Baseerat Online News Portal

شب براءت کی حقیقت اور حیثیت

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

*شعبان* کی پندرہویں شب (شب براءت) رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں کی رات ہے ،یہ وہ رات ہے جس میں خود خودائ دینے اور نچھاور کرنے پر آتی ہے، اس رات مانگنے والا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگر عطا کرنے والا ہاتھ بغیر کسی ادنی تھکاوٹ کے پوری فیاضی اور فراخی و دریا دلی کے ساتھ دیتا ہی چلا جاتا ہے ۔

اس رات مغفرت و بخشش اور رحمت و عطا کا سلسلہ سر شام ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا ہے اور بے شمار گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے لیکن حدیث کی رو سے اس رات میں کاہن ،جادو گر، شرابی، والدین کا نافرمان، زانی، حاسد، رشتے توڑنے والا اور ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکائے والا خدا کی بخشش عام سے محروم رہتا ہے ۔ البتہ اگر یہ لوگ اپنے ان گناہوں اور خطاوں سے صدق دل سے توبہ کرلیں تو محروم نہیں رہیں گے اور خدا کی رحمت و مغفرت انہیں اپنی آغوش میں لے لیگی ۔

یہ رات *امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم* کے لئے ایک خصوصی انعام اور تحفہ ہے استاد محترم حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی مدظلہ العالی لکھتے ہیں :

*اللہ تبارک و تعالٰی کے اپنے بندوں پر بے شمار معنوی و مادی انعامات برستے رہتے ہیں جن کا کھلے آنکھوں ہر ہوشمند مشاہدہ کرتا رہتا ہے،معنوی انعامات میں ایک انعام اللہ نے امت محمدیہ پر یہ کیا کہ چونکہ اس کی عمریں کم ہیں اور اللہ کے یہاں اس کے مرتبے بہت بلند ہیں اس لئے عمر کی کمی کی تلافی ایسے بعض خاص لیل و نہار( دن اور رات ) اور ساعتیں دے کر کی کہ ان میں تھوڑی سی مشغولیت بڑے بڑے انعامات کا مستحق بنا دیتی ہے،ان میں ایک ۰۰ لیلة القدر ۰۰ ہے جس کی فضیلت پر پوری ایک سورہ قران مجید میں نازل فرمائ اور جسے ایک ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا، یعنی اس رات میں عبادت کرنے والا ۸۳ سال ۴ ماہ عبادت کرنے سے بھی بہتر ہے ۔ اسی رات کی گویا کسی درجہ میں برابری کرنے والی لیلة البراءة ہے جو شعبان کے مہینہ کی پندرہویں رات ہے جس کی فضیلت پر اگر چہ مشہور تابعی حضرت عکرمہ رح نے سورئہ دخان کی ابتدائ ایت ان انزلناہ فی لیلة مبارکة کا مصداق لیلة البراءة قرار دے کر اہمیت ثابت کی ہے لیکن زیادہ تر علماء ان متعدد احادیث مرفوعہ اور درجنوں صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم اور سینکڑوں تابعین اور ہزاروں علماء کبار و اولیاء اللہ چونکہ اس کی فضیلت پر متفق اور اس کی اہمیت کے قائل ہیں، اس کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بعض حلقوں سے ( جن کی تعداد زیادہ نہیں) بسا اوقات ( خاص طور پر اس رات کے قریبی زمانہ میں ) طرح طرح کے اشکالات و شبہات پیدا کرکے اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی راہ میں روڑے اتکاتے ہیں مگر سنت اللہ ایسے موقع پر ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالی علماء اور صلحاء میں ایسے بہت سے با توفیق افراد کو کھڑا کر دیتا ہے کہ وہ علمی ،فکری اور ذہنی سطح پر ان روڑے اٹکانے والوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور شکوک و شبہات کے چھبنے والے کانٹے نکال دیتے ہیں، فجزاھم اللہ خیر الجزاء*

(پیش لفظ کتاب شب براءت حقیقت، فضیلت اور عمل خیر از مولانا خالد فیصل ندوی کلیت الشریعہ ندوۃ العلماء لکھنئو)

