Baseerat Online News Portal

سیمانچل، قدرتی آفات، مہانندا بیسن پروجیکٹ اور حکومت کی بےحسی

عبدالغنی
شمال مشرقی بہارکا مقہور ومجبور خطہ سیمانچل آزادی وطن کی ستردہائی بعد بھی جملہ آزمائش و ابتلا کے دور سے گزررہی ہے۔ بحیثیت ملک ہندوستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔جہاں شہریوں کو جملہ حقوق،سہولیات اور مراعات حاصل ہے۔ مگر ملک کے نصف کروڑ سے زائد استحصال کی مار جھیل رہے پریشان حال آبادی کے لئے مرکزی اوریاستی حکومت کے پاس کوئی پالیسی اور کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ووٹ بنک کے طور پہ استعمال ہونے والا حاشیائی خطہ سیمانچل کی پسماندگی اور محرومی کے خاتمہ کے لئے سچ پوچھئے تو آج تک کوئی سنجیدہ پہل ہی نہیں ہوئی ہے۔ تینتالیس اسمبلی حلقہ اور چار پارلیمنٹری حلقہ والاسیمانچل علاقہ سے منتخب ہوکر ہاؤس پیونچنے والے عوامی نمائندگان نے بھی اپنوں کے ساتھ وفا نہیں کیا ہے۔ حکومت کی سطح سے سیمانچل کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ ہمیشہ سے نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس میں علاقائی تعصب اور نمائندگان کی نااہلی کا بھی عمل دخل ہے چونکہ مشاہدہ کی بات ہے منتخب اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ کی ترقی اور فلاح و بہبود سے زیادہ پارٹی کی گائیڈ لائن عزیز تر ہوتی ہے یہی وجہ سیمانچل ہنوز پسماندگی کی مار جھیل رہا ہے صنعت وحرفت سے تہی دست سیمانچل(ارریہ،پورنیہ،کشن گنج اور کٹیہار)قدرتی آفات کی بھی شکار رہی ہے سیلاب اور خشک سالی سے نبرد آزما اس مظلوم علاقہ کی زبوں حالی دیکھ کر وقتی رونا سبھی روتے ہیں مگر آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ زراعت کے لئے زرخیز سمانچل کے کسانوں کے محنت و مشقت پر مہانندا،بکرا،پرمان اور کنکئی ندی کی طغیانی پانی پھیرجاتا ہے ۔سیلاب کے تباہ کاری کی داستان الم ناک ہے جس کی ہلاکت خیزی میں سال 2017 سے اضافہ در اضافہ ہی ہورہا ہے۔ حکومت کی جانب سے راحت رسانی کے نام پہ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ زخم پہ فوہا رکھتی ہے اور اسی کو عظیم خدمات سمجھ لیا جاتا ہے ۔حالانکہ مستقل حل ڈھونڈھنے کی ضرورت ہے جس میں مخلصانہ طور پہ پالیسی سازی اور عملی اقدامات کے لئے پیش رفت ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر پہلے سے ضعیف المرگ سیمانچل کا وجود خطرہ میں پڑجائےگا۔ایک دہائی قبل ندیوں کی غندڈہ گردی کی روک تھام کے لئے مہانندا بیسن پروجیکٹ کا آغاز ہوا تھا۔جس کے عملی نفاذ کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ سیمانچل میں ندیوں کے کٹان اور پانی کے بے تحاشہ اضافہ کو کنٹرول کرکے کام میں لایا جائے گا۔ اس سے جہاں ندی کی چوڑائی کم سے کم ہوتی وہیں قابل کاشت زرخیز زمین بھی پانی سے آزاد ہوجاتا۔ ڈیم کی تعمیر کے بعد ندی کے کٹاؤ سے سیمانچل کے باشندگان کو نجات مل پاتی اور سرچھپانے کے لئے لوگوں کو بار بار آشیانہ کی تعمیر میں روپیہ پیسہ و محنت مزدوری صرف نہیں کرنا پڑتی۔ پروجیکٹ میں ندیوں کو پشتے سے جوڑنے کے بعد سیلاب سے نجات کے علاوہ پانی سے پن بجلی اس کے ساتھ ہی آبپاشی کے ذرائع کو بھی تیار کیا جانا شامل ہے۔اس اسکیم کے تحت ندیوں کے ساتھ ڈیم کے لئے پہلےمرحلے میں زمین حاصل کی جانی تھی۔دوسرے مرحلے میں ڈیم تعمیر کیا جانا تھا۔تیسرے مرحلے میں سیلاب متاثرین اور پناہ گزینوں کے لئے ڈیم اور پشتے تعمیر کیے جانے تھے۔ چوتھے مرحلے میں پی سی سی روڈ کو پشتوں پر تعمیر کیا جانا شامل ہے۔
