Baseerat Online News Portal

سید العلماء قاسم ثانی حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہیؒ:حیات وخدمات

از: امداد الحق بختیار
استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
سر زمین امروہہ جہاں ہر فن کے ماہرین اور نابغہ روزگار شخصیات ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہیں ، یہ بزگان دین، علماء و صلحاء ، محققین ، شعراء اور حاذق اطباء کی مایہ ناز سرزمین ہے، یہ وہ شہر ہے کہ جس کی کشش نے مشہور غیر ملکی سیاح ابن بطوطہ کو بھی اپنی طرف مائل کیا اور اس نے بے ساختہ یہ جملہ کہا: ’’وہی بلدۃ صغیرۃ حسنۃ‘‘ یعنی یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ اس سرزمین نے بہت سے لعل و گوہر پیداکیے، یہیں سادات حسینی کے خاندان میں سید العلماء حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہی ؒ پیدا ہوئے،آپ مفسر، محدث ، فقیہ ، مبلغ، معقولی، منقولی اور صاحب درس عالم تھے، علم حدیث میں آپ کوامتیازی شان حاصل تھی؛ اسی لیے آپ کو ’’محدث امروہی ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھااور آپ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ علمی جانشین تھے؛ حتی کہ آپ کو علمی حلقوں میں ’’ قاسم ثانی‘‘ کے خطاب سے یادکیا جاتاتھا۔
ولادت باسعادت
حضرت محدث امروہیؒ کی محلہ صدو (گلی گھاٹے والی) میں ۱۲۶۷ھ (۱۸۵۰ء) کو ولادت با سعادت ہوئی۔
نا م و نسب:
آپ کا اسم گرامی سید احمد حسن تھااور والد ماجد کا نا م اکبر حسین تھا، ابتدائی تعلیم کے زمانہ میں حضرت کا نام احمد حسین تھا۔آپ کا تعلق سادات حسینی سے ہے اور آپ امروہہ کے مشہور بزرگ حضرت شاہ سید ابّن قدس سرہ کی اولاد میں ہیں، حضرت شاہ ابن اکبری دور کے مشائخ میں تھے۔ (سید العلماء، مفتی نسیم احمد فریدی امروہیؒ و مولانا محب الحقؒ، ص: ۲۰) (حضرت مولانا سید احمد حسن ، احوال وآثار، ص: ۷۲)
ایک اہم خواب
میں (مفتی نسیم احمد فریدی امروہیؒ)نے مولانا عبدالرحمن خاں صاحب خورجویؒ سے براہ راست یہ واقعہ سنا ہے کہ ان کی دادی نے مولانا محدث امروہیؒ کی (خورجہ)آمد سے پہلے سرورِ کائنات محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھاکہ’’ہمارا یہ لڑکا تمہارے یہاںآئے گا۔ اِس کا خیال رکھنا۔‘‘اُن نیک نہاد خاتون نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ’’یہ صاحبزادے حضرت حسنؓ کی اولاد میں ہیں یا حضرت حسینؓ کی؟ فرمایا کہ یہ حسین کی اولاد سے ہیں۔‘‘ اس کے بعد جب حضرت امروہیؒ خورجہ تشریف لے گئے تو مولانا خورجویؒ کی دادی نے حضرت امروہیؒ کی دعوت کی۔ مولانا ؒان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ ان خوش بخت مسماۃ نے پردے میں سے کسی ضرورت کے لئے باہر نظر ڈالی تو وہی شکلِ مبارک آنکھوں کے سامنے تھی جو خواب میں دکھلائی گئی تھی ۔ (سید العلماء، ص: ۲۳)
شجرئہ نسب:
حضرت محدث امروہیؒ کا شجرئہ نسب حسب ذیل ہے:
سید احمد حسن بن سید اکبر حسین بن سید نبی بخش بن سید محمد حسین بن پیر سید محمد حسن بن سید سیف اﷲ بن سید ابوالمعالی بن سید ابوالمکارم بن سید ابوالقاسم بن حضرت شاہ ابّنؒ بن سید احمد گنج ردان بن سید طیفور اور سید محمودمالا مال کرمانی بن سید شہاب الدین بن سید محمود بن سید عبد الخالق بن سید محمد بن سید امیرمحمد بن سید محمود بن سید علی بن سید جنید بن سید معروف بن سید عبد الشکور بن سید عبد اللہ بن سید ابراہیم بن علی رضا ۔ حضرت علی رضا حضرت امام حسین کے اعقاب میں سے ہیں۔ (حضرت مولانا سید احمد حسن ، احوال وآثار، ص: ۷۳)
حلیہ اور لباس:
میانہ قد، دوہرا جسم، خوبصورت وحسین چہرہ، ڈاڑھی پر آخر میں وسمہ و مہندی کا خضاب لگاتے تھے۔ آپ کا حسن مشہور تھا، دینی عظمت کے ساتھ ساتھ سراپا حسین شخصیت کے مالک تھے، آپ کا چہرہ تاباں اسلامی عظمت کا مظہر تھا، آپ کی جبین روشن حسن اخلاق کا آئینہ تھی۔ عمدہ اور نفیس لباس زیب تن فرماتے، بعض اوقات معمولی لباس بھی پہن لیتے، عمامہ ایک خاص انداز سے باندھتے تھے، نیز عینک بھی لگاتے تھے۔ (حضرت مولانا سید احمد حسن ، احوال وآثار، ص: ۱۱۲)