 

*شب براءت* کی فضیلت کے سلسلے میں جو روایات ہیں اگر چہ زیادہ تر ضعیف ہیں لیکن تعدد طرق اور کثرت روایات کی بناء پر ان روایات کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ مقبول اور حسن کے درجہ میں اجاتی ہیں ۔ اس لئے اکابر امت اور علماء نے ان روایات کو قبول فرمایا ہے اور اس کی بنیاد پر اس رات کی فضیلت اور اہمیت کے قائل ہیں ۔

چنانچہ علامہ ابن صلاح رح وغیرہ بعض اکابر محدثین نے لکھا ہے کہ غالبا اس کی کوئ بنیاد ہے ۔ ( معارف الحدیث ۴/۱۷۴) اور مشہور اہل حدیث عالم دین اور ترمذی شریف کے شارح *مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رح* نے فرمایا کہ ۰۰ یہ بات اچھی طرح جان لو کہ پندرہ شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہیں، ان احادیث کے مجموعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس رات کی شرہعت مین اصل اور بنیاد موجود ہے ( تحفة الاحوزی ۳/ ۳۰۲) پھر متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد فرمایا : یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان لوگوں کے خلاف حجت و دلیل ہیں جن کا خیال ہے کہ پندرہ شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ ثابت نہیں ہے ۔ (تحفة الاحوزی ۳/ ۳۰۴)

*یوں* تو تمام ہی رات اور دن مہینے اور سال اپنے اپنے طور پر عند اللہ محترم و مبارک ہیں ۔ لیکن *اللہ تعالی* نے اپنی خاص مصلحت اور اپنی حکمت بالغہ سے کچھ مہینوں، دنوں اور راتوں میں بڑی فضیلت و سعادت خیر و برکت اور دو چند ثواب و بدلہ رکھا ہے ،ان ہی مہینوں میں شعبان کا عظمت والا مہینہ اور بالخصوص اس کی پندرہ تاریخ کی رات اور دن بھی بہت ہی مبارک اور بابرکت ہیں ۔

اس رات کو عربی میں لیلة البراءة اور اردو میں شب براءت کہا جاتا ہے ۔ تفسیر کشاف میں ہے :

یقینا یہ رات برات و نجات کی رات ہے کیوں کہ یہی وہ مبارک رات ہے جس میں خدائے وحدہ لا شریک کی طرف سے مومن بندوں کے لئے پروانئہ نجات لکھا جاتا ہے ۔ ( تفسیر کشاف ۳/۵۰۰ بحوالہ شب براءت حقیقت ،فضیلت اور عمل خیر از خالد فیصل ندوی )

شعبان کی پندرہویں رات کے متعلق یہ بھی آیا ہے کہ اس میں موت و حیات اور رزق کے فیصلے کئے جاتے ہیں چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالی تمام فیصلے (موت وحیات اور رزق وغیرہ کے) شعبان کی پندرہویں رات میں طے کرتے ہیں اور ان فیصلوں کو متعلقہ فرشتوں کے حوالے شب قدر میں کرتے ہیں ۔ (تفسیر بغوی ۱۴۹/۴بحوالہ شب براءت حقیقت، فضیلت اور عمل خیر )

جو لوگ اس رات کی اہمیت کا انکار کرتے ہیں اور جب تک علامہ ناصر الدین البانی اس روایت اور حدیث کو صحیح قرار نہیں دے دیتے تب تک ان کو اطمنان نہیں ہوتا ۔ وہ تقلید کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور مقلدین حضرات سے زیادہ امام ابن تیمیہ رح ابن قیم رح اور البانی رح کی تقلید کرتے ہیں ان کی خدمت میں اس رات کی فضیلت کے حوالے سے حضرت البانی رح کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے دیتے ہیں تاکہ انہیں اطمینان ہوجائے ۔

*امام البانی رح* فرماتے ہیں :

کہ پندرہ شعبان سے متعلق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت سے مختلف طرق سے احادیث مروی ہیں ۔۔۔۔۔۔

