Baseerat Online News Portal

سیرت رسول ﷺ اور معاشرے کی تشکیل 

 

الطاف جمیل ندوی

 

 

معاشرے کی تشکیل اور اس کی تجدید اور اس کی اصلاح کرنا بھی اسلامی اصول و ضوابط کا ایک حصہ ہے معاشرے میں جب بھی بگاڑ آیا تو انبیاء نے صالحہ معاشرے کی تشکیل کے لئے ضابطہ بیاں کیا جس کا ایک بہت بڑا حصہ تعلیم و تشریح کی صورت میں تاریخ احادیث میں اب بھی موجود ہے اور امت اس سے اب تک اسباق فلاح لے رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ہم ان کی انفرادی یا سوانحی خاکہ  سے آگئے بڑھ کر ان کی وہ کاوشیں بیان ہو سیرت سے جو ہمارے معاشرے کی اصلاح کے لئے نافع ہو  اور سماج کی نابرابری بدی کی آماجگاہ بنے سماج سوسائٹی کی اصلاح ممکن ہو اسبلئے چند گزارشات اپ کی نظر کرنے کی سعی کرتا ہوں

 

حضور اکرم رحمت عالم ﷺ کی زندگی جہد و مشقت، صبر و قناعت اور زہد و عبادت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ دوسری طرف آپؐ کی حیات طیبہ امارت وحکومت، سیادت و قیادت، دلیری، شجاعت اور کمال علم و عمل کی تصویر تھی۔ آپؐ نے اختلاف وانتشار، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی سے مامور فضا کو پاک کیا۔ امن واطمینان، اخوت و بھائی چارگی اور انسانیت کادرس دے کر انسانیت کو ایمان و حقائق کی روشنی سے آگاہ کیا۔

 

 

آپؐ ہیں خیر بشر شافع محشر بھی ہیں

 

 

آپ سے کیوں نہ زمانے کو محبت ہوتی

 

 

اکثر ہم آجکل اس  تصور کے سہارے  تصور سیرت پروان چڑھا رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری عبادات کے رہنما ہیں چنداں اس جانب توجہ نہیں دی جاتی کہ ان کی معاشرے سماج سوسائیٹی کے تئیں ان کے احکام و افکار کیا ہیں وہ ہمارے اذہان سے آہستہ آہستہ اب مفقود ہوتے جارہے ہیں چلیں آج ان چند افکار  و احکامات کی روشنی میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کی سعی کریں

 

بحیثیت شوہر نبی کریم  ﷺ

 

گھر سے شروع کریں کیوں کہ ہمارے گھر اب اسلامی ہونے کے بجائے کچھ اور ہی تصور پیش کر رہے ہیں گھر میں والدین ہوتے ہیں بچے اور بیوی  والدین کے بارے میں اکثر سنتے ہیں چلیں آج  شریک حیات کے بارے میں دیکھتے ہیں کیسے تھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ

 

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ :

 

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو:

 

بہترین کون ؟

 

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي،‏‏‏‏ وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ   )).   سنن الترمذی:

 

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے خیر باد کہہ دو، یعنی اس کی برائیوں کا ذکرنہ کرو“

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے،کپڑے پر پیوند لگا لیتے، جوتے کی اصلاح فرما دیتے، پھٹا ہوا ڈول مرمت فرما لیتے تھے۔حضرت اسود کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے اندر کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام کاج کرتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ مسجد تشریف لے جاتے۔

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کی عزت واحترام کرتے۔ایک سفر میں اپنی اہلیہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ کے قریب بیٹھے اور اپنا گھٹنا مبارک یوں رکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوں۔ سو آپ ﷺ کی اہلیہ امی صفیہ رضی اللہ عنہا نے مبارک زینے پر پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہوگئیں۔

 