مگر حیف صد حیف اس پروجیکٹ کی آغاز وانجام بھی ایک معمہ بن گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہانندا بیسن پروجیکٹ سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے جس میں ایک دہائی کے بعد بھی کام کا اتہ پتہ نہیں ہے ۔مگر رقم الاٹمنٹ ہوچکا ہے اور رقم کس مصرف کتنا صرف ہوا اس کی بھی جانکاری کسی کے پاس نہیں ہے۔ حتی منتخب عوامی لیڈران کو پروجیکٹ کے پراسرار معاملات سے دور رکھا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بس اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ مہانندا بیسن کام کے لئے اراضی کے حصول کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔سال 2019 میں بتایا گیا تھا کہ ستر فیصد سے زیادہ اراضی کے حصول کا کام ہوچکا ہے۔ اس منصوبے کو مکمل کرنے کی ذمہ داری حیدرآباد کی بی اے سی پی ایل کمپنی کو سونپی گئی ہے۔ اس کام کا دوسرا مرحلہ کشن گنج کے موجاباڑی پل پر واقع مہانندا ندی کے دونوں کناروں پر اور ٹیڑھا گاچھ میں ریتوا ندی پر ڈیم کی تعمیر سے ہوناتھا مگر ہنوز زمین پہ کوئی کام نہیں ہوسکا ہے سروے کے مرحلہ کے بعد ڈیم کی تعمیر اہم مرحلہ تھا مگر ہنوز پروجیکٹ سرد بستہ میں ہے ۔پروجیکٹ کا دوسرا مرحلہ مارچ 2021 تک دو سال میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سال 2010 کٹیہار میں پہلے مرحلے کے کام کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔اس وقت سے منصوبہ معلق ہے۔ اگست 2017 میں سیمانچل میں کشن گنج ، پورنیہ ، کٹیہار اور ارریہ کے تباہ کاری سیلاب کے بعد حکومت کو مہانند بیسن پروجیکٹ کی یاد آئی اس کے بعد دوسرے مرحلے کے کام کی منظوری دی گئی اور مہانند بیسن پروجیکٹ کے لئے حکومت کی جانب سے 792 کروڑ روپئے جاری کیا گیا تھا۔ قبل ازیں سال 2004 میں مرکز کی یو پی اے حکومت نے اس پروجیکٹ کو منظوری دی تھی مہانند بیسن پروجیکٹ کو پیش کرنے والے اس وقت کے رکن پارلیمنٹ کشن گنج ایم پی اور سابق مرکزی وزیر مملکت داخلہ تسلیم الدین نے سب سے پہلے آواز بلند کی تھی سال 2004 میں مرکز کی یو پی اے حکومت نے آٹھ ندیوں پر مشتمل اس ملٹی پرپز پروجیکٹ کو منظوری دی تھی۔ اس کے لئے اس وقت لگ بھگ 8 سو کروڑ کی تخمینہ کا اندازہ لگایا تھا اس کے بعد پشتے کی تعمیر کے لئے اراضی کے حصول میں خاصی تاخیر ہوئی۔ جس کی وجہ سے پروجیکٹ بھی پیچ درپیچ پھنس کر رہ گیا۔ سال 2010 میں کٹیہار میں پہلے مرحلے کے کام کا سنگ بنیاد بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے ازخود اپنے دست سے رکھا تھا ۔مگر دس آپ دس سال کے طویل عرصہ کے بعد بھی مہانندا بیسن کی عدم تکمیل سے انسانی جان کے تحفظ کے تئیں حکمراں جماعت کی بے حسی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ابھی جبکہ مون سون کی بارش کا آغاز ہوچکا ہے۔ پہلے ہی ہفتہ میں لگاتار پانچ دنوں کی موسلا دھار بارش کے بعد ندیوں میں طغیانی ہے،کھیتوں میں لگی فصل برباد ہورہی ہے اور لوگ ماضی کی بربادی اور حال کے ممکنہ خطرات اور ناگہانی آفت سے سہمے ہوئے ہیں۔ مگر اللہ رے سناٹا کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی پورنیہ کمشنری کے لیجسلیٹیو کاؤنسل کے رکن دلیپ جیسوال کے مطابق مہانندا بیس پروجیکٹ میں کام کام کم اور لوٹ زیادہ ہورہا ہے۔ جس سرزمین کے لئے پروجیکٹ ہے اس کے نمائندگان کو بھی اس سے دور رکھا گیا ہے۔ لہذا محکمہ بے لگام ہے اگر اس کی جانچ کی جائے تو مہانندا بیسن پروجیکٹ میں کروڑوں روپئے کے گھوٹالہ کا پردہ فاش ہوسکتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور استحصال کی وجہ سے سیمانچل کی عوام ہنوز جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہی ہے۔ جس کے لئے آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور وطن عزیز ہندوستان کے ارباب اقتدار کو اپنے اس عضو ناتواں جاں بلب خطہ کو سنبھالا دینے کے لئے مخلصانہ پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوامی بیداری بھی لازمی ہے چونکہ جمہوری ملک میں عوامی مطالبات کے مطابق پالیسی بنتی ہے اور نافذالعمل ہوتا ہے۔

Comments are closed.