Baseerat Online News Portal

شب برأت کی فضیلت واہمیت

مفتی محمدشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجدانوار،شیواجی نگر،گوونڈی ممبئی
کائنات اور اس کے اندر ساری چیزیں اس ایک لامحدود اور عظیم ہستی کی مشیت سے وجود میں آئی ہیں جو ازل سے ہے’اور ابد تک رہے گی ،وہی آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام مخلوقات کی خالق ہے’، یہ بالکل منطقی بات ہے کہ ہر خالق کو اپنی مخلوق سے محبت ہوتی ہے’، ایک انسان مٹی کا گھروندا تیار کرتا ہے’اس بے حیثیت گھروندے سے بھی اسے اس قدر محبت ہوتی ہے’کہ اس کے بکھرنے پر وہ رنجیدہ ہوجاتا ہے’، ایک موجد کبھی نہیں چاہتا ہے’کہ اس کی مصنوعات کی اہمیت ملک وسماج میں معدوم یا کم ازکم کمتر یا بے حیثیت ہوجائے،
کائنات یا گلیکسی میں انسان جو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز ہے’خدا وند عالم اور حقیقی خالق کے نزدیک اس کی کس قدر اہمیت ہے’اور کتنی عظمت ہے’مذکورہ مثالوں سے بڑی آسانی سےسمجھا جاسکتاہے، رب دوجہاں کی انسانی مخلوق سے محبت ہی کا یہ کرشمہ ہے’کہ اس نے کائنات کی ساری اشیاء کو اس کا خادم اور انسان کو اس کا مخدوم بنا دیا ہے، خلاق عالم کی بے پناہ رحمتوں ہی کا یہ اثر ہے کہ اس نے اپنے محبوب پیغمبر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے پوری انسانیت کو اپنا کنبہ اور خاندان قرار دیا ہے اور انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کو اپنے قرب کا راستہ اور منزل قرار دیا ہے۔

پروردگار عالم نے ابدی زندگی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے دنیائے انسانیت کو انتہا ئی جامع، عالم گیر، مضبوط اور بے غبار نظام حیات عطا کیا جس کی روشنی میں وہ دنیا کا کامیاب سفر طے کرکے آخرت کی منزلوں کو روشن کر لے ، اس کامیابی اور سرخروئی کے لئے اس نے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات اور انہیں کے ذریعے قران کریم کی شکل میں جامع دستور عطا کیا وہیں زمان ومکان میں اپنی خصوصی رحمتوں کی بارش کرکے انہیں بابرکت بنا کر، اپنی خاص توجہات کی شعاعوں سے آراستہ کرکے انسانی کرداروں کی بلندی کی وسیع شاہراہیں بھی ہموار کردی ہیں ،خطہ ارض پر اس کی عبادتیں کہیں بھی انجام دی جاسکتی ہیں مگر مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں عبادتوں کا جو مرتبہ ہے وہ اور مساجد کے حصے میں کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح اوقات،لمحات اور زمانوں میں بھی کچھ لمحے ایسے ہیں جو تجلیات ربانی سے معمور ہیں،کچھ ساعتیں اس قدر بلند مرتبت ہیں کہ رحمت الہی کا دریا اس میں جوش میں ہوتا ہے’،کچھ گھڑیاں اس قدر اہمیت کی حامل ہیں کہ خداوند متعال نے اپنے جود وسخا اور کرم نوازی کے لئے انہیں مخصوص کردیا ہے’، کہ ان لمحات میں اپنے مقصد سے منحرف انسان اپنے اصل مقصد کی معرفت حاصل کرلے جس کے لیے اس کی تخلیق عمل میں آئی ہے، اپنی اس خودی کو پہچان لے،جس میں مالک دوجہاں کی دریافت کا راز چھپا ہوا ہے۔

زندگی اور اس کی حقیقتوں کا ادراک کرکے خدا کی عظمتوں کو دریافت کرلے، اپنی سرکشی سے تائب ہوکر اس بارگاہ عزوجل میں اپنے سر کو جھکا کر اس در سے وفاداری کا تجدیدِ عہد کرلے، اس کی زندگی میں اطاعت خداوندی جو انسان کا مطلوب ہے اگر وہ’اخلاص کے ساتھ موجود ہے تو اس کیفیت اور عمل کے ارتقاء پر عزم کرے اور اگر سفر حیات حطام دنیا کی طرف ہے’اور مادیت کی شاہراہ پر ہے’تو روحانیت کی طرف پلٹے اور قربت الہی اور مخصوص ربانی عنایات کے دائرے میں اپنی مختصر سی زندگی کو داخل کرے تاکہ دنیا کے ساتھ اس کی آخرت جو حقیقت میں اصل زندگی ہے’آباد اور خوشگوار رہے،

