پہلا مضمون ڈاکٹر محمد رضوان کا بعنوان ’’ لطف الرحمن کی غزلوں میں عصری حسیت ‘‘ دوسرا مضمون ڈاکٹر ریحان احمد قادری کا بعنوان ’’ پروفیسر لطف الرحمن : شخصیت اور فن ۔تیسرا مضمون ڈاکٹر محمد رستم انصاری بعنوان ’’ بہار میں اردو تنقید کے اہم ستون : پروفیسر لطف الرحمن اور گوشے کا چوتھا و آخری مضمون زیبا پروین کا بعنوان ’’لطف الرحمن کی تنقید نگاری ‘‘ شامل ہیں ۔یہ گوشہ بھی انتہائی اہم مضامین سے لبریز ہیں ۔تفہیم لطف الرحمن کے لیے یہ تمام مضامین بہت معاون ہے ،اردو کے تمام قارئین کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے ۔
(3)گوشۂ پروفیسر سرسید احمد خاں :اس گوشے میں کل تین مضمون مختلف عنوانات پر مشتمل شامل ہیں جن میں پہلا مضمون ڈاکٹر شبیر احمد کا بعنوان ’’سرسید احمد اور مغربی تعلیم ‘‘ دوسرا مضمون ڈاکٹر محمد ولی اللہ کا بعنوان ’’ سرسید احمد خاں کی صحافت نگاری ‘‘ اور تیسرا و آخری مضمون ڈاکٹر شگفتہ یاسمین کا بعنوان ’’سر سید احمد کی ادبی خدمات ‘‘ شامل ہیں ۔سر سید پر ان کے فکر و فن پر شاید ہی کوئی گوشہ ہو جس پر لکھا نہ گیا ہو ۔لیکن اس گوشے میں شامل مضامین میں قلم کاروں نے نئے نکات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جسے سراہا جانا چاہیے ۔ان مضامین میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو از قبل کہی جا چکی ہیں ۔
اس شمارے میں ان اہم گوشوں کے علاوہ ’’تحقیقی و تنقیدی مضامین‘‘ کا گوشہ شامل ہیں ۔جن میں مختلف عنوانات پر مختلف قلمکاروں کے کل 38 مضامین شامل ہیں ۔یہ تمامم مضامین انتہائی اہم ہے ۔شعر و ادب کے مختلف اصناف و تحریکات پر مبنی ان مضامین کا مطالعہ ہر اردو کے طالب علم کو ایک بار ضرور کرنا چاہیے ۔یہ گوشہ واقعی ایک علم کا خزانہ ہے جس میں مختلف رنگ و روپ کے بیش قیمتی موتی بکھرے پڑے ہیں ۔
اس کے علاوہ اس شمارے میں ’’اصناف اور موضوعات ‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ ہے جس میں کل 10مضامین شامل ہیں ۔اس میں مختلف اصناف کو بنیاد بنا کر شعرا ٔ و ادباء کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس رسالے کے آخری حصے میں ’’فن اور تجزیے ‘‘ اور’’ افسانہ ‘‘شامل ہیں ۔فن اور تجزیے میں مختلف افسانوں کا تنقیدی و فنی جائزہ لیا گیا ہیں جس میں کل چار مضامین شامل ہیں آخر میں عہد حاضر کے ممتاز افسانہ نگاروں کے کل ۹ افسانے شامل ہیں جس میں مشرف عالم ذوقی کا ’’گل پوز اور باقی چھ‘‘ اقبال حسن آزاد کا ’’ شاہ جی کی بات ‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔
مجموعی طور پر یہ انتہائی اہم اور معلومات سے بھرا شاندار شمارہ ہیں جسے بہت عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہیں ۔منصور خوشتر کی محنت اس شمارے کے ہر صفحہ پر دیکھی جا سکتی ہے ۔چونکہ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا یہ ۴۴۰ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم شمارہ ہے ۔جس میں شعر و ادب کی مختلف اصناف کے بے شمار گوشوں پر روشنی دالی گئی ہیں ۔اس لیے اس مختصر تاثر میں ان کا جائزہ یا ایک ایک مضمون پر گفتگو کرنا ممکن نہیں ۔طوالت کی ڈر سے صرف اشارے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ۔اگر آپ اس علم کے خزانے سے علم کا موتی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس شمارے کے مطالعہ سے ایک بار ضرور گزرے اور اپنے فہم کے مطابق از خود تجزیہ کریں ۔
بہر حال اس شمارے کے قلمکار پر نظر ڈالی تو طبیعت حیران رہ گئی کہ کیسی کیسی عظیم ہستیوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے ہیں ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آسمان ادب پر چمکدار ستارے جگمگا رہے ہوں ۔بلاشبہ ’’دربھنگہ ٹائمز ‘‘ منصور خوشتر کا ایک اہم کارنامہ جس کے ذریعہ انھوں نے پورے ہندوستان کی ادبی شخصیات کو ایک مالا میں پرونے کا کام کیا ہے ۔میں ان کی اس بے لوث خدمت کے لیے انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں ساتھ ہی یہ دعا بھی کہ ’’دربھنگہ ٹائمز ‘‘ اسی طرح کامیابی واکامرانی کی نئی منزلیں طے کرتا رہے …………آمین ۔
Email- [email protected] :

Comments are closed.