ابتدائی تعلیم:
آپ نے ابتدائی و متوسط عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے وطن کے بلند پایہ علماء مولانا سید رافت علی صاحبؒ ساکن محلہ دربارِ کلاں، مولانا کریم بخش صاحب نخشبیؒساکن محلہ چاہ شوراور مولانا سید محمد حسین صاحب جعفریؒ ساکن محلہ چاہ شور سے حاصل کی۔ (سید العلماء، ص: ۲۱)
ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے طب کی تعلیم امروہہ کے مشہور طبیب حکیم امجد علی خاں کنبوہ سے پڑھی۔ (حضرت مولانا سید احمد حسن ، احوال وآثار، ص: ۷۴)
اعلی تعلیم اور قاسم العلوم حضرت نانوتویؒ سے اخذ فیض:
آپ نانوتہ، میرٹھ اور دیوبند میں رہ کر قاسم العلوم والمعارف حضرت مولانا محمد قاسمؒ سے تمام علوم و فنون کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوئے، حضرت نانوتویؒ نے شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندیؒ،مولانا فخرالحسنؒ اور حضرت امروہیؒ کو آخر میں ایک دو سال کے لئے دار العلوم دیوبند بھی بھیج دیا تھا اور وہیں حضرت نانوتویؒ نے ۱۹/ ذی قعدہ ۱۲۹۰ھ مطابق ۹/ جنوری ۱۸۷۴ء کو ان تینوں کی دستاربندی کرائی تھی۔شفیق استاذ نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو جس طرح شفقت ، عزت اور توجہ کے ساتھ سفر و حضر میں پڑھایا، اولاد سے زیادہ عزیز رکھا ،اس کی نظیر اس زمانہ کی تاریخ میں بہت کم ملے گی۔حضرت نانوتویؒ نے اپنے با کمال تلمیذ کو فارغ ہوتے ہی تعلیمی تحریک کا رکن بنا دیا اور ملت بیضا کی سرسبزی و شادابی کے لئے خود جو جد و جہد کر رہے تھے اسی جدو جہد میں ان کوبھی مشغول و منہمک کر دیا۔ چنانچہ حضرت محدث امروہیؒ اپنے استاذ کے کمالاتِ علمیہ کا مکمل آئینہ بن کر مسند در س پر جلوہ فرما ہوئے۔ (سید العلماء، ص:۲۱)
دیگر اساتذہ:
حضرت نانوتویؒ کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں (جن سے صرف اجازت حدیث ہے) مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ، قاری عبدالرحمن محدث پانی پتیؒ، اور مولانا عبدالقیوم نزیل بھوپال بھی شامل ہیں۔ اور جب آپ حج بیت اﷲ کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں استاذالاستاذ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی مہاجر مدنیؒ سے بھی حدیث کی اجازت حاصل کی۔(سید العلماء، ص:۲۲)
بیعت وخلافت:
حضرت محدث امروہی اپنے استاذ قاسم العلوم والمعارف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علاوہ شیخ المشائخ حضرت مولانا حاجی امداد اﷲ فاروقی مہاجر مکیؒ سے بھی بیعت تھے۔ حضرت حاجی صاحبؒ نے بغیر طلب کے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔محبوب خاں صاحب امروہوی جب حج کو گئے تو حاجی صاحب ؒ نے حضرت محدث امروہیؒ اور مولانا پھلاودیؒ کو خاں صاحب کے ذریعہ اجازت و خلافت ارسال کی۔ (سید العلماء، ص:۲۲)
درس وتدریس کا آغاز:
تمام علوم و فنون کی تحصیل و تکمیل کے بعد حضرت نانوتویؒ کی ایماء پرحضرت محدث امروہیؒ نے خورجہ کے مدرسہ سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ وہاں یہ مدرسہ قاسم العلوم یا مدرسہ قاسمیہ کے نام سے قائم تھا، جس کو حضرت قاسم العلوم والمعارفؒ نے قائم فرمایا تھا ۔ اس وقت آپ نوجوان تھے۔ آپ اُس مدرسہ کے صدر مدرس رہے اور وہاں پر مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ بھی رفیق مدرس رہے۔ کچھ عرصہ مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہیؒ بھی حضرت امروہیؒ کے ساتھ مدرس رہے۔ حضرت محدث امروہیؒ کس سن میں خورجہ گئے اور کب تک وہاں رہے یہ نہ معلوم ہو سکا ۔ (سید العلماء، ص:۲۳)
مدرسہ سنبھل میں تدریس:
مدرسہ خورجہ کی مالی حالت کمزور ہو جانے کی وجہ سے حضرت محدث امروہیؒ کو منشی حمید الدین بیخود سنبھلیؒ نے سنبھل بلا لیا۔ وہاں جامع مسجد سنبھل میں یا اُس کے قریب مدرسہ کی بُنیاد ڈالی یا وہ پہلے سے ہی غیر ترقی یافتہ شکل میں موجود تھا۔ منشی صاحبؒ حضرت نانوتویؒ کے مریدوں میں سے تھے اور سفر و حضر کے رفیق بھی تھے۔ اسی تعلق کی بنا پر حضرت محدث امروہیؒ کو مدرسہ سنبھل میں لانے کی تحریک کی۔ بیخود صاحب ؒ مدرسہ کے منتظمین میں سے تھے۔
حضرت محدث امروہیؒ سنبھل ایک سال سے زیادہ نہیں رہے۔ اہلِ خورجہ خصوصاً خاں صاحب عبداﷲخاں وغیرہ منت سماجت کرکے پھر خورجہ لے آئے۔ (سید العلماء، ص:۲۵)
مدرسہ عبدالرب دہلی میں تدریس:
حضرت محدث امروہیؒ خورجہ میں دوسری مرتبہ تقریباً ایک سال رہے، وہاں سے آپ مدرسہ عبدالرب دہلی تشریف لے آئے۔ مدرسہ عبدالرب میں بھی صدر مدرس ہوئے۔یہ وہ زمانہ ہے جبکہ حضرت قاسم العلوم ؒ بھی منشی ممتاز علی مرحوم کے مطبع میں کام کرنے کے سلسلہ میں دہلی میں مقیم تھے۔ (سید العلماء، ص:۲۷)
مدرسہ شاہی مرادآباد میں تدریسی خدمات:
حضرت محدث امروہیؒمدرسہ عبدالرب دہلی سے حضرت نانوتویؒ کے مشورہ کے مطابق مرادآباد آ گئے۔ وہاں مولانا سید عالم علی نگینوی ثم مرادآبادیؒ (متوفی ۱۲۹۶ھ موافق ۱۸۷۸ء) کے بعد ضرورت تھی کہ ایک بڑا مدرسہ قائم کیا جائے۔ چنانچہ حضرت نانوتویؒ کی حیات میں حضرت کی ایماء پر ماہ صفر ۱۲۹۶ھ موافق ۱۸۷۹ء میں شاہی مسجد مرادآباد کے اندر ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا نام ’’مدرسۃ الغربا ‘‘رکھا گیا۔ جو اب مدرسہ شاہی کے نام سے مشہور ہے۔
اس’’ مدرسۃ الغربا‘‘ کے آپ پہلے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث تھے۔ پہلے ہی سال اس مدرسہ میں طلبہ جوق در جوق آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مدرسہ دیوبند و سہارنپور کے بعد ایک عظیم الشان مدرسہ بن گیا۔
اسی مدرسہ میں حضرت نانوتویؒ کے صاحبزادہ حافظ محمد احمد، مولانا سید عبدالغنی پھلاودی ؒ اور مولانا حافظ عبدالرحمن صدیقی سندیلوی ثم امروہیؒ وغیرہ نے حضرت محدث امروہیؒ سے تعلیم حاصل کی، موخرالذکر دونوں حضرات نے یہیں سے سند فراغ بھی حاصل کیا۔