رمضان المبارک کی روحانی بہاریں، شب قدر کی نورانی وایمان افروز راتیں، نور و نکہت میں نہائی ہوئی چاند راتوں کے اوقات، عید الفطر وعید الاضحی کی پر مسرت اور جاں نواز گھڑیاں، عشرہ ذی الحجہ کی مبارک ساعتیں، عشرہ محرم الحرام کے بابرکت زمانے ، یوم عرفہ کے مقدس لمحات ، درحقیقت اسی رب کریم کی مخصوص کرم نوازی اور گراں مایہ انعام ہے’ جو کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندوں میں سے کوئی حقیقی زندگی میں ناکام ونامراد رہے،

انہیں مقدس اور محترم ساعتوں میں سے ایک گھڑی شعبان المعظم کی پندرہویں رات بھی ہے’ جس میں خداوند عالم کی رحمتیں موسلادھار بارشوں کی طرح برس کر انسانوں کے وجود کو مادہ پرستی اور دیگر مختلف قسم کی معصتوں اور گناہوں کی گندگیوں سے صاف کرجاتی ہیں، جس میں تجلیات الہی عرش الہی سے اتر کر سماء دنیا پر آجاتی ہے’اور کرم نوازی کے دہانے کھول کر خود رحمتوں کے سائبان میں آنے کے لئےبھٹکے ہوؤں کو مسلسل آواز دیتی ہے’، جس میں عام دنوں کے برعکس توبہ کی قبولیت کے لئے آسمان کے دروازوں کو نہ صرف کھول دیا جاتا ہے بلکہ سرکشوں،نافرمانوں اور گنہگاروں کو ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے صبح تک منادی کرائی جاتی ہے’، اس میں رزق مانگنے والوں کو رزق دیا جاتا ہے، مغفرت طلب کرنے والوں کو مغفرت کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے ،

یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں امت مسلمہ کی اکثریت نے اس شب مبارک میں عبادتوں کا اہتمام کیا ہے، رب العالمین کی بارگاہ میں مناجات کے لئے اسے قیمتی ذریعہ جانا ہے’، اس لمحے کو نیکیوں اور دوسرے غیر متعینہ اعمال صالحہ کے لئے غنیمت قرار دیا ہے، متعدد اصحاب کرام سے لیکر تابعین تک اور ائمہ اربعہ سے لیکر جمہور محدثین اور شاہراہ تزکیہ واحسان کے جلیل القدر اصحاب روحانیت تک ہر ایک نے اس کی فضیلت اور عظمت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس میں عبادت وریاضت کے ذریعے مخصوص عنایات ربانی سے فیض بھی حاصل کیا ہے’۔۔