۰۰بعض روایتیں بعض کو قوت پہچاتی ہیں ۰۰

۰۰ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات سے متعلق کوئ صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ۔اگر کسی نے یہ بات کہی ہے تو وہ جلد بازی کا نتیجہ ہے ،اور اس نے اس طرح سے احادیث کے طریقوں کی جستجو اور تحقیق نہیں کی ہے جس طرح کی تحقیق آپ کے سامنے ہے ۔ یہ ساری باتیں سلسلة الاحادیث الصحیحة ۴/۳۴۲میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

*علامہ انور شاہ کشمیری رح* نے لکھا ہے کہ بیشک یہ رات شب براءت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات صحیح ہیں ( العرف الشذی / ۱۵۶ بحوالہ شب براءت حقیقت، فضیلت اور عمل خیر )

مولانا مفتی شفیع صاحب رح نے معارف القرآن جلد ۷/صفحہ ۷۵۸ میں لکھا ہے :

کہ۰۰ شب براءت کی فضیلت کی روایات اگر چہ باعتبار سند کے ضعف سے کوئ خالی نہیں ہے لیکن تعدد طرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کر لینے کی گنجائش ہے۰۰ ۔

لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اس رات میں صرف نفلی عبادت تسبیحات و تلاوت استغفار اور کبھی کبھی (بلکل ہر سال ضروری اور فرض سمجھ کر نہیں ) اس رات کے آخری حصے میں انفرادی طور پر جماعت اور گروہ اور جتھہ بناکر نہیں مردوں کے لئے قبرستان جاکر دعائے مغفرت کی جائے ۔

پندرہویں شعبان کا خاص طور پر روزہ رکھنا مستحب اور نفل نہیں ہے اگر کسی کو روزہ رکھنا ہے تو وہ ایام بیض کے روزے رکھے یعنی ۱۳/۱۴/اور ۱۵ کے روزے رکھے ۔ جس روایت سے سے اس دن کے روزے کو نفل اور مستحب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ حدیث محدثین کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے ۔

مولانا منظور صاحب نعمانی رح لکھتے ہیں کہ

لیکن محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف قسم کی ہے اس کے ایک راوی ابو بکر بن عبد اللہ کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا ( معارف الحدیث ۴/ ۳۸۹)

الغرض احادیث سے ماہ شعبان کے جو خصوصی اعمال ثابت ہیں بس وہی قابل عمل ہیں اس کے علاوہ ہم جن بہت سی باتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کو شریعت کا حصہ سمجھتے ہیں ان کی کوئ حقیقت نہیں ہے ۔ بندئہ مومن کا کام یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام کو بس سمھجے اور باقی کو ہوس ۔

لہذا علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ شب براءت کی اہمیت اور اس رات کی فضیلت بتائیں اس سے کہیں زیادہ اس کے خرافات و منکرات اور بدعات و رسم و رواج پر نکیر کریں اور اس پر قدغن لگائیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک نفلی چیز کے پیچھے بہت سے منکرات جنم لے لیں اور یقینا جنم لے چکے ہیں اس لئے اس پہلو پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔

*آج* سے بیس تیس سال پہلے شب براءت کے سلسلہ میں اختلافات کم تھے اور عوام( لوگ) شک و شبہ میں زیادہ مبتلا نہ تھی ہر سال یہ شب لوگوں کے لیے شب بیداری کا پیغام لے کر آتی اور امت تلاوت و عبادت میں اس رات کو خصوصی طور پر گزارتی اور جس کو توفیق ملتی وہ قبرستان جاکر مرحومین کے لیے ایصال ثواب کرتی ۔ مجھے اپنے بچپنے سے یہ چیز دیکھنے میں آئی ۔ ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بڑی تعداد اس رات رسم و رواج اور بدعات و خرافات میں مبتلا رہی اور ہے ۔