شوال ۱۳۰۳ھ موافق جولائی ۱۸۸۶ء تک حضرت محدث امروہیؒ مدرسہ شاہی مرادآباد کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث رہے۔ اس کے بعد وہاں کے بعض ممبران کی باتوں سے ناراض ہوکر استعفا دے دیا۔ (سید العلماء، ص:۲۸-۳۰)
جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں تدریس:
حضرت محدث امروہیؒ ماہ رمضان ۱۳۰۳ھ میں مدرسہ شاہی مرادآباد سے مستعفی ہو چکے تھے۔ اب وہ اپنے وطن عزیز میں تشریف لے آئے اور یہاں پرمدرسہ اسلامیہ عربیہ کی نشاۃ ثانیہ کی۔ یہ مدرسہ بنیادی حیثیت سے حضرت قاسم العلوم والمعارف ؒکا قائم کردہ ہے۔ انھیں کے ایماء پر اس مدرسہ کی داغ بیل پڑی تھی۔ شمالی ہند کے جہاں اور بہت سے مدارس اسلامیہ حضرت قاسم العلومؒ کی یادگار ہیں وہاں یہ مدرسہ بھی انہیں کی یادگار اور ان کے دریائے فیض کی ایک نہر ہے۔ حضرت نانوتویؒ کی حیات میں اور ان کی وفات کے کچھ سال بعد تک یہ مدرسہ متعدد محلوں میں مختلف ناموں (تاج المدارس) سے ابتدائی و متوسط حالت میں چل رہا تھا۔ آپ نے اس کا مختصر نام ’’مدرسہ اسلامیہ امروہہ‘‘ رکھا۔ حضرت امروہیؒ نے مرادآباد سے آکر جامع مسجد امروہہ میں اس کو باقاعدہ اور باضابطہ طریقہ پر قائم کیا۔ از سر نو اس کی بنیادوںکو مضبوط کرکے اس میں تمام علوم و فنون کی تعلیم جاری کی ،پہلے ہی سال اس مدرسہ کی شہرت حضرت محدث امروہیؒ کی شخصیت کی بنا پر دور و نزدیک ہو گئی۔ کچھ طلباء ذی استعداد تو مرادآباد سے آپ کے ہمراہ آئے تھے، اس کے بعد مستقبل قریب ہی میں تشنگانِ علوم نبویہ ؐ شد رحال کرکے ہندوستان کے ہر صوبہ کے علاوہ، کابل ، تاشقند، سمرقند، بخارا وغیرہ کے تشنگانِ علوم امروہہ آکراس چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے اور اپنی تشنگی کو دور کیا۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن عثمانی محدث دیوبندیؒ بھی مدرسہ عالیہ دیوبند میں داخلہ لینے والے بعض طلبہ سے یہ فرما دیتے تھے کہ تم میر احمد حسن امروہی کے پاس امروہہ جاؤ وہاں تمہیں تشفی بخش جواب ملیں گے ۔ بہت سے طلبہ اس طرح بھی دارالعلوم دیوبند سے چل کرمدرسہ امروہہ میں داخل ہوئے۔
مدرسہ کی معنوی تشکیل جدید کے ساتھ ساتھ حضرتؒ نے اس کی ضروری عمارتوں کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی۔ اپنی اور اپنے رفقاء کی کوششوں سے جامع مسجد امروہہ کی تعمیر میں اضافہ کیا اور اس کو پُررونق و شاندار کر دیا۔ جامع مسجد کے جنوبی و شمالی گوشوں میں پانباڑی تالاب کے کنارے خوبصورت اور ہوادار عمارتیں تعمیر کرائیں ۔ اس کے مشرق میں دارالحدیث بنوائی، دارالحدیث کے آس پاس کئی درسگاہیں رکھیں، مدرسین و طلبہ کے قیام کے لئے کچھ حجرے بالائی حصّے میں تعمیر کرائے۔ غرض کہ مدرسہ کو گلزار کر دیا۔
ابتداء میں خود ہی حضرت مولاناؒ صدر مدرس اور شیخ الحدیث ہیں، خود ہی مہتمم و منتظم ہیں، خود ہی چندہ وصول کر رہے ہیں اورخود ہی کتابوں کی فراہمی، مدرسین کے تقرر اور طلبہ کے داخلے کا انتظام فرما رہے ہیں۔ (سید العلماء، ص:۳۳)
حضرت محدث امروہی اپنی وفات ۱۳۳۰ھ تک اسی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔(تذکرہ علماء امروہہ، ص: ۹۷)
حضرت محدث امروہی اور طب کی تعلیم :
حضرت محدث امروہیؒ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ علم الادیان کے ساتھ ساتھ علم الابدان کے اسباق بھی پڑھاتے تھے۔ کافی لوگوں نے آپ سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپؒ نے طب کا پورا نصاب کتب خانہ میں جمع کر لیا تھا اور ایک ایک کتاب کے کئی کئی نسخے مہیّا کئے تھے۔ درس میںخاص طور پر وہ طلبہ شریک ہوتے تھے جو اپنی زندگی کسی مدرسہ میں گزار دینے کی ہمت نہ رکھتے تھے یا جن کے والدین نے غالباً یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ ان کے بچّے’’تعلیمی تحریک ‘‘ کا رکن بن کر قلیل تنخواہوں پر اکتفاء کریں۔
علاوہ ازیں امروہہ اس زمانہ میں طبی حیثیت سے بھی اپنی مرکزیت رکھتا تھا؛اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امروہہ میں طب کی اہمیت عام ذہنوں پر طاری تھی۔ حضرت مولاناؒ کی حکمت مآب طبیعت نے ایسے موقع پر مناسب جانا کہ ذہنوں کی طب پسندی سے کام لیکر ان کو حدیث و تفسیر اور فقہہ سے بھی آشناکر دیا جائے۔ چنانچہ امروہہ کے ذہین و ذی استعداد طلباء کی بڑی تعداد ایسی پیدا ہوئی جنھوںنے درس نظامی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طب میں بھی کمال حاصل کیا۔ ان میں سے چند کے اسماء یہ ہیں: (۱) استاذ الاطبّاء مولانا حکیم فرید احمد صاحب عباسی امروہی مدظلہٗ (۲) مولانا حکیم مختار احمد صاحب صدیقی مد ظلہ امروہی ثم بریلوی (۳)مولانا حکیم اسرار الحق صاحب صدیقی امروہی مرحوم(۴) مولانا حکیم سید محمود الحسن صاحب امروہیؒ برادرزادہ حضرت محدث امروہیؒ (۵) مولانا حکیم ظہور الحق صاحب صدیقی امروہیؒ (۶) مولانا حکیم سید حامد حسن صاحب امروہیؒ افسر الاطبّا ء حیدر آباد دکن(برادر علّاتی حضرت مولانا امروہیؒ) (سید العلماء، ص:۳۷)
دارالعلوم دیوبند میں تقرر:
قیام مدرسہ امروہہ کے چند سال بعد دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے حضرت محدث امروہیؒ کو دارالعلوم دیوبند بلا لیا۔ حضرت شیخ الہندؒ کو اور آپ کو برابر درجہ پر رکھا گیا۔ البتہ حضرت مولانا امروہیؒ کی تنخواہ قدرے زیادہ رکھی گئی۔حضرت مولانا امروہیؒ وہاں پر غالباً دو ماہ سے زیادہ نہیں رہے۔بیضاوی، شمس باز غہ، صدرا وغیرہ کتب حضرت مولانا امروہیؒ کے سپرد کی گئیں۔دارالعلوم ویوبند میں نودرہ کی کسی درسگاہ میں حضرت محدث امروہیؒ درس دیتے تھے ۔
مولوی نادر شاہ خاں صاحب وکیل مہتمم مدرسہ امروہہ دیوبند پہنچے اور بہت کوششوں سے حضرت محدث امروہی کو دوبارہ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ واپس لے آئے۔(سید العلماء، ص:۳۹)