بدقسمتی سے اس زمانے میں اس رات کی فضیلت اور عدم افضلیت سے متعلق افراط و تفریط کا نظریہ پیدا ہوگیا ہے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں طرف شدت پسندی اور انتہا پسندی پائی جاتی ہے ایک طرف اس رات کی بزرگی اور برتری کے اثبات کے لئے اس قدر غلو کیا گیا کہ اس کی حقیقت وحیثیت اور اس کی اصل شکل وصورت خود ساختہ رسوم و رواج کے گرد وغبار میں بالکل چھپ گئی، اس کی اصل تعلیمات پر خرافات کا پردہ پڑ گیا، خانہ ساز اعمال کی تاریکیوں میں اس کی حقیقی صورت مسخ ہوکر رہ گئی، موضوع روایات پر عمل حقیقت اور اصل تعلیمات محو ہو گئیں، بے بنیاد افعال اس کا مرکزی حصہ بن گئے،فرضی احکامات مثلاً مخصوص سورتوں کے ساتھ سو رکعت نماز، قل ھو اللہ احد کی سورۃ کے ساتھ بارہ رکعت نماز کا اہتمام، قبروں پر میلہ لگانا، حلوہ ملیدہ کا اہتمام کرنا، مساجد اور گھروں میں بے تحاشا لائٹوں اور قمقموں کی تزئین و آرائش کرنا، انواع واقسام کے ڈیکوریشن کرنا، لمبی چوڑی اور پر تکلف دعوتوں کا انتظام کرنا ، شربتوں اور دیگر مشروبات کا قبرستانوں میں انتظام کرنا، نعتیہ اور دیگر محافل کا انعقاد کرنا، عورتوں کا بے محابا ان محفلوں میں شریک ہونا، اس نظریے پر ایمان رکھنا کہ اس رات میں دنیا سے جانے والے تمام انسان عالم برزخ سے اپنے اپنے گھروں میں آتے ہیں اس لیے ان کے استقبال کے لئے گھروں کی آرائش کرنا اور اس کے علاوہ دیگر رسوم ورواج جن کا اسلام سے ذرا بھی تعلق نہیں ہے’، ان جاہلانہ تصورات کے باعث یہ عظیم اور بابرکت رات محض تفریح اور سیر سپاٹا اور عیاشی کی رات بن کر رہ گئی ہے’، عام نوجوان نسل میں یہ تصور راسخ ہے’کہ یہ شب جاگنے کی ہے’ اس میں جس قدر چاہے رنگ رلیاں منا لی جائیں ۔اسی خیال کے تحت شہروں اور آبادیوں میں ملت کی نوجوان نسل موٹر سائیکلوں کو لیکر شہر کی شاہراہوں پر نکل پڑتی ہے اور پوری رات ریسنگ کرتی ہے’، مسلمانوں کے پٹاخوں سے پہلجڑیوں سے پوری فضا پر شور رہتی ہے’، ہوٹلیں اور چائے خانے پوری رات آباد رہتے ہیں، غرض اسلامی تعلیمات کے علاوہ ہر وہ رسم اس رات پورے تزک و احتشام سے انجام پاتی ہے’ جو شریعت کے ساتھ ساتھ انسانی اخلاق سے بھی متصادم ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ رات حقیقت میں برکت کا ذریعہ نہیں بلکہ محرومی کا سبب ہے’کہ غیر شرعی اعمال وافعال کے باعث یہ رات آتی ہے’اور اربوں روپے کا سرمایہ لمحوں میں تلف کرکے رخصت ہوجاتی ہے’۔۔۔۔

اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نظریات کے لحاظ سے بالکل دوسری انتہا پر ہے’،اس نے رد عمل کے جذبات کے زیر اثر بدعات کی بیخ کنی اور اس کی تردید کے خمار میں ان مسلمات کا بھی انکار کرڈالا جو فرامینِ رسول سے پوری صراحت کے ثابت ہیں جن پر زمانہ قدیم سے امت کا تعامل رہا ہے’، جن کی ہر دور کے علماء ومحدثین اور مشائخ کے نزدیک ایک روشن حقیقت رہی ہے’، یعنی اس رات کی فضیلت،اس کی عظمت اور اس میں غیر متعینہ عبادات واوراد ووظائف اور خدا کی یاد میں شب بیداری، انفرادی ریاضات وغیرہ۔

اس جماعت نے سرے سے اس رات کی خصوصیات اور اس کی عظمتوں اور اس کی برکتوں کا انکار کرکے اسلام کی اصل تعلیمات پر اپنے نفس کا تیشہ چلا ڈالا،اس مقصد کے لیے اس نے ان تمام روایات کو کنڈم کردیا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور احادیث کے مختلف ذخیروں میں بکھری ہوئی ہیں، شب برات کی اہمیت پر کم از کم سترہ صحابہ کرام سے حدیثیں مروی ہیں اس میں شک نہیں کہ بہت سی حدیثیں ضعیف ہیں مگر اس سچ کا انکار قطعا ممکن نہیں ہے’کہ متعدد روایتیں ایسی ہیں جو اپنی صحت کی وجہ سے قابلِ استدلال اور حجت ہیں، فن حدیث کا یہ مسلمہ اصول ہے’کہ اگر ایک مضمون کی متعدد روایات سند کے لحاظ سے کمزور بھی ہوں تو اثبات مدعا میں کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ دوسری روایتوں کی وجہ سے ان میں تقویت آجاتی ہے اور اس طرح یہ بھی قابل حجت ہو جایا کرتی ہیں۔

