Baseerat Online News Portal

شب قدر؛گنہگاروں کے لیے شب نجات

مولانا ندیم الواجدی
یہ بڑی مبارک رات ہے، قرآن کریم میں پوری ایک سورت اس کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے اور اس میں اس رات کو ایک ہزار راتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے، قدر کے معنی ہیں، عظمت وشرف، اس رات کو لیلۃ القدر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسے دوسری راتوں کے مقابلے میں شرف اور عظمت حاصل ہے، بعض علماء نے اس کا یہ مفہوم بھی بتلایا ہے کہ جس شخص کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے باعث کوئی قدر وقیمت نہ تھی اس رات میں عبادت اور توبہ واستغفار کرکے وہ صاحب قدر ومنزلت بن گیا ہے، قدر کے دوسرے معنی تقدیر اور حکم کے بھی ہیں، اس لحاظ سے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہوا ہے اس کا وہ حصہ جو اس رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے ان فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کے لیے مامور ہیں، تقدیر ازلی میں عمر، موت، رزق، بارش وغیرہ سب کچھ ہے، یہاں تک کہ یہ بھی بتلا دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو اس سال حج نصیب ہوگا (معارف القرآن :۸/۷۹۱)قرآن کریم میں اس رات کی چار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں (۱) اس رات میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے (۳) اس رات میں فرشتے اترتے ہیں (۴) اس رات میں صبح صادق تک خیر وبرکت اور امن وسلامتی کی بارش ہوتی ہے۔
اس سورت کے علاوہ بھی دوسری آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا نزول شب قدر میں ہوا ہے، فرمایا: ’’ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہم (اس کے ذریعے بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے‘‘ (الدخان۳،۴)اس آیت میں بھی جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہی مراد ہے، اس رات کو مبارک فرمانا اس اعتبار سے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں، قرآن کریم کے شب قدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے پورا قرآن آسمانِ دنیا پر اسی رات میں نازل کردیا گیا، پھر تیٔس سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا کرکے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ہر سال میں جتنا قرآن نازل کرنا مقصود ہوتا اتنا حصہ شب قدر میں لوح محفو ظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کردیا جاتا(معارف القرآن: ۷/۷۵۶) اس رات میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں، ایک روایت میں ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب شب قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور ان تمام لوگوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں جو (اس رات ) میں کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے ذکر اللہ میں مصروف ہوں(البیہقی فی شعب الایمان: ۳/۳۴۳، رقم الحدیث: ۳۷۱۷) ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیتے ہیں وہ فرشتوں کے جُھرمٹ میں زمین پر اترتے ہیں ، وہ فرشتے ہر اس بندے کو سلام کرتے ہیں جو کھڑا ہوا یا بیٹھا ہوا ذکر اللہ میں مشغول ہو، ان لوگوں سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے، جبرئیل ان فرشتوں سے کہتے ہیں بس اب چلو، فرشتے پوچھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا جبرئیل کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے معاف کردیا ہے، سوائے چار شخصوں کے (۱) عادتاً شراب پینے والا (۲) والدین کا نافرمان (۳) قطع رحمی کرنے والا (۴) کینہ پرور(البیہقی فی شعب الایمان: ۳/۳۳۵، رقم الحدیث: ۳۶۹۵) اس رات کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو اس سورت میں بیان ہوئی ہے کہ ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے گویا ایک رات کی عبادت تراسی سال کی عبادت سے بھی بہتر ہے، پھر بہتر ہونے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، کتنی بہتر ہے دوگنی چوگنی، دس گنی، سوگنی وغیرہ سب احتمالات ہیں بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں عبادت کے لیے ایمان واخلاص کے ساتھ کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے (بخاری: ۱/۲۱، رقم الحدیث: ۳۵، مسلم: ۱/۵۲۳، رقم الحدیث: ۷۶۰)۔
یہ بات تو متعین ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے مہینے میں آتی ہے، مگر کس رات میں ہے یہ متعین نہیں ہے، اس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں صاحب تفسیر مظہری نے لکھا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، مگر آخری عشرے کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیں ہے بلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے اور ہر رمضان میں بدلتی بھی رہتی ہے، ان دس راتوں میں سے خاص طاق راتوں یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹، میں ہونے کا از روئے احادیث صحیحہ زیادہ احتمال ہے، اس قول میں تمام احادیث جو شب قدر کی تعین کے متعلق موجود ہیں سب جمع ہوجاتی ہیں، اگر شب قدر کو ان راتوں میں دائر اور ہر رمضان میں بدلنے والی رات