اپنی بیوی کے ساتھ محبت، نرمی کا برتاؤ، خوش طبعی، بے تکلفی، اس کی دلجوئی اور حقوق کی ادائیگی گھر کو جنت بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تعلیمات پر عمل کرنا اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ضروری ہے ، اسی سے ازدواجی زندگی خوشگوار اور پر لطف ہوسکتی ہے

 

جب کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ

 

ایک دفعہ نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بیویوں کے حقوق کے متعلق پوچھا گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کھاوٴ تو اس کو کھلاوٴ ، اور جب تم پہنو تو اس کو پہناوٴ ، نہ اس کے چہرے پر مارو اور نہ برا بھلا کہو اور نہ جدائی اختیار کرو ، اس کا موقع آبھی جائے یہ گھر میں ہی ہو(ابوداوٴد: کتاب النکاح، باب فی حق المرأة علی زوجھا، حدیث: ۲۱۴۳

 

جھوٹا اپنی شریک حیات کا

 

ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیالے میں پانی پی رہیں تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا:حمیرہ! میرے لیے بھی پانی بچا لینا، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پانی بچایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: عائشہ! تم نے کہاں پر لب لگا کے پیا؟ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے جگہ بتائی کہ یہاں سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کا رخ پھیرا اور جہاں سے زوجہ محترمہ نے پانی پیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے لب مبارک اسی جگہ لگا کے پانی نوش فرمایا۔”

 

تھوڑا سا سوچیں کہ کیا ہم ان معاملات میں سیرت طیبہ کے پیروکار ہیں یا ان باتوں کو پوشیدہ رکھنے میں ہی ہم عافیت محسوس کرتے ہیں کیا وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاق کے بارے ان کی ازدواج اچھی گواہی دیتی ہیں تو کیا ایسا ممکن ہے کہ ہماری شریک حیات بھی ہمارے بارے ایسی گواہی دے

 

 

بچوں کے لئے منہج نبوی ﷺ

 

بچوں کو پیار کریں

 

اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ ں حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور ں میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ  نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری)

 

بچوں کی تربیت

 

عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی اِدھر پڑتا،کبھی اُدھر ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پر ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے جارہے ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”يَا غُلاَمُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيك” اے بچے!جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

 

تربیت کرنے والوں کے لیے اس فرمان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ ابتداءً ٹوکنے کے بجائے کچھ آداب بیان کرنے کی وجہ سے انداز بھی مثبت رہا اور مقصود بھی حاصل ہوگیا یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرے کھانے کا انداز ویسا ہی رہا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاتھا۔

 

بوقت ضرورت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جائے:

 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔(مسلم :کتاب الفضائل: بَابُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا:حدیث 2309)

 

اور اگر کہیں تربیت کے معاملے میں پیار ومحبت سے سمجھانا مؤثر نہ ہورہا ہو اور معاملہ فرائض کا ہو تو وہاں بطورِ تنبیہ ڈانٹ ڈپٹ کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے،چنانچہ فرمایا:”مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْر”یعنی اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔ کیا ہم ان خطوط کی روشنی میں اولاد کی تربیت اور اس کا خیال رکھتے ہیں یا بس چھوڑ دیتے ہیں اور پھر جب برائیاں سر چڑھ کر بولتی ہیں تو ہائے افسوس کے ساتھ ہاتھ  بھی ملتے ہیں ہم نے اپنی اولاد کے لئے کیا کبھی کوشش کی کہ رسول اللہ کی ہدایت کی روشنی میں ان کا خیال رکھیں

 

بیٹیوں کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم

 

اولاد دینے کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت غور طلب ہے

 

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ سوره الشوریٰ ٤٩

 

آسمانوں اور زمین میں الله ہی کی بادشاہی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے-

 

اس آیت میں غور کریں تو الله نے بیٹی کا ذکر پہلے کیا ہے اور بیٹے کا بعد میں کیا ہے – کیوں کہ بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے اور رحمت کے بغیر نعمت کا مزہ نہیں   رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹیوں کے والد کو خوشخبری سناتے ہیں