ماضی قریب کے ممتاز عالم دین اور رئیس القلم حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رح نے تفریط کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے،، اور تفریط یہ ہے’کہ بعض لوگ شب برات کے تقدس اور اہمیت کا سرے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے’کہ یہ ایک بے اصل چیز ہے کسی صحیح حدیث سے اس کا ثبوت نہیں بعض حلقوں میں شعبان آتے ہی کچھ لوگ علم کا نام لگا کر اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں مسلمانوں کے اندر خاص خاص اوقات مبارکہ میں عبادت و دعا کا تھوڑا سا جذبہ جو پیدا ہوتا ہے اسے بھی یہ لوگ فنا کردیتے ہیں حالانکہ کبھی کبھی یہی جذبہ انہیں عبادت کی جانب مستقلاً کھینچ لاتا ہے’۔

لیکن جیسے افراط غلط ہے تفریط بھی غلط ہے شب برأت کا تقدس اور اس کی اہمیت ایک معروف ومشہور چیز ہے جس کا لحاظ امت نے ہر دور میں کیا ہے اور یہ کہنا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں یا یہ ایک بے اصل چیز ہے ناواقفیت یا گمراہی کی وجہ سے ہے۔(شب برأت کی شرعی حیثیت ص20)
اس سلسلے میں حضرت مولانا نے حدیث کے جو رہنما اصول ہیں اور فرامینِ رسول کے اعتبار وعدم اعتبار سے متعلق جو ہدایات ہیں،ان پر عمل کے حوالے سے جو فنی اور سسٹمیٹک رہنمائی ہے’بڑے واضح انداز میں بیان کردی ہے اس طرح کہ ایک ایسا شخص جس کے ذہن میں پہلے سے کوئی نظریہ یا خیال موجود نہ ہو تو اس کے سامنے حقیقت کا راستہ بالکل کھل جائے گا تین قاعدوں اور سسٹم میں سمٹی ہوئی یہ رہنمائی ان الفاظ میں ہے’،،(1) اول یہ کہ اگر امت کا تعامل کسی کام پر رہا ہے یعنی ہر زمانے میں علما نے اسے بغیر انکار کے اختیار کیا ہو اور اس پر ان کا عمل رہا ہو تو یہ خود ایک دلیل ہے اس کے صحیح اور قوی ہونے کی،اگر اس عمل کے لئے کوئی صحیح حدیث نہ ہو ،ضعیف حدیث ہو بشرطیکہ موضوع نہ ہو تو وہ حدیث اس تعامل کی وجہ سے قوی ہو جائے گی۔
علامہ سخاوی فتح المغیث صفحہ نمبر 140/میں لکھتے ہیں،، ایسے ہی جب کسی ضعیف حدیث کو امت عام طور پر قبول کرلیتی ہے۔۔تواس پر صحیح قول یہی ہے کہ۔۔۔۔۔۔عمل کرنا درست ہے اور وہ بمنزلہ متواتر کے ہوجاتی ہے جس سے قطعیات کو بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے،،(2) دوسرے یہ کہ اگر کوئی ضعیف حدیث متعدد طرق سے مروی ہو یا اس کا مضمون متعدد حدیثوں میں وارد ہوا ہو تو کبھی وہ حسن کے درجے میں آجاتی ہے اور کبھی وہ روایت تو نہیں مگر اس کا مضمون درست قرار دیا جاتا ہے اور اتنی بات تو ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ مضمون بے اصل نہیں ہے۔
(3) تیسرے یہ کہ احکام میں ضعیف حدیث کو نظر انداز کیا جاتا ہے فضائل میں اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث بشرطیکہ شدید الضعف نہ ہو قبول کی جاتی ہے'(مصدر بالا صفحہ 20) اس مسلمہ قواعد اور اصول کی روشنی میں یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ شب برات کی فضیلت میں جو احادیث وارد ہیں وہ اگر بالفرض کمزور بھی ہوں تب بھی لائق اعتنا ہیں انہیں نظر انداز کرنا اور سرے سے ان کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا نفس کی اطاعت تو ہوسکتی ہے اسلام کی نہیں۔۔۔۔۔اور یہاں تو متعدد احادیث وہ ہیں جو سند اور متن ہر لحاظ سے کم ازکم حسن کے درجہ میں ضرور ہیں۔
ذیل میں ہم ان تمام روایات کو ذکر کریں گے تاکہ اس رات کی حیثیت اوراس کی فضیلت بالکل عیاں اور بے غبار ہوجائے اور اسی کے ساتھ ساتھ دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال کا تیسرا راستہ بھی واضح ہوجائے۔
(1) حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوق کی طرف جھانکتا ہے اور مشرک اور ناحق کسی سے دشمنی رکھنے والے کے علاوہ سب کو بخش دیتا ہے (اس روایت کو طبرانی،ابن حبان، نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے’ حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد نمبر 8ص65/میں ذکر کیا ہے’اور صراحت کی ہے کہ طبرانی نے اس کے تمام راویوں کی توثیق کی ہے’۔
(2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور تمام بندوں کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے اس شخص کے جو مشرک ہو یا اپنے بھائی سے بلا وجہ دشمنی رکھتا ہو ( مجمع الزوائد جلد نمبر 8, اس روایت کو امام بزاز اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے امام منذری کہتے ہیں اس کی سند میں کسی قسم کا سقم نہیں ہے اور قابل حجت ہے،تحفۃ الاحوذی ج 3/ص441)