مانا جائے تو یہ تمام روایاتِ حدیث اپنی اپنی جگہ درست ثابت ہوجاتی ہیں اور کسی تاویل کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اسی لیے اکثر ائمہ فقہاء نے اس رات کو عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں میں منتقل ہونے والی رات قرار دیا ہے ابوقلابہ، امام مالک، احمد بن حنبل، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، مزنی ابن خزیمہ، وغیرہ رحمہم اللہ سب نے یہی فرمایا ہے، صرف امام شافعیؒ یہ فرماتے ہیں کہ یہ رات بدلنے والی نہیں ہے بلکہ متعین ہے، صحیح بخاری میں حضرت عائشہ الصدیقہؓ کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تحروا لیلۃ القدر في العشر الاواخر من رمضان(بخاری: ۲/۷۱۰، رقم الحدیث: ۱۹۱۶) یعنی شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو، صحیح مسلم میں حضرت سفیان ابن عیینہؓ کی روایت میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطلبوہا فی الوتر منہا(مسلم: ۲/۸۲۲، رقم الحدیث: ۱۱۶۵) یعنی شب قدر کو رمضان کے عشرۂ اخیر کی طاق رات میں تلاش کرو(تفسیر مظہری بحوالہ معارف القرآن: ۸/۷۹۲) حضرت مولانا محمد تقی عثمانی نے لکھا ہے کہ ’’جمہور کا مسلک یہ ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے بالخصوص عشرے کی طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے، کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کس دوسری رات میں، پھر اس میں اختلاف ہوا کہ ان میں سے کون سی رات میں اس کی زیادہ امید ہے، بعض نے اکیسویں رات کو راجح قرار دیا ہے، بعض نے تیئسویں رات کو، لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو شب قدر کا زیادہ امکان ہے (درس ترمذی: ۲/۶۳۵)علماء نے لکھا ہے کہ شب قدر کو کئی مصلحتوں اور حکمتوں کی وجہ سے مخفی رکھا گیا ہے، اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے لوگ دوسری راتوں کا اہتمام بالکل چھوڑ دیتے، متعین نہ ہونے کی صورت میں کم ا ز کم پانچ راتوں میں عبادت کی توفیق ہوجاتی ہے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جوگناہ کئے بغیر نہیں رہتے، متعین کرنے کی صورت میں اگر شب قدر کے معلوم ہونے کے باوجود کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا تو یہ بڑی خطرناک بات ہوتی متعین ہونے کی صورت میں اگر کسی شخص سے یہ رات اتفاقی طور پر چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں وہ افسردگی کی وجہ سے عبادت نہ کرپاتا، جتنی راتیں طلب وجستجو میں صرف ہوتی ہیں سب کا مستقل ثواب ملتا ہے(ماہ رمضان کے فضائل واحکام: ۲۶۰)۔
یہ رات سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے، اس رات کی برکتوں سے محروم رہ جانا بڑی حرماں نصیبی ہے ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوںکے متعلق جو اس رات کی عبادت سے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں، ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ ہر خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کے خیر سے وہی شخص محروم رہتا ہے جو حقیقت میں محروم ہے(ابن ماجہ: ۱/۵۲۶، رقم الحدیث: ۱۶۴۴)۔
رہی یہ بات کہ ان راتوں میں کون سی عبادت کرنا زیادہ بہتر ہے ، اس سلسلے میں بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس رات میں سب سے بہتر عبادت نفلیں پڑھنا ہے کیوں کہ اکثر روایات میں قیام کی فضیلت آئی ہے اور قیام نفلوں میں ہوتا ہے، حضرت سفیان ثوریؒ کی رائے یہ ہے کہ اس رات میں دعا کی عبادت زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس رات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ الصدیقہؓ کو دعا کی تلقین فرمائی تھی ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو میں کیا دعا مانگوں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ دُعا مانگو : اللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی اے اللہ آپ بے شک بہت معاف کرنے والے ہیں، معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں مجھے معاف فرمادیجئے (ابن ماجہ: ۲/۱۲۶۵، رقم الحدیث: ۳۸۵۰)، ابن رجب حنبلیؒ کہتے ہیں کہ صرف دعا ہی پر اکتفا نہ کرے، بلکہ مختلف عبادتوں میں جمع کرنا افضل ہے تلاوت، نماز، دعا، تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہے، کیوں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں یہ تمام عبادات منقول ہیں(فضائل اعمال:۶۱۲)۔
شب قدر میں صرف جاگنا کافی نہیں ہے، بلکہ بیدار رہ کر عبادت کرنا بھی ضروری ہے، اسی وقت شب قدر کی برکات سے مستفیض ہوا جاسکتا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ شب قدر کی عبادت تنہا اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے کی جائے، فقہاء نے فضیلت کی راتوں میں مسجد وں میں جمع ہونے کو مکروہ اور بدعت فرمایا ہے (البحر الرائق: ۲/۵۲)آج کل رمضان کی طاق راتوں میں خاص طور پر ستائیسویں شب میں مساجد کھول دی جاتی ہیں ، انہیں قمقموں سے روشن اور مزین کیا جاتا ہے، لوگ مسجدوں میں آکر جاگتے ہیں، چائے اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں،یہ سب خرافات ہیں ان سے بچنا چاہئے اور گھر میں رہ کر عبادت کا مزاج بنانا چاہئے۔
[email protected]

Comments are closed.