 

حدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُشَانَةَ الْمُعَافِرِيَّ؛ قَالَ : سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: ” مَنْ كَانَ لَهُ ثَلاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ وَأَطْعَمَهُنَّ وَسَقَاهُنَّ وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ، كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "۔

 

تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ،

 

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :” جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے ، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی’

 

تجب نہ کریں وہ جنت میں جائے گئی

 

ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں ، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی ، اور تیسری کھجور کے (بھی )دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 

تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی

 

رکیں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت کی ڈھائی دینے والو ایک بار سوچیں کہ ہم کیوں ان بیٹیوں کو تا عمر خون کے آنسو رلاتے ہیں  کبھی جہیز کے نام پر تو کبھی ان کے حقوق غضب کرکے تو کبھی ان کی وارثت کو ہڑپ کر کمال یہ کہ اک صاحب ایمان تو مکہ کے ان لوگوں پر تو لعنت کرتا ہے جو بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے پر اپنی صورت سے پیار اس کے باوجود کہ بیٹی کو ماں کی کوکھ میں ہی قتل کردیتا ہے اسے بہار زندگی بھی نہیں اک کو دیکھنے دیتا

 

عمر رسیدہ لوگوں کے لئے منہج نبوی ﷺ

 

عمر رسیدہ  لوگ  جو زندگی کے آخری پڑاؤ پے ہوتے ہیں کا خیال جس قدر اسلام نے کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا

 

ایک سن رسیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہٴ کرام  سے مخاطب ہو کر فرمایا: جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں (ترمذی: ۱۹۱۹ باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہیے ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے

 

خوشخبری

 

ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں، اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا

 

بزرگ کی عزت کا ثمر

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

ما أکرم شاب شیخا لسنه إلا قیض الله له من یکرمه عند سنه.

 

’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔

 

بڑوں کو سلام کریں

 

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے،

 

مختلف زاویوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھا رہے ہیں کہ معاشرے میں ان لوگوں کا خیال رکھا جائے جو عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں میں نے نمونے کے لئے چند ارشادات نبوی عرض کیں یہ ایک سماجی معاملہ ہے کہ عمر رسیدہ لوگوں کی تعظیم و تکریم کی جائے نہیں تو جب ہم اس عمر میں ہوں گئے تو ہمارے ساتھ وہی ہوگا جس کی بنیاد ہم نے رکھی ہوگی آجکل اس مادیت اور اور بے ہودہ سماج کے خود ساختہ مہذب لوگ تو ان بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھلاتے ہیں خواہ کسی سرکاری دفتر میں یا کہ معاشرے کے کسی بھی معاملے میں یا تقریب میں

 

 

راستے کے لئے منہج نبوی ﷺ

 

ہم نے چلنے پھرنے کی جگہوں کو محدود سے محدود کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کیا راہوں میں فضول تعمیرات کا سامان رکھا راہ کو مسدود کیا راہ عام کو بند کیا لوگوں کے چلنے پھرنے کے اسباب منجمد کئے اور اس تمام معاملے میں سب سے آگئے محبان نبی خود کو کہلانے والے ہیں

 

کچھ ہدایات

 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

الإیمان بضع وسبعون شعبة أو بضع وستون شعبة فأفضلھا قول لا إلہ إلا اللہ وأدناھا إماطة الأذی عن الطریق

 

ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اورآخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔

 

راستے کو کشادہ کریں اسے صاف رکھیں رکاوٹ دور کریں

 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنة فی شجرة قطعھا من ظہر الطریق کانت توذی الناس (مسلم)

 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔

 

قال رسول اللّٰہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرة فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنة

 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی ، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔

 

 

راستہ پر بیٹھنے سے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یہ تو ہماری مجلسیں ہیں جہاں ہم بات چیت کرتے ہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستہ کا حق ادا کرو، صحابہ نے دریافت کیا راستہ کا حق کیا ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نظر نیچی رکھو، کسی کو تکلیف مت پہنچاؤ، سلام کا جواب دو، اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو

 

 

زمین ہڑپ کرنے والے

 

ہم زمین  ہڑپ کرنے کے اس قدر عادی کہ ہر جگہ قبضہ مافیا پھیلے ہوئے ہیں راستے کی زمین تک ہڑپنا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں دوسروں کی زمین پر اپنے بلیچہ سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں آئے وہ آئینہ  دیکھیں جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے دیکھایا ہے اور اپنی اصلاح کریں

 

من اخذ شبرا من ارض ظلما طوقہ اللہ یوم القیامة من سبع ارضین (بخاری: ۱۳۲۸)

 

جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ لی تو اللہ قیامت کے دن سات تہہ زمین اس کے گلے میں لٹکائے گا۔

 

من أخذ شیئا من الأرض بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامة إلی سبع أرضین․ (بخاری:۲۴۱۱)

 

جس نے ناحق کسی کی زمین ہڑپ لی تو قیامت کے دن اسے اس کے ساتھ زمین کی سات تہہ تک دھنسا دیا جائے گا

 

 

پانی کے لئے منہج نبوی ﷺ

 

پانی کا ضیاع اب ہماری عادت بن گیا ہے یہی نہیں بلکہ اکثر ندی نالوں کو ہم نے کوڑے کرکٹ  کی آماجگاہ بنے کر پانی کا راستہ روک دیا اور صاف پانی کی آمد و نکاسی کو ناپید کر دیا بہتے چشمے اب زمین سے غائب ہوتے جارہے ہیں اور ان چشموں کو ہم نے بڑی ہی سرعت سے تباہ کردیا اور چشموں سے نکلتے پانی کے قطروں اور ان رب کی عظیم نعمتوں سے ہم اب محروم ہوتے جارہے ہیں بحیثیت مسلمان ہمارے لئے نبوی منہج کیا ہے آئے دیکھتے ہیں احادیث کی روشنی میں

 

’لایمنع فضل الماء ‘‘ ضرورت سے زیادہ پانی دوسروں کو لینے سے نہیں روکا جائے گا‘‘  روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابی سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے، سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! لا تسرف اے سعد اسراف نہ کرو، سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ، فرمایا ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو ،

 

 

ہمسائیگی کے لئے منہج نبوی ﷺ

 

ہمسایہ ہمارے سب سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں  ہمارے پر کیا کیجئے کہ امت نے جہاں اور بہت سی باتوں سے فرار اختیار کیا وہیں ہم نے آپسی بگاڑ اس قدر وضع کئے کہ ایک دوسرے کی عزت ہی کیا ایک دوسرے کی جان بھی نیلام کر دینے کی جرآت کرلیتے ہیں

 

نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہ سَیُوَرِّثُہ “ (بخاری ومسلم) کہ جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اچھا رویہ پیش کرنا اللہ اوراس کے رسول کی محبت کی شرط اور اس کا معیار قرار دیاگیا۔۔

 

ترمذی اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کسی محلے کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔

 

مسند احمد کی ایک روایت میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھانا جائز نہیں جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔

 

کسی شخص کا نیکوکار یا بدکار ہونا اس کے پڑوسی کی گواہی کے ذریعہ معلوم ہوگا۔ ایک شخص نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنی نیکوکاری و بدکاری کو کس طرح معلوم کرسکتاہوں؟ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو تم نے اچھا کام کیا تو تمہارا کام اچھا ہے، اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے تو تمہارا وہ کام برا ہے۔ (ابن ماجہ) ذرا ہم اپنی جانچ تو کرلیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارے لئے ہدایات کیا تھیں

 

یہ نہایت موٴثر اور بلیغ ترین عنوانات ہیں جن کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ شریفانہ رہے کہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بے خوف و خطر رہیں، دل ودماغ کے کسی گوشے میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ کسی طرح کی کوئی فکر دامن گیر نہ رہے۔