(3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات میں اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ناحق دشمنی کرنے والے اور قاتل کے علاوہ تمام لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں (مسند احمد جلد نمبر 2/صفحہ 176 ،مجمع الزوائد جلد نمبر 8ص 65، اس روایت کو علامہ ناصرالدین البانی نے صحیح قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ جلد نمبر 3)
(4) حضرت کثیر بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پندرہ شعبان کی شب میں اللہ عزوجل زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور بغیر کسی شرعی وجہ سے عداوت رکھنے والے کے ( اخرجہ البیہقی وقال ھذا مرسل جید،التحفہ جلد نمبر 3/ص442 مزید یہ کہ اس روایت کو امام عبدالرزاق نے بھی مصنف میں ذکر کیا ہے اس کے حاشیہ میں محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نے فرمایا کہ اخرجہ ابن حبان من حدیث مکحول عن مالک بن یخامر عن معاذ بن جبل مرفوعاً۔
اس حدیث کو امام ابن حبان نے بھی نقل کیا ہے اس میں مکحول۔مالک بن یخامر کے حوالے سے حضرت معاذ بن جبل سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں ملاحظہ ہو صحیح ابن حبان صفحہ 486/ گویا اس طریق سے یہ روایت مرسل نہیں بلکہ متصل ہے ،، شب برأت کی شرعی حیثیت ص نمبر 25)

