Baseerat Online News Portal

شہید نوجوان راجد لیڈر! حیدریاسین انسانی خوبیوں کے خوگرتھے!

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، چلہنیاوی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآ باد
موبائل:8801589585

سیمانچل،بہار بالخصوص ارریہ کی پوری آبادی اپنے عظیم قائد، سیاسی و سماجی رہنما، انسانیت کی خیرخواہ اور اسکی ھم نوا شخصیت عالیجناب حیدریاسین کے اچانک کار حادثے میں انتقال پر غمگین ہے اور اپنے غمخوار، ہمدرد اور راجد لیڈر کی دائمی جدائیگی کے صدمے پر رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہے۔ بلکہ بہار کی عوام اپنے اس ہونہار نوجوان لیڈر کی شہادت اور متعدد خوبیوں کے حامل لیڈر کی موت کے غم میں برابر کی شریک و سہیم ہے۔ انااللہ وانا الیہ راجعون۔

حیدر یاسین صاحب عرف حیدربابا ضلع ارریہ کے گاؤں بٹورباڑی کے رہنے والے تھے اور تعلیم یافتہ، خوشحال اور معزز گھرانے سے انکا تعلق تھا۔ انکے والد ماجد مرحوم یاسین صاحب شہر ارریہ کے ممتاز و سینئر وکیل میں شمار کیے جاتے تھے اور قصبہ، پورنیہ، بہار حلقہ سے ایم ایل اے بھی رہ چکے تھے۔ حیدر یاسین صاحب مورخہ ۲۲ /جون ۰۲۰۲ء کو دیر رات تقریبا ًپینتالیس سال کی عمر میں ہی کار حادثہ کا شکار ہوگئے اور ارریہ ضلع میں علاج نہ ہوپانے اور وہاں بڑے ہاسپیٹل کے فقدان کیوجہ سے سلی گوڑی، بنگال لیجاتے ہوئے علاج میں میں تاخیر کے سبب انتقال کرگئے۔ کاش! ضلع ارریہ میں اگر کوئی بڑا اسپتال ہوتا!! تو شاید انکو اور نہ جانے کتنے مریضوں کو صحیح علاج و معالجہ مل پاتاتھا!! اوراچانک موت کے منہ میں جانے سے کتنوں کو بچایا جا سکتا تھا!؟ فوری کوئی تدبیر اورطبی کوشش کی جاسکتی تھی!؟۔ مگر نہ جانے کتنی جانیں ابتک اسی کمی کیوجہ سے سلی گوڑی اور پٹنہ کے راستے میں ہی اپنا دم توڑ چکی ہیں!؟ اور ضلع ارریہ میں متعدد سہولیات کی عدم فراہمی کیوجہ سے لوگ اب بھی پریشانی کے عالم میں موت و زیست کے کشمکش کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں!؟ حکومت کو چاہئے کہ اس طرف فورا اپنی توجہ مبذول کرے، انسانی وسماجی ہمدردی اور ضرورت کی شدید کمی کو گنجان آبادی والے علاقے میں بہرصورت پورا کرے۔ بروقت انکو صحیح علاج مل جاتا تو شایدانکی قیمتی جان بھی بچ سکتی تھی!؟

عالیجناب حیدر یاسین غفرلہ کی موت ہمارے لئے بہت بڑا نقصان اور سانحہ ہے، سیمانچل کے علاقے بالخصوص ارریہ والوں کے لیے بہت افسوسناک حادثہ ہے، نئی نسلوں کے لیے اندوہناک واقعہ ہے، خستہ حال لوگوں، مجبوروں اور لاچاروں کے لیے نمناک فاجۂ ہے، غربت و افلاس کے ماروں کے لیے المناک المیہ ہے، مصیبت زدہ اور بے سہاروں کے لئے دردناک ٹریجڈی ہے، مظلوموں اور بے زبانوں کے لئے خوفناک صورتحال ہے، ان کے انتقال سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ہمارا کوئی اپنا قریبی عزیز گزر گیا ہو! کوئی ہردلعزیز مخلص دوست رخصت ہو گیا ہو! غریبوں کا دکھ درد بانٹنے والا چل بسا ہو! کوئی اپنا خیر خواہ دنیا سے آخرت کیطرف ہجرت کر گیا ہو! کوئی اپنا سچا رہبر اور ہمدرد لیڈر ساتھ چھوڑ گیا ہو! کہ جن کے جانے کی وجہ سے ہر کس و ناکس کبیدہ خاطراور افسردہ ہوگیا ہو! رشتے داروں میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہو! غیروں میں بھی افسردگی اور اداسی چھا گئی ہو! بالخصوص مسلمانوں کے محلوں میں گویاکوئی آسمانی قہر ومصیبت ہی ٹوٹ پڑی ہو! خصوصاً مسلم نوجوانوں میں غموں کا احساس ہونے لگا ہو! عوام میں ان کی اچانک جدائیگی کا قلق اور ملال ایسا طاری ہو گیا ہو! کہ ہرطرف انکی شہادت اورانکے محاسن وخدمات کا ذکرِ خیر ہورہا ہو! چہار جانب ہلچل سی مچ گئی ہو!

