Baseerat Online News Portal

شاہین باغ کی طرح پورے ملک سےاُٹھنے لگی آئین وجمہوریت بچانے کی آواز

جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
یہ تو بے پناہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان سیکولر ملک ہے، جمہوری ملک ہے ہمارے ملک کی جمہوریت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے یہاں کے امن وامان اور بھائی چارے کی مثالیں پوری دنیا میں دیجاتی ہیں سیکولر ازم اور جمہوریت ہمارے ملک کی شان ہے، جمہوریت ہی ہندوستان کی خوبصورتی ہے، جمہوریت ہی ہندوستان کی پہچان ہے یہاں کا دستور بھی عظیم الشان ہے، ہر مذاہب کے ماننے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں، ہر ذات برادری سے تعلق رکھنے والے بھی ہندوستان میں پائے جاتے ہیں، مختلف طریقوں سے عبادت، بندگی، بھکتی پوجا پاٹ کرنے والے ہندوستان میں دیکھے جاتے ہیں، مختلف زبانوں میں بات چیت کرتے ہوئے لوگ ہندوستان میں نظر آتے ہیں، کہیں منادر میں گھنٹہ بجتا ہے تو کہیں مساجد میں اذان ہوتی ہے، کہیں گرجا گھروں میں بائبل پڑھے جاتے ہیں تو کہیں گرودواروں میں گرونانک کا لوگ گنگان کرتے ہیں، ہندوستان کو مدارس وخانقاہوں سے بھی سجایا گیا ہے ہمارا ملک ہمیشہ سے صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے اس ملک کی راتیں بھی مختلف تقریبات سے سجائی گئی ہیں تقریر و تحریر اور سبھی مذاہب کی تبلیغ و اشاعت کا حق بھی دستور ہند نے دیا ہے دیوالی پر مٹھائیوں سے تو عید پر سوئیوں سے پورا ملک میٹھا ہوجاتا ہے لوگ سارے گلے شکوے بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور مبارکباد پیش کرتے ہیں خوشی و مسرت، رنج و غم میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں یہی ہمارے ملک کا تانابانا ہے اور اسے ہر حال میں بچانا ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت کی مضبوطی کا ثبوت ہے اور اس ثبوت کو کبھی مٹنے نہیں دینا ہے کیونکہ ملک کی آزادی کی لڑائی میں بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں ہر مذہب کے لوگوں نے ملک کی آزادی میں حصہ لیا ہے 90 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ملک آزاد ہوا ہے تب جاکر ہندوستان کا بہترین دستور مرتب کیا گیا ہے اور اس دستور و جمہوریت کا بلند ترین مینار دنیا کے ہر کونے سے دیکھا جا سکتا ہے ملک میں ہمیشہ اجالا قائم رہے، ملک کا مستقبل سدا روشن رہے اس کے لیے خود علماء، شعراء، ادباء نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور اب ملک کے وقار کو بچانے کیلئے، جمہوریت کو بچانے کیلئے، دستور ہند کو بچانے کیلئے جہاں پورے ملک میں لوگ کمر بستہ ہیں وہیں شاہین باغ، جامعہ ملیہ اور جامع مسجد سر فہرست ہیں شاہین باغ میں خواتین بھی جمہوریت کو بچانے کیلئے پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ جمی ہوئی ہیں سردیوں کے موسم میں بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں جامعہ میں بھی طلبا و طالبات نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے، جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا نے دیں گے، دستور ہند سے کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے لاٹھیاں کھائیں گے ، بندوقوں کی گولیاں کھائیں گے ، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کریں گے لیکن اپنے جرآت و ہمت اور حوصلے کو قائم رکھیں گے اور یہ ثابت کردیں گے کہ ہم یونیورسٹی میں علم حاصل کرتے ہیں تو اس لئے کہ بیوفائی کی جگہ وفاداری، جھوٹ کی جگہ سچائی کا