(5) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پایا تو آپ کی تلاش میں میں باہر نکلی آپ بقیع میں تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟
میں نے عرض کیا یا رسول میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات سماء دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، اس رات میں بے شمار افراد کو بخشش کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے مگر مشرک،کینہ پرور،قطع رحمی کرنے والے، متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے والے،والدین کی نافرمانی کرنے والے اور مے نوشی یعنی شراب پینے والے پر اس کی نگاہ رحمت نہیں ہوتی اور اس رات بھی محروم رہتے ہیں (مسند احمد جلد نمبر 6/238 رقم الحدیث 26771 ترمذی رقم الحدیث 744 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1452/بیھقی فی شعب الایمان رقم الحدیث 3667 بیہقی نے اس روایت کو مرسل جید میں شمار کیا ہے مرعاۃ جلد نمبر 4/ص 341)اس روایت کو ترمذی نے ہرچند امام بخاری کے حوالے سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن متعدد سندوں سے یہ روایت آئی ہے’یہی وجہ ہے کہ علامہ ناصرالدین البانی نے کہا ہے،،یہ حدیث تمام طرق کی وجہ سے بلا شبہ صحیح ہے حدیث کی صحت تو اس سے کم درجہ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جب کہ اس میں شدید ضعف نہ پایا جائے جیسا کہ یہ حدیث سلسلۃ الاحادیث جلد نمبر 3/ص138)
(6) حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات میں تمام بندوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4153بیہفی فی شعب الایمان رقم الحدیث 3674/ )
(7) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو رات میں نمازیں ادا کرو اور دن میں روزے رکھو اس لیے کہ اس رات غروب آفتاب کے وقت اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور منادی ہوتی ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اسے بخش دیا جائے،ہے کوئی رزق کا طلبگار کہ اسے رزق سے نواز دیا جائے،ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اسے عافیت عطا کردی جائے،ہے کوئی ایسا،ہے کوئی جاجت مند؟یہاں تک کہ صبحِ صادق تک مسلسل یہ صدا آتی رہتی ہے (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1451/شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 3664)
اس روایت کو امام ابن جوزی نے موضوع قرار دیا ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات کے قبیل سے شمار کرکے تشدد سے کام لیا ہے اور دلیل میں سوائے حضرت امام احمد کے قول اور عبیس کی تضعیف کے اور کچھ ذکر نہیں کیا لیکن یہ بات اس کے موضوع ہونے کو مقتضی نہیں ہے محدث جلیل حضرت علامہ اعظمی کہتے ہیں کہ،،محض اس بنیاد پر کہ سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہے جو حدیثیں بناتا تھا کسی حدیث کو موضوع کہ دینا جائز نہیں ہے اس سے تو بس اتنا لازم آئے گا کہ حدیث سنداً ضعیف ہے یہی وجہ ہے کہ جن حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشاندھی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا صاحب تحفہ نے اس حدیث کو ان تمام احادیث میں شامل کرکے پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت میں حجت قرار دیتے ہیں (شب برأت کی شرعی حیثیت ص 8)
اس کے علاوہ اسی مضمون پر مشتمل حضرت ابو ثعلبہ سے بیہقی جلد نمبر 3 صفحہ 382،حضرت ابوھریرہ سے مسند بزاز اور مجمع الزوائد جلد ا8/میں، حضرت مغیرہ بن اخنس سے تفسیر ابن کثیر جلد نمبر 4میں ، عطا ابن یسار سے مصنف عبدالرزاق ج4/ص317میں روایات موجود ہیں۔اس قدر صراحت کے ساتھ روایات کے باوجود اس رات کی فضیلت سے انکار کی جسارت یقینا اسلامی تعلیمات سے بے خبری یا مخصوص نفسانی نظریے پر عمل کا کھلا ثبوت ہے، اس حقیقت کا اعتراف عام اعتدال پسند علماء ومشائخ کے علاوہ ان حضرات نے بھی اس کی فضیلت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے جو اس حوالے سے متشدد مانے جاتے ہیں چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں،،شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت میں متعدد احادیث وآثار وارد ہیں اور سلف کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس رات میں نمازیں پڑھا کرتے تھے تو اگر لوگ تنہا تنہا اس رات میں نماز پڑھیں تو ان کے لئے پچھلے زمانے میں نمونہ موجود ہے اور ان کے لئے اس میں دلیل موجود ہے اس لیے اس جیسے عمل کا انکار نہیں کیا جا سکتا (فتاویٰ ابن تیمیہ ج23ص132)

حضرت علامہ ابن الحاج مالکی اس شب کے متعلق لکھتے ہیں،،بلاشبہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ کے نزدیک عظمت والی ہے ہمارے اسلاف ہمیشہ اس کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے اور جب یہ رات آجاتی تو اس کو حاصل کرنے،اس کے تقدس اس کے احترام کا مکمل اہتمام کرتے (المدخل جلد نمبر 1/ص292)
مشہور محدث حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے اس شب کے متعلق تمام روایات کو جمع کرکے آخر میں انہیں روایت کی روشنی میں اس کی فضیلت کو ثابت کیا ہے’چنانچہ فرماتے ہیں،،یہ احادیث مبارکہ اپنے مجموعے کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو اس نظریے کے حا ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے (تحفۃ الاحوذی جلد نمبر 2 صفحہ 53) اس حوالے سے احتیاط میں حد سے زیادہ شدت اختیار کرنے والی ماضی قریب کی عرب دنیا کی شخصیت مشہور محقق علامہ ابن عثیمین نے بھی اس شب کی فضیلت اس کی خصوصیات اور ماضی اس رات میں میں اسلاف کے اہتمام کا اعتراف کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں،،بعض تابعین سے اس موقع پر نماز اور ذکروفکر کی صورت میں شب بیداری کا ثبوت ملتا ہے (فتاویٰ برائے خواتین صفحہ 56)