اب حالت یہ ہے کہ امت اس بارے میں افراط و تفریط میں مبتلا نظر آتی ہے جہاں ایک طبقہ نے اس رات کے بارے میں شریعت کی حد سے بڑھ کر بہت سے رسم و رواج کو اس میں شامل کر دیا ہے اور اس رات میں اپنی طرف سے کچھ عبادت خاص کر لیا ہے وہیں ایک طبقہ سرے سے اس رات کی فضیلت کا منکر ہے وہ اس رات جگنے اور عبادت کرنے کو بدعت قرار دیتا ہے ۔ اور غلط افکار و خیالات سے متاثر ہوکر شب براءت کا کھلم کھلا انکار کرتا ہے ۔

گزشتہ پیغام میں بھی راقم نے اس جانب اشارہ کیا تھا اور اس جانب توجہ دلائ تھی کہ شب برات کے سلسلہ متعدد روایات موجود ہیں اور بعض روایات درجہ حسن تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ اس بارے میں جملہ روایات تقریبا پندرہ سے زیادہ صحابئہ کرام سے روایت ہیں ان میں سے اکثر اگر چہ انفرادی حیثیت سے سندا متکلم فیہ ہیں لیکن بحیثیت مجموعی وہ حسن اور مقبول کے درجہ میں ہیں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سب بے اصل ہیں ۔ اس لئے یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ شب برات کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے ہاں اس رات میں کوئ مخصوص عبادت ثابت نہیں ہے ۔ جس کو جیسی عبادت کی توفیق مل جائے تلاوت اور ذکر کی صورت میں وہ کر لے لیکن اس کا التزام فرض اور واجب کی طرح کرنا یا اس کا درجہ اس کے برابر دینا صحیح نہیں ہے ۔

جو لوگ شب برات سے متعلق احادیث کو کمزور اور ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس بنیاد پر شب برات کی اہمیت کا انکار کرتے ہیں انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث کی اصولا تین قسمیں ہیں صحیح ۔ حسن ضعیف پہلی دو قسمیں تو تقریبا ہر باب میں قابل قبول اور لائق استناد ہیں۔ لیکن تیسری قسم ضعیف کو محدثین چند شرائط کے ساتھ صرف فضائل کے باب میں معتبر مانتے ہیں شب برات کی فضیلت و اہمیت کا تعلق فضائل ہی کے باب سے ہے ۔ احکام سے نہیں، ملا علی قاری شب برات سے متعلق حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد لکھتے ہیں : لکن یعمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال باتفاق العلماء (مرقاة ۲/ ۱۷۲ )

علماء کا اس بات اتفاق پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کی گنجائش ہے ۔

علماء حدیث کا اصول ہے کہ ایک ضعیف روایت اگر متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہو تو حسن لغیرہ بن جاتی ہے اور اس پر عمل کرنا مخصوص حالات و احوال کو چھوڑ کر محدثین کے نزدیک جائز اور درست ہے ۔ شب براءت سے متعلق احادیث و روایات کا یہی حال ہے کہ وہ جامع ترمذی سنن ابن ماجہ مسند بزار اور بیہقی میں مختلف سندوں سے مروی ہیں اس لئے ان پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور شب براءت کو بدعت کہنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ۔

اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی ضعیف روایت کی تائید امت کے تعامل سے ہوتی ہو اور مسلمان اس پر شروع سے ہی عمل کرتے آئے ہوں تو مزید قوت آجاتی ہے اور اسے رد کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ۔

اس رات میں صحابئہ کرام اور تابعین سے عبادت کرنا مضبوط روایات سے ثابت ہے علماء نے اس کی تحقیق کی ہے اور اپنی کتابوں میں دلائل کے ساتھ اس کو درج کیا ہے ۔

 

غرض یہ رات مقدس اور رحمت و مغفرت والی رات ہے اللہ تعالی کے لطف و کرم کی دولت تو ہر رات کو لٹتی ہے اس رات زیادہ لٹے گی ۔ رب کریم کی رحمتوں اور عنایتوں کا نزول تو ہر رات ہو ہوتا ہے اس مقدس سب میں اور زیادہ ہوگا ۔ یہ رات عبادتوں مناجاتوں اور دعاؤں کی خصوصی رات ہے ۔ اس رات میں بہت کچھ فیصلے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ گزشتہ پیغام میں کیا جاچکا ہے ۔

Comments are closed.