 

پڑوسیوں سے محبت و تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں و تحفوں کا لین دین ہے ، سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم خود اپنی بیوی کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اسی بناء پر ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ بھیجوں آپ نے فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (مشکوٰة)

 

ایک ”توکل“ پیشہ صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب تم سالن بناؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کرو، یعنی صرف اپنی لذت کے پیش نظر سالن نہ بناؤ بلکہ ضرورت مند ہمسایوں کا بھی خیال رکھو اور ان کے گھر بھی سالن بھیجو۔

 

ہمسائیگی

 

ہمسائیگی کے تعلق کو مستحکم و خوشگوار رکھنے کے لیے پڑوسیوں کے درمیان کچھ نہ کچھ صدقہ و تحفہ دینے لینے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور اس کے لیے بڑی اور اعلیٰ چیزوں کو مد نظر نہ رکھنا چاہیے بلکہ کوئی تھوڑی وقلیل چیز ہوتو اس کو دینے لینے میں حقارت محسوس نہ کرے حضور صلى الله عليه وسلم نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مسلمان عورتوں کوئی ہمسائی اپنے ہمسائی کے لیے ہدیہ و صدقہ حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کا ایک کھڑہی ہو (بخاری ومسلم)

 

ایک مسلمان کی مروت و شرافت کا یہ تقاضہ نہیں کہ خود راحت اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرے اور اپنے ہمسائے کے رنج و تکلیف اور گھریلو ضروریات کی پرواہ نہ کرے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشاد کے مطابق موٴمن وہ نہیں جو خودشکم سیرہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ اس کے بھوکے ہونے سے باخبر بھی ہو ۔ (رواہ البزار والطبرانی فی الکبیر)

 

 

قطع رحمی اور منہج نبوی ﷺ

 

 

ایک بدعت یہ عام ہوتی جارہی ہے کہ آپسی نزاع اور رسہ کشی کو فروغ دیا جاتا ہے اپنوں سے تعلقات مختلف بہانے تراش کر منقطع کئے جاتے ہیں اور یوں ہم تنہا ہوتے جاتے ہیں اس میں سب سے زیادہ کردار وہ بد زبان اور فتنہ پرور اٹھاتے ہیں جن کی عادت ہی ہوتی ہے کہ لوگوں کے آپس میں ہنگامے ہوتے رہیں اور ان کا خرچہ پانی چلتا رہے تو آئے امت مسلمہ کے پاکباز ساتھیو نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج دیکھتے ہیں اس بارے میں ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

 

اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اِرشاد فرمایا کہ ” میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑکر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)”۔ (بخاری ٥٩٨٩، مسلم ٢٥٥٥، الترغیب والترہیب ٣٨٣٢)

 

نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ ٤٢١١، ترمذی ٢٥١١، الترغیب ٣٨٤٨)

 

ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں۔

 

”فَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ“. (الروم:۳۵)

 

ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں

 

 

․”حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو  زنا کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“

 

آئے محاسبہ کرتے ہیں ان احادیث کی روشنی میں اپنا اپنا کہ ہم کہاں ہیں اور وہ نظام و افکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوئے جن کے ساتھ جینے میں ہمارے لئے دو جہاں کی سعادتیں تھیں پر وائے حسرتا کہ ہم نے منہج نبوی کو بہت پیچھلے چھوڑ دیا انجام کار ہم ایک مغضوب قوم کی صورت میں موجود ہیں اب جہاں میں اور ایک پسماندہ قوم آئے قوم آئے قائد انقلاب مرشد اعظم محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں زندگی کے ہر شعبے میں تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا ہمارے قدموں میں ہوگی اور اسلام کی بہار ہر سو چھائی ہوئی ہوگی اللہ کے فضل سے .

Comments are closed.