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

شہر ارریہ اور قرب وجوار کے علاقوں کی پوری آبادی آخری دیدار اور جنازہ میں شرکت کے لیے آزاد اکیڈمی،ارریہ کے وسیع و عریض میدان میں امنڈ پڑی ہو! درحقیقت ان کے جنازہ کی نماز میں اتنی بڑی جم غفیر کا جمع ہونا۔ عوام کے تئیں انکے والہانہ سلوک وبرتاؤ، اخوت و مودت، یک جہتی و یگانگت اورمحبت و الفت کی دلیل ہے اور عوام میں ان کی مقبولیت کی بڑی نشانی ہے، انسانیت کے بہی خواہ اور سچے ہمدرد کی اچانک فوت پر لوگوں کو بڑا ملال ہے اور معزز ہستی سے گہری وابستگی کا برملا اظہار ہے اور عوام کامرحوم اور انکے خانوادے سے وسیع تعلق جیسے دینی وایمانی، سماجی واخلاقی،رفاہی وفلاحی اور انسانی واجتماعی باہمی ربط و محبت کی بہترین گواہی بھی ہے۔ اسی بات کو شاعر نے اس انداز سے کہا ہے کہ!

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسانوں کو!!!!!! ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

ظاہر ہے موصوف کی آخری رسومات میں بادل کی طرح عوام کا امنڈ پڑنا جہاں انکی موت کے صدمے کا کھل کر اظہار ہے، وہیں مرحوم کے گوناگوں اوصاف و کمالات سے مانوس محبانِ حیدر کے طبعی احساسات و جذبات اور اندرونی کیفیات وسلوکیات کا برجستہ اظہار ہے، اسی لئے جب کوئی اچھا انسان بچھڑتا ہے تو کہتے ہیں کہ آسمان و زمین ہل جاتی ہے اور دونوں ملکرمیت پر آنسو بہاتے ہیں اور ہر کوئی انکی موت پر افسردہ وغمگین نظر آتے ہیں، بلکہ پورا ماحول ہی دکھ بھرا ہو جاتا ہے، ہر شخص اپنی اپنی تکلیف، الم، تأسف اور اداسی کا مختلف زاویوں سے اظہار کرتا ہے، اسی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

بچھڑ ا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا!!!

راقم السطور بھی اس عظیم خسارے پر اپنی بے چینی اور کرب و ملال کا اظہار کرتا ہے اورمیت اور ان کے گھر والوں کے لئے خصوصی دعائیں پیش کرتا ہے، کہ اللہ تعالی مرحوم و مغفور کے درجات بلند فرمائے، انعام و اکرام کا معاملہ فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور جملہ پسماندگان ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، خصوصا ًحیدر یاسین صاحب کے اہل خانہ، اولاد بشمول ان کے جملہ برادران جناب جاوید یاسین صاحب، جناب عزیر یاسین صاحب، جناب اویس یاسین صاحب زیدمجدہم کو صبر و استقامت نصیب فرمائے اور ہم سبھوں کومرحوم اور انکے والدماجد کی خوبیوں کاخوگرو پیکربنائے اور تمام مرحومین و مرحومات کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

