Baseerat Online News Portal

شیخ علاء الدین صابر کلیری : زندگی کے چند پہلو

 

اسجد عقابی

صبر و قناعت کے پیکر، زہد و ورع سے متصف، سرزمین ہند پر خدائی پیغام کے علمبردار، اخلاص و للہیت کے سرچشمہ، زبدہ العابدین، پیکر قائم اللیل و صائم النہار، سرتاج الاولیاء والصالحین، سلسلہ چشتیہ کے عظیم ترین روح رواں اور سلسلہ صابریہ کے بانی حضرت شیخ علاؤالدین علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کا وجود مسعود رحمت خداوندی کا نمونہ تھا۔ برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت کے سلسلہ میں جن دو شخصیات کا نام بہت نمایاں ہے، ان میں ایک آپ