حضرت محدث امروہی کے مشہور تلامذہ:
حضرت محدث امروہیؒ کے درس و تدریس کا سلسلہ مدرسہ قاسم العلوم خورجہ، مدرسہ سنبھل، مدرسہ عبدالرب دہلی، مدرسہ شاہی مرادآباد، دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں رہا۔ آپؒ عرصہ تک علوم اسلامیہ کی اشاعت اورتفسیر و حدیث کے درس میں منہمک رہے۔ آپ علوم قاسمیہ کے امین تھے اور ان کی ترویج و اشاعت میں عمر بھر نمایاں حصہ لیتے رہے۔علوم قاسمی کی مجسم تصویر تھے ۔ بالفاظ دیگرحضرت نانوتویؒ کے مثیل شمار کئے جاتے تھے۔ آپ کے درس کا فیضان دور دور تک پہنچااور سیکڑوں تشنگانِ علوم عالم، فاضل اور ماہرین علم و فضل بن کر آپ کے درس سے نکلے۔ جن سے علوم دینیہ کی اشاعت اور ایمان و عرفان کا رنگ دلوں میں جما۔
مولانا عبدالرحمن خاں صاحب خورجویؒ، مولانا حکیم محمدصدیق صاحب قاسمی مرادآبادیؒ۔مولانا خلیل الرحمن صاحب امروہیؒ۔ مولانا حافظ عبدالرحمن صاحب صدیقی امروہیؒ، قطب الوقت مولانا حافظ سید عبدالغنی صاحب پھلاودیؒ،مولانا محمود حسن صاحب سہسوانیؒ ، مولانا عبدالحق صاحب پیلی بھیتیؒ، مولانا قاضی عبدالباری صاحب سنبھلی ثم گڈھ مکٹیسریؒ،مولانا حافظ محمد احمد ابن حضرت نانوتویؒ۔مولانا سید رضا حسن صاحب امروہیؒ ،بابائے طب مولانا حکیم فرید احمد صاحب عباسی امروہیؒ، شفاء الملک مولانا حکیم رشید احمد خاں صاحب امروہیؒ،مولانا انوار الحق صاحب عباسی امروہیؒ، مولانا عبدالغفور صاحب سیوہارویؒ، مولانا سید ظہور علی صاحب بچھرایونیؒ، مولانا ظہورالحسن صاحب ناظم سہنسپوریؒ، مولانا حکیم ظہورالحق صاحب صدیقی امروہیؒ، مولانا حکیم محمد عمر صاحب شیر کوٹیؒ،مولانا سید معظم حسنین صاحب امروہیؒ،استاذالقراء مولانا قاری ضیاء الدین صاحب الہ آبادی ؒ،مولانا نور الزماںصاحب پنجابیؒ، مولانا عبدالمغنی انصاری امروہیؒ، مولانا حکیم مختار احمد صاحب صدیقی امروہی ثم بریلویؒ،مولانا مظہر الحق صاحب چاٹگامیؒ، مولانا حکیم محمد رفیع خاں صاحب امروہیؒ۔، مولانا کریم بخش صاحب سنبھلیؒ، مولانا خان زما ںصاحب پشاوریؒ۔ (سید العلماء، ص:۴۴-۴۵)
دارالعلوم دیوبندکی مجلس شوری کی رکنیت:
مولانا محمد منیر صاحب نانوتویؒ کے بعد مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے ۱۳۱۳ھ میں پانچویں مہتمم ہوئے۔ دارالعلوم کے سرپرست ہی نہیں بلکہ تمام علماء کے سربراہ قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے مشورہ کے بعد حضرت مولانا محدث امروہیؒکو مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیا۔
آپ کی رکنیت کی مدت ۱۳۱۳ھ سے ۱۳۲۹ھ تک ہے۔ اگر کبھی شوریٰ میں شرکت کا ارادہ نہیں ہوا تو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن عثمانی محدث دیوبندیؒ امروہہ آکر آپ کو دیوبند لے گئے۔ (سید العلماء، ص:۴۵)
حج بیت اﷲ:
حضرت محدث امروہیؒ نے اپنے استاذمعظم قاسم العلوم والمعارف حضرت نانوتویؒ کی معیت میں یہ مبارک سفر کیا۔ جبکہ آپ کے درس کا سلسلہ خورجہ میں ہی تھا۔ اس وقت آپ نوجوان تھے۔ عمر تقریباً ۲۵۔۲۶ سال کی ہوگی۔ حضرت نانوتویؒ نے تین حج کئے۔ پہلا ۱۸۶۰ء میں دوسرا ۱۸۷۰ء میں اور تیسرا ۱۸۷۶ء میں۔ آپ غالباً تیسرے حج میں ساتھ تھے۔ اس سفر حج میں حضرت نانوتویؒ کے ساتھ علماء کی ایک جماعت بھی حج کے لئے گئی تھی۔(سید العلماء، ص:)
اولاد واحفاد:
حضرت امروہی کی مختلف اوقات میں تین ازواج تھیں، پہلی زوجہ سے ایک صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولدہوئیں: (۱) مولانا سید محمد رضوی عرف بنے میاں (۲) بتول (۳) سیدہ۔(سید احمد حسن، احوال وآثار) مولانا سید محمد رضوی عرف بنے میاں جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ کے فارغ التحصیل اور مدرسہ عربیہ واقع مسجد چلہ کے بانیان میں تھے۔(تحفۃ الانساب،مصباح احمد صدیقی، ص: ۲۹۳)
عادات واخلاق :
اتباع سنت کا خاص اہتمام تھا۔ اخلاق حسنہ کا مجموعہ تھے۔ ہاں دین کی حمایت میں غصہ و جلال نمودار ہو جاتا تھا۔ تواضع، مہمان نوازی، شفقت علی الخلق اور صلہ رحمی میں فرد تھے، علم کا وقار اور دین کی عظمت قائم رکھنے کے لیے خودداری کے ساتھ رہتے تھے۔شاگردوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔ عوام الناس سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ (سید العلماء، ص: ۱۳۴)
مرض اوروفات:
ربیع الاول ۱۳۳۰ھ کے آخری ہفتہ میں چند روز شدید بخار آیا۔ اس سال طاعون کی وباء شہر میں پھیلی ہوئی تھی۔ بالآخراسی میں مبتلا ہوکر ’’المطعون شہید‘‘ کا مصداق بن گئے۔
۲۸،۲۹ ربیع الاول ۱۳۳۰ھ کی درمیانی شب میں بعد نمازِ عشاء ۱۱بجے شب بروزمنگل آپ کا وصال ہوا۔مولانا حافظ محمد احمد صدیقی نانوتویؒنے نماز جنازہ پڑھائی، ۲۹؍ربیع الاول ۱۳۳۰ھ موافق ۱۹؍مارچ ۱۹۱۲ء بروز سہ شنبہ صحن جامع مسجد امروہہ کے جنوبی گوشے میں دفن ہوئے۔ (سید العلماء، ص: ۱۴۲) (تذکرہ علماء امروہہ،مصباح احمد صدیقی، ص: ۹۹)
آپ کی وفات پر بڑے بڑے علماء اور اہل دانش نے گراں قدر تعزیتی کلمات اور منظوم خراج عقیدت پیش کیے ہیں، جیسے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ، مفتی کفایت اللہ ؒ، مولانا حبیب الرحمان عثمانی دیوبندیؒ، مولانا سید عبد الغنی پھلاودیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حافظ عبد الرحمان صاحب مرادآبادیؒ اور حضرت مولانا محمود حسن ؒ نیز دارالعلوم دیوبند میں تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی دیوبندیؒ کا عربی مرثیہ جو علمی شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے اور جس میں زخم خوردہ قلوب کی نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ ترجمانی کی گئی ہے۔ اور اس کا بہترین اردو منظوم ترجمہ اور چند اشعار مرثیہ کی تضمین معہ ترجمہ ملاحظہ فرما لیجئے:
شمْلُ الھُدیٰ وَالدِّیْنِ عَمَّ شَتَاتُہٗ