ماحول قائم کرنا پڑے تو ہم تیار ہیں ، ظلم کی مخالفت کرنی پڑے تو ہم تیار ہیں ، ملک کو اور ملک کے دستور کو بچانے کا وقت آئے تو اس کے لئے بھی ہمہ وقت ہم تیار ہیں یہ سب کچھ آخر طلباء کو کیوں کرنا پڑا صرف اس لئے کہ بی جے پی حکومت ملک کے جمہوری نظام سے بھٹک گئی اپنی الگ پہچان قائم کرنے کے لیے جمہوریت کو مٹانے لگی، ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرنے لگی، ملک میں Anrc, Caa, Npr جیسے قانون لاکر مذہبی منافرت کی آگ لگانے کی کوشش کرنے لگی جن کے ووٹوں کی بدولت اقتدار میں آئی انہیں کی شہریت پر شک کرنے لگی اور شہریت ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرنے کے لیے مجبور کرنے والا قانون نافذ کرنے لگی ائین ہند نے عوام کے ساتھ مذہبی بٹوارہ نہیں کیا ہے اور امیت شاہ و نریندر مودی کی قیادت والی حکومت شہریت کے نام پر مذہبی بٹوارہ کرنے لگی اور ملک کے سیکولر مزاج اور انصاف پسند عوام نے حکومت کی نیت کو بھانپ لیا اوراسی وجہ سے احتجاج و مظاہرہ کرنے لگی تو حکومت نے طاقت کے بل پر انصاف پسند عوام کی آواز کو دبانے کا راستہ اختیار کیا تو جامعہ ملیہ، جے این یو کے لوگ بھی تحریک کے میدان میں اترپڑے کہ ہمارے ملک میں ظلم سے حکومت نہیں چلے گی، ناانصافی سے حکومت نہیں چلے گی اور اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر سر پر کفن باندھ کر شاہین باغ میں عورت مرد سب شہریت تر میمی قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے لگے اور پورے ملک میں انکی حمایت کا اعلان ہونے لگا شاہین باغ کی طرز پر لکھنئو، کانپور، الہ آباد، پٹنہ دربھنگہ وغیرہ میں بھی دھرنا دیا جانے لگا تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو موجودہ احتجاج و مظاہرے سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوا ہے ملک میں زبردست بلا تفریق مذہب و ملت اتحاد قائم ہوا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تاناشاہی سے نہیں چلتی بلکہ رواداری سے چلتی ہے اور اب ہندوستان بھر میں یہی نعرہ گونج رہا ہے کہ حکومت وقت اپنے سیاہ قانون کو واپس لے ظلم و ناانصافی کے راستے سے باز آجائے اور جمہوریت کے سانچے میں ڈھلا ہوا نظام کا نفاذ کرے اسی سے ملک و ملت کی بھلائی ہے اور جمہوریت کو بچانا سب کی ذمہ داری ہے اور بی جے پی حکومت یہ جان لے کہ اب احتجاج و مظاہرہ اسی وقت بند بھی ہوگا جب حکومت صحیح فیصلہ لیگی کیونکہ اب عوام بیدار ہو چکی ہے وہ جھانسے میں آنے والی نہیں ہے اور غرور تو بڑے بڑے طاقتوروں کا نہیں چلا ہے تو آج کیسے چلیگا کسی حکومت کے خلاف طلباء کا میدان میں آجانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت نے غلط راستہ اختیار کرلیا ہے اور ظلم و جبر و ناانصافی کے راستے پر چل پڑی ہے لیکن بی جے پی حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عروج ہمیشہ نہیں رہتا ہے ہر کالی رات کو صبح کا سامنا کرنا ہی کرنا ہے اور جمہوریت میں آواز سنی جاتی ہے آواز دبائی نہیں جاتی اور حکومت عدل و انصاف سے چلتی ہے، ہر مذاہب کے ماننے والوں کے احترام سے چلتی ہے خلوص اور محبت و سچائی سے چلتی ہے شاہین باغ سے جمہوریت کو بچانے کی آواز اٌٹھ رہی ہے اور ملک کی نصف آبادی شاہین باغ سے اٹھنے والی آواز حمایت کررہی ہے شاہین باغ، روشن باغ، پھول باغ، سبزی باغ یعنی باغوں میں بہار آگئی ہے اتحاد کا پرچم بلند کرنے کی قومی اتحاد کا ثبوت پیش کرنے کی کل کا خلاصہ یہ ہے کہ شاہین باغ کی طرح اب پورے ملک سے آئین وجمہوریت بچانے کی آواز اٹھنےلگی ۔

Comments are closed.