شہید حیدر یاسین صاحب اپنے والد محترم کے نقش قدم پر رواں دواں تھے، جو ایک طرف گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے اورمتعدد اوصاف کے جامع تھے، اگرچہ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک سینئراور معزز وکیل تھے، مگر ان کے ادب و احترام اور عزت و اکرام کا جذبہ عوام میں اسقدر جاگزیں و پیوستہ تھا کہ جس کی وجہ سے وہ قصبہ کے اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار کے طور پر ایم ایل اے بھی منتخب ہوئے،جب کہ اس سے پہلے وہ ارریہ ضلع کے اوّلین نگر پریشد کے چیئرمین بھی منتخب کئے گیے اور خدمت خلق کے جذبے سے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے، اور عوام میں وہ مقبولیت حاصل کی، جن کی وجہ سے وہ آج تک بھلائے نہیں جاسکے!مرحوم یاسین وکیل صاحب کی انسانی اور علم دوستی کا ہی بیّن ثبوت ہے کہ انہوں نے شہر ارریہ میں ”ارریہ کالج ارریہ“ کے قیام و تأسیس میں بنیادی کرداراداکیا اور اس کے اساسی ذمہ داروں میں رہ کر اس ادارے کو بام عروج پر پہنچایا، تو کبھی آزاد اکیڈمی اسکول وکالج میں سکریٹری کے منصب پر فائز رہ کر طلبا و طالبات کے مستقبل کو تابناک اورروشن بنانے میں ایسا نمایاں رول ادا کیا کہ آج تک انکا چرچا جاری و ساری ہے، اس سلسلے میں انہوں نے اور بھی کئی اہم کارنامے انجام دیے جن کو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی، وکالت اگرچہ ان کا پیشہ تھا مگر وہ عدالت میں سینئر اور بااثر ورسوخ وکیل کی حیثیت سے تھے کہ اکثر اوقات سیشن جج ان کے مشہوروں اور فیصلوں پر ہی اپنی حتمی مہر ثبت کر دیتے تھے اور وکیل صاحب کے سنائے ہوئے فیصلے میں کچھ بھی ترمیم و تبدیل نہیں کرتے تھے۔

انہی خوبیوں کے جامع و پیکر بن کرانکے فرزند ارجمند حیدر یاسین عرف حیدر بابااُفقِ ارریہ میں بہت تیزی کیساتھ ابھرتے ہوئے نظر آرہے تھے، نوجوانوں کے مستقبل کے وہ آئیڈیل بنتے جارہے تھے، مدارس و کالجز کی سرپرستی بھی فرماتے تھے، بلکہ وہ مدارس کے بڑے خیرخواہ بھی سمجھے جاتے تھے اکثر اوقات مدرسوں کے پروگراموں میں بھی شرکت فرماتے تھے، انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے اور گریجویشن کا کورس مکمل کیا اور وہاں بھی انہوں نے اپنے اچھے اوصاف و کمالات کی چھاپ چھوڑی، جس کا تذکرہ مدتوں قائم رہا اور آج بھی انکا ذکر خیروہاں قائم و دائم ہے، وہ اپنے والد ماجد کی طرح شہر ارریہ کے ضلع پریشد کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔ کئی بار آزادانہ طور پر ایم ایل اے کا الیکشن بھی فائٹ کیا، کبھی سکٹی حلقہ سے، تو کبھی ارریہ حلقہ سے مقابلہ کر کے بہت کم ووٹوں کے فاصلے سے ہارے، مگر اس مرتبہ وہ عوام کے سب سے پسندیدہ لیڈر اور ترجیحی لیڈرکے طور پر ابھر کر سامنے آ چکے تھے کہ اللہ نے انہیں اچانک بلالیا۔زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا!!!!ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

لاک ڈاؤن کے عرصے میں انسانیت کی خدمات اور ان کے خیرخواہی کی جو مثال قائم کی اور انکے دردکو اپنا درد سمجھ کر غریبوں کی خدمت کا جووسیع کارنامہ انجام دیا اور محتاجوں اور بے سہاروں کو جوا مدادبہم پہنچائی،اسے کبھی فراموش نہیں جا سکتا ہے! اسکے علاوہ انسانیت کی بھلائی میں انہوں نے جوطویل سلسلہ قائم کیا، جنہیں آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے! اسی وجہ سے وہ ہمارے اور عوام کے دلوں میں مر کر بھی سدا زندہ و جاوید رہیں گے اور ملک و قوم کے محبوب لیڈر اور انسانیت کے خیرخواہ کے طور پر ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے، ہم کل بھی انکے کارناموں کے مداح تھے اور آج بھی انکے مداح ہیں اور کل بھی ان شاء اللہ مداح بنے رہیں گے اور دعاؤں سے بخشتے رہیں گے۔ اللہ ہمیں ان کے اچھے سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ کا حامل بنائے اور اچھے طریقوں کو زندہ رکھنے والا بنائے اور ہم سب کو جامع خطوط پر متحد و متفق فرمائے۔ ضلع کا مستقبل سنوارنے والاہمارے درمیان پیدا فرمائے۔۔اس شعر سے ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

Comments are closed.