وَالدَّھْرُ سَا ئَ وَاُقْلِعَتْ حَسَنَاتُہٗ
بِاﷲِ اَیْنَ الْعَالِمُ الْحِبرُ الَّذِی

تَقْویٰ الْاِلٰہِ صِفَاتُہ وَ سِمِاتُہٗ
اَیْنَ الَّذِی اَفْنَی الشَّبِیْبَۃَ کَافِلاَ

نَشْرَالْعُلُوْمِ مَسائُہ وَغَدَاتُہٗ
اَیْنَ الَّذِی مُذْ لَمْ یَزَلْ مُتَوَاضِعًا

ﷲِ خَالِصَۃً صَفَتْ نِیَّاتُہٗ
مَسْعُوْدَۃٌ غَدْ وَاتُہٗ مَحْمُوْ دَ ۃٔ

رَوْ حَاتُہٗ مَیْمُو نَۃٌ ضَحَوَاتُہٗ
عَلَمٌ عَنَ الْاِسْلَامِ کاَنَ مُحَامِیًا

اَبَدًا اِذْا مَا اَسْلَمَتْہٗ حُمَاتُہٗ
جَبَلٌ تَضَعْضَعْ مِنْ تَضَعْضُعِ رُکِنِہٖ

اَرْ کَانُنَا وَ تَھَدُّ نَا ھَدَّ ا تُہٗ
یَا وَحْشَۃَ الْاِسْلَامِ یَوْ مَ تَمَکَّنَتْ

فِیْ کُلِّ قَلْبٍ مُؤمِنٍ رَوْعَاتہٗ
لَا تَحْسَبُوْ ھٗ مَاتَ شَخْصٌ وَاحِدٌ

فَمَمَاتُ کُلِّ الْعٰلَمِیْنَ مَمَاتُہٗ
مَا کَا نَ اَسْرَعَ وَقْتُہٗ لَمَّا انْقَضیٰ