حاصل یہ کہ یہ تمام روایات اور محدثین کے اقوال ان کی تشریحات بتاتی ہیں شعبان کی پندرہویں رات عام راتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ متعدد خصوصیات کے ساتھ متصف ہے’،خداوندعالم کی رحمتوں کی خاص مورد ہے’، شریعت کی نگاہ میں انتہائی محترم اور مقدس ہے’، سعادت مند ہیں وہ روحیں جنہیں ان لمحات میں عبادت وریاضت کی توفیق میسر ہوجائے، خوش بخت ہیں وہ زندگیاں جو ذکر ومناجات کے ذریعے فیضان خداوندی سے مستفیض ہوجائیں، خوش قسمت ہیں وہ لوگ تلاوت قرآن اور نمازوں کے ذریعے معبود حقیقی کا جو قرب حاصل کرلیں، یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تمام پر فضیلتوں کے باوجود اس شب میں اجتماعی طور سے کسی عبادت کا تصور نہیں پایا جاتا ہے،جو کچھ اہتمام کے حوالے سے منقول ہے وہ انفرادی صورت میں ہے’،یوں بھی شریعت کا مزاج نوافل سے متعلق یہی ہے’کہ وہ بالکل تنہا ادا کی جائیں، مجمع عام یا جہاں بھی نمائش کا اندیشہ ہو احتراز ہی میں عافیت ہے’ تاکہ عبد اور معبود کے درمیان کسی اور مخلوق کے خلل کا اندیشہ نہ رہے،

اس وقت پورا ملک ایمرجنسی کی حالت میں ہے،ایک وائرس کے خوف سے پوری دنیا حالت ارتعاش میں ہے’، بھارت کا ماحول بھی لرزہ خیز ہے’، اس مہلک اور تباہ کن کرونا نامی وائرس کے دفاع میں حکومت نے لاک ڈاؤن کرکے تمام نقل و حرکت کو محصور کردیا ہے،زندگی کی رفتار تھم چکی ہے’،انتظامات تو اس سے کچھ نہیں ہوسکے ہاں مدارس مساجد اور دیگر عبادت گاہوں پر پابندی عائد کردی گئی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ایک ہلکے سے جھٹکے جس کے آگے دنیا کے جدید ترین وسائل اور مشینریاں فیل ہو گئیں،ساری دنیا کی حکومتیں جس کے تحفظ میں حد سے زیادہ انتظامات کرکے ملک وقوم کے تئیں بے مثال سنجیدگی کا مظاہرہ کیا،ایسے نازک حالات میں بھی اس ملک میں اس وائرس کے معاملے کو بھی سیاسی بنا دیا گیا اور مکمل سازشوں اور فرقہ پرست میڈیا کی فرقہ وارانہ چیخ و پکار کے ذریعے ملک کی سو سالہ قدیم اور انٹرنیشنل دعوتی جماعت کے مرکز کو نشانہ بنا دیا گیا اور پورے ملک میں کرونا کے پھیلنے کا ذمہ دار اس تنظیم کو قرار دے دیا گیا اس منصوبے جس میں مسلمانوں کے اس عظیم مرکز پر پابندی عائد کرنا مقصود تھا،اس کو بدنام کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دی گئی،

ایسی ہنگامی صورت میں اور ایمرجنسی کی حالت میں بھی جہاں تعصب کے خول سے جمہوریت کے چوتھے ستون ،یعنی میڈیا اور اصحاب اقتدار باہر نہ آ سکے ہوں وہاں مادی اسباب سے عافیت کی امید ویسے بھی فضول ہے’،ایسے سنگین ماحول میں جب ظاہری تمام سہارے ٹوٹ چکے ہیں،خالق کائنات اپنی تمام تر قدرت واختیار کے ساتھ موجود ہے’،شریعت کی تعلیم کے علاوہ عقل کا بھی یہ تقاضا ہے’کہ اس بابرکت رات میں جب کہ اس کی رحمتوں کا دریا جوش میں ہوتا ہے پرخلوص عبادتوں کے ذریعے اسے آواز دیں۔ اپنی زندگی نئے سرے سے گذارنے کا عہد کریں، اپنی تمام معصیتوں کی معافی مانگیں، آئندہ حکم رب سے نافرمانی ،اور ہر ان افعال سے اجتناب کرنے کا عزم کریں، عالم وارفتگی اور کیفیت حضوری کے ساتھ ملت کے حالات درست ہونے کی التجاء کریں۔ ملت اسلامیہ کو دشمنان اسلام کی سازشوں اور ان کی ناپاک شیطانی کارروائیوں سے حفاظت کی دعائیں کریں، رب العالمین کی بارگاہ میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کریں،تاکہ اس مقدس لمحہ کی برکت سے آخرت کی ابدی زندگی روشن اور کامیاب ہوجائے، وقت کا دھارا بدل جائے، مسموم فضائیں خوشگوار ہوجائیں، فرقہ پرستوں کے اذہان انسانیت آشنا ہوجائیں اور ملک وملت کی اجتماعی زندگی سکون وعافیت کی شاہراہ ارتقاء پر گامزن ہوجائے۔

Comments are closed.