فَکَانَّمَا سَنواتُہ سَا عَاتُہٗ
کَانُوا جُلُوْ سًا اَمْسِ حَوْلَ وِسَادِہٖ

وَالْیَومَ ھُمْ حَوْلَ السَّرِ یرِ مُشَا تُہٗ
(سید العلماء، ص: ۱۵۶-۱۵۷)
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کا تصنیف کردہ مرثیہ:
گم ہوئی ہے آج صد حسرت ہمارے ہاتھ سے

حضرتِ قاسم نشانی دے گئے تھے اپنی جو
سیدالعلماء امامِ اہلِ عقل و اہلِ نقل

پاک صورت، پاک سیرت،صاحب خُلقِ نکو
معدن علم و حکم سرِدفترِ اہلِ کمال

عازمِ خلدِ بریں ہے جس کو چلنا ہے چلو
جب شبیہ قاسمی سے بھی ہوئے محروم ہم

تم ہی بتلا دو کہ پھر ہم کیا کریں اے دوستو
درد یہ پہنچا ہے سب کو اس کا منکرکون ہے

ہاں مگر اک فرق ہے تھوڑا سا گر میرے سنو
لوگ کہتے ہیں چلے علامۂ احمد حسن

اور میں کہتا ہوں وفات قاسمی ہے ہو نہو
کاملِ و اکمل سبھی موجود ہیں پر اس کو کیا

جو کہ مشتاقِ ادائے قاسم خیرات ہو
اپنی اپنی جائے پر قائم ہیں سب اہلِ کمال

پر جگہ استاد کی خالی پڑی ہے دیکھ لو
ہاں جنونِ اتحادِ قاسمی میں بارہا

تم کو ہم کہتے تھے من اور آپ کو کہتے تھے تو
مجمعٔ حسرت قرین درد و غم میں میں بھی تھا

فکر میں تاریخ کے سب نے کیا جب سر فرو
بادلِ پُریاس آئی کان میں میرے صدا

حک ہوئی تصویر قاسم صفحۂ دنیا سے لو۱۳۳۰ھ
(سید العلماء، ص: ۱۴۶-۱۴۷)
حضرت محدث امروہیؒ کی علمی شہرت:
حضرت قاسم العلومؒ کے ممتاز شاگرد ہونے کی وجہ سے آپ کی علمی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونِ ہند میں بھی تھی۔ ہندوستان کے ہر ہر صوبہ کے نیز افغانستان وغیرہ کے طلباء امروہہ آتے تھے۔ یہاں پر شمع حدیث رسول کے پروانوں کا زبردست ہجوم رہتا تھا۔ہندوستان کے دوسرے مدارس کے طلباء بھی بغرض تعلیم امروہہ آ تے تھے۔ (سید العلماء، ص:۵۰)
بحیثیت شاعر:
امروہہ ایک قدیم تاریخی علمی ،اور ادبی بستی ہے۔ یہاں ہر فن کے صاحب کمال افراد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اسی امروہہ میں حضرت محدث امروہیؒ بھی ہوئے جو ایک طرف مفسر، محدث ، فقیہ ، مبلغ، معقولی، منقولی اور صاحب درس عالم تھے، تو دوسری طرف ادیب، فصاحت و بلاغت کے مالک اور عروض سے واقف اور قادر الکلام شاعربھی تھے۔مولانا سید عبدالغنی پھلاودیؒ اپنے اشعار بغرض اصلاح آپ کے پاس بھیجتے رہتے تھے۔ خود آپ کے کلام کا پتہ نہیں کیا ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ پھلاودہ کے ذخیرہ میں موجود ہو۔ حضرت نانوتوی ؒ کے انتقال کے بعد حضرت محدث امروہی نے اپنے استاذ کی شان میں درج ذیل منقبت لکھی تھی:
بسم اﷲ
مدح لکھ اُن کی جو ہیں حافظِ قرآں دونوں
حاجی بیتِ حرم، صاحب عرفاں دونوں
مہبطِ علمِ لدن، موردِ الطافِ اِلہٰ
حافظِ علمِ نبیؐ، ماہرِ قرآں دونوں
مبنعِ زہد و تقیٰ مطلعِ انوارِ ہُدیٰ
علم و ارشاد کے ہیں مہرِ درخشاں دونوں
مظہرِ خاص کمالات نبی اکرم
اُن پہ قربان، مری روح،میری جاں دونوں
نہ تو اِمکانِ تضاعف نہ جوازِ تطبیق
میرے نزدیک تو باطل ہیں یہ بُرہاں دونوں
جب احاطہ ہو کمالات کا اُن کے دُشوار
پھر تو کس منھ سے کہوںمیں کہ ہیں یکساں دونوں
ہاں جو تھے گم شدگاں، راہ ہدایت سے انھیں
باعثِ رشد و ہدایت ہوئے یکساں دونوں
احمدؔ خستہ جو ہے محوِ کمالِ قاسم
اُس پہ ہو لطفِ نبیؐ رحمتِ یزداں دونوں
(سید العلماء، ص:۵۷،۶۰)
حضرت محدث امروہیؒ کی جامعیت:
تقریر کا ملکہ بھی آپ کو خاص طور پر عطا ہوا تھا، آپ کا طر ز بیان دل نشیں ہوتا تھا۔ آخر تک سامعین دلچسپی اور شوق سے سنتے رہتے تھے، امام شہر ہونے کی حیثیت سے تقریباً ہر جمعہ کو بعد نماز جمعہ وعظ فرمایا کرتے تھے۔
صاحب تذکرۃ الکرام مولوی محمود احمد عباسی لکھتے ہیں :
’’تقریر نہایت دلکش اور انداز بیان ایسا دل آویز ہوتا کہ سامعین میں جو اشخاص علم سے بے بہرہ ہوتے وہ بھی مطلب کو صاف طور سے سمجھ جاتے۔ خاکسار مؤلف کو نوعمری میں آپ کے مواعظ میں شرکت کا اکثر موقع ملا ہے۔ آپ کی بارعب شخصیت، نورانی چہرہ، دلکش آواز، دل آویز طرز بیان، آپ کی جاذبیت اور کشش کا اثر اب تک قلب میں موجود ہے۔ ‘‘
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندیؒ اپنے ایک تعزیتی مقالہ میں تحریر فرماتے ہیں:
ہمارے مولائے ممدوح( محدث امروہیؒ) میں یہ سب اوصاف اعلیٰ طور پر جمع کر دئے تھے۔ مولانا کی تقریر،تحریر، ذہانت، تبحر،اخلاق اور علوم عقلیہ نقلیہ میں کامل دستگاہ ضرب المثل تھی اور سب سے زیادہ قابل قدر اور ممتاز کمال مولانا کا یہ تھا کہ حضرت قاسم العلوم والمعارفؒ کے دقیق و غامض علوم کو ان ہی کے لب و لہجہ اور طرز ادا میںنہایت صفائی اور سلاست کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔( ماخوذ: القاسم ربیع الثانی ۱۳۳۰ھ)(سید العلماء، ص:)
حضرت محدث امروہیؒ اور فرق ضالہ اور باطلہ سے مقابلہ:
اپنے استاذ حضرت نانوتویؒ کی طرح حضرت محدث امروہی ؒ نے اسلام کی حقانیت ، باطل فرقوں کی سرکوبی اور گمراہ ذہنوں کی اصلاح کے لیے بڑی قابل قدر کوششیں کی ہیں، قادیانیوں اور دیگر گمراہ اور باطل فرقوں سے آپ نے متعدد مناظرے کیے ؛ چنانچہ ربیع الثانی ۱۳۱۸ھ موافق جولائی ۱۹۰۰ء میں گلاؤٹھی میں ’’ فاتحہ خلف الامام ‘‘ کے مسئلہ پر مناظرہ ہوا، حضرت محدث امروہیؒ کی ایک معرکۃ الآرا تقریر ہوئی، جس میں فاتحہ خلف الامام پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ امام کی قرأۃ ِ فاتحہ، مقتدی کے لیے کافی ہے۔ نیز ۱۳۲۲ھ موافق ۱۹۰۴ ء کو نگینہ ضلع بجنور میں آریوں سے مناظرہ ہوا، رام پور میں قادیانیوں سے مناظرہ ہوا۔
رد قادیانیت میں مولانا محدث امروہیؒ نے تقریریں کیں، تحریریں لکھیں مناظرہ کرایا حتی کہ مباہلے کے لیے تیار ہوئے۔ حضرت محدث امروہیؒ نے مرزا سے مباہلہ کا اعلان کیا تھا، حضرت محدث امروہیؒ مرزاء قادیانی کو تحریر فرماتے ہیں:
’’بسم اﷲ! آپ تشریف لائیے میں آپ کا مخالف ہوں۔ آپ مسیح موعود نہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ آپ اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ میں بنام خدا مستعد ہوں خواہ مناظرہ کیجئے یا مباہلہ۔ آپ اپنے اس دعویٰ کا احادیث صحیحہ معتبرہ اور قرآن پاک سے ثبوت دیجئے اور میں ان شاء اﷲ تعالیٰ اس دعوے کی قرآن و احادیث صحیحہ سے تردید کروںگا۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ‘‘
راقم خاد م الطلباء احقر الزمن احمد حسن غفرلہ مدرس مدرسہ عربیہ امروہہ
(ستہ ضروری مباحثہ رامپوری ص۵۶)
مرزاغلام احمد قادیانی کو جہاں دیگر علمائے حق سے عناد تھا وہیں حضرت محدث امروہیؒ سے بھی دلی بغض ہو گیا اور رسالہ دافع البلاء میں اس نے حضرت محدث امروہی کو بھی مخاطب کیا۔
تصانیف:
درس و تدریس ، وعظ نصیحت اور دعوت و تبلیع کی زیادہ مصروفیت کی وجہ سے تصنیف و تالیف کی جانب توجہ کم ہوئی؛ تاہم چند مجموعہ آپ کی علمی یاد گار ہیں: (۱) افادات احمدیہ قلمی: اس کو مولانا محمد یحی شاہ جہان پوری ني مرتب کیا تھا، مولانا محمد حسن سنبھلی اور محدث امروہی کے درمیان تحریری مناظرہ ہوا تھا، جس کاتعلق بعض مسائل عقائدو کلام سے تھا۔ خصوصاً مسٔلہ امکان و امتناع نظیر حضرت بشیر و نذیرصلی اﷲ علیہ و سلم کی تحقیق، یہ مجموعہ اسی پر مشتمل ہے، ۸۹ صفحات کی کتاب ہے، غیر مطبوعہ ہے، پھلاودہ کے کے کتب خانہ میں ہے۔ (۲) افادات احمدیہ مطبوعہ: یہ حضرت کے علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے، آپ کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۵ء میں مفتی کفایت
اللہ صاحب کی نگرانی میں شائع ہوا۔ (۳) ازالۃ الوسواس: حضرت نانوتویؒ کے رسالہ تحذیر الناس پر کئے گئے اعتراضات کے اس میں جواب دیے گئے ہیں، یہ ۲۳ صفحات پر مشتمل ہے، ’’ازالۃ الوسواس‘‘انشا پردازی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کتاب کو مولانامحمداسمٰعیل علی گڈھیؒ ، فخر العلماء مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ، مولانا آلِ حسن نخشبی امروہیؒاور مولانا عبدالہادی امروہیؒ وغیرہم نے بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔(۴) رسالہ المعلومات الالہیہ: یہ صرف دو صفحہ کا رسالہ عربی زبان میں ہے؛ لیکن اپنے موضوع پر متن کی حیثیت رکھتا ہے۔ (۵) فتاوی: آپ کے فتاوی کا ایک مجموعہ مولانا پھلاودی کے کتب خانہ میں موجود ہے، دوسرا مجموعہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ رام پور میں ہے۔(حضرت مولانا سید احمد حسن ، احوال وآثار،ص: ۱۱۳، ۱۵۶، ۱۵۷)
اہل علم کے نزدیک آپ کا مقام ومرتبہ:
حضرت مولانا حبیب الرحمان عثمانی سابق مہتمم دار العلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں:
مولانا احمد حسن صاحب میں اس قدر اوصاف و کمالات مجتمع تھے کہ کسی شخص واحد میں ان کا اجتماع دشوار عادی ہے۔ علمی تبحر، ورع و تقدس اور اُن کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اوصاف خاصہ میں سے تھے۔ آپ کی صحبت اکسیر کا حکم رکھتی تھی۔ خلافِ شرع امور اورمنکرات پر مداہنت کو ہر گز جائز نہ رکھتے تھے۔ مگر ان سب کمالات کے ساتھ جس امر نے آپ کو ممتاز بنا کر رفعت و عظمت کے آسمان پر پہنچا دیا وہ یہ تھا کہ آپ حضرت قاسم العلوم والمعارف کی ’’زندہ تصویر‘‘ خیال کئے جاتے تھے۔
مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ تحریر کرتے ہیں:
حضرت مولانا احمد حسن امروہیؒ حضرت مولانا محمد قاسم ؒ کے نہایت محبوب شاگرد تھے۔تبحر علمی میں حجۃ الاسلامؒ کے صحیح جانشین مانے جاتے تھے۔ سیاسی خیالات میں حضرت شیخ الہندؒ کے رفیق تھے۔
دار العلوم دیوبند میں حضرت محدث امروہی کی وفات کے بعد منعقدہ تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں:
اس جماعت کے ارکان میں سے ایک بہت بڑا رکن اعظم منہدم ہو گیا اور حضرت قبلہ مولانا احمد حسن امروہی قدس سرہ کی ناگہانی موت نے اس جماعت کی قوت کو ناقابلِ تلافی صدمہ پہنچایا اور نہ صرف یہ کہ ہماری جماعت کی طاقت کو ایک بھاری صدمہ پہنچا بلکہ آج ایک ایسا جامع معقول و منقول عالم مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ جس کی نظیر ہمارا زمانہ بمشکل پیدا کر سکتا ہے۔ آج ہندوستان کا بڑا مقتدا دنیا سے اُٹھ گیا، آج’’ تصویر قاسمی‘‘ مٹ گئی اورآج قاسمی معارف کے ’’اعلیٰ شارح‘‘ نے اپنی مسند خالی چھوڑ دی۔
حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲدہلویؒ ارقام فرماتے ہیں:
ربیع الاول ۱۳۳۰؁ھ کا مہینہ مسلمانانِ ہند کے لیے ایک ایسا مہینہ تھا جس میں ان کی نظروں سے علم نبوت کے دو روشن چراغ اوجھل ہوگئے بلکہ دو آفتاب غروب ہوگئے۔ اول حضرت مولانا و مقتدانا الجامع بین المعقول والمنقول حاوی الفروع والاصول سیدنا الفقیہہ المحدث المفسر المتکلم المولوی السید احمد حسن الامروہی افرغ اﷲ علیہ شآبیب رضوانہ۔ دوم جناب وارث الانبیاء والمرسلین ماوی الغرباء والمساکین مولاناالحافظ الحاج القاری المحدث المفسر محمد اسماعیل راندیری السکنہ اﷲبحبوبہ جنانہ۔ یہ دونوں مقدس بزرگ ان نفوس قدسیہ کے نمونے تھے جن کے نام کے ساتھ اسلام کا شیرازہ باندھا گیا تھا جن کے دیدار سے خدا یاد آتا تھا۔ جن کی مجلسیں ذکر اﷲ سے معمور جن کے قلوب شرابِ محبت سے مخمور، جن کے متوسلین حب دین سے معمور تھے۔اس گئے گذرے زمانہ میں جبکہ علماء ربانیین کا قحط ہے۔ یہ صحابہ کرام کے سچے جانشین اور انبیاء علیہم السلام کے حقیقی وارث تھے۔ ان کے انتقال سے قصر دین کی بنیادیں نہ صرف امروہہ و گجرات میں متزلزل ہو گئیں بلکہ تمام ہندوستان کی علمی و عملی دنیا میں ایک غیر معمولی زلزلہ محسوس ہونے لگا اور کیوں نہ ہو کہ ایسے علماء ربانیین دین کے عالیشان ایوان کے اساطین ہیں۔ (سیدالعلماء، ص: ۱۴۳-۱۵۰)
علامہ شبلی نے محدث امروہی کی وفات پر فرمایا:
ہندوستان سے حدیث کا چراغ گل ہوگیا۔ (الندوہ لکھنؤ ۱۹۱۲ء)
حضرت شیخ الہند دیوبندیؒ اور حضرت محدث امروہیؒ:
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن عثمانی محدث دیوبندیؒ اور حضرت محدث امروہیؒ میں خلوص و محبت کے جو مراسم تھے وہ اس دور میں استاد بھائیوں میں ڈھونڈے سے بمشکل ملتے ہیں۔ جب حضرت امروہیؒ دیوبند جاتے تھے تو حضرت شیخ الہندؒ کے لیے عید ہو جاتی تھی۔ باغ باغ ہو جاتے تھے۔اور جب حضرت شیخ الہند ؒ امروہہ تشریف لاتے تو حضرت امروہیؒ پھولے نہ سماتے۔ شاد شاد ہو جاتے تھے، حضرت شیخ الہندؒ اسی تعلق کی بنا پر کئی مرتبہ امروہہ تشریف لائے ہیں۔(سیدالعلماء، ص: ۱۳۷)
حضرت تھانویؒ اور حضرت محدث امروہیؒ
حضرت تھانویؒ حضرت محدث امروہیؒ کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے۔ اور حضرت امروہیؒ کو بھی ان سے تعلق خاطر تھا۔ مرادآباد میں ’’موتمر الانصار‘‘کے جلسہ میں تمام اکابر جمع تھے۔ مختلف مکانوں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ایک دن حضرت محدث امروہیؒ ایک خاص مشورے کے لیے سب کو ایک جگہ جمع کرنا چاہتے تھے۔ اپنے شاگرد مولانا انوار الحق صاحب عباسی مرحوم کو بھیجا کہ مولانا تھانوی وغیرہ سے کہو کہ مجھے ایک مشورہ کرنا ہے۔میں خود ان کے پاس آؤںیا وہ میری قیام گاہ پر آ جائیں گے؟ جب یہ پیغام مولانا تھانویؒ نے سنا تو گھبرا کر فرمایا مولانا تکلیف نہ فرمائیں ہم سب ان کی قیام گاہ پر آ رہے ہیں۔ (سیدالعلماء، ص: ۱۳۸-۱۳۹)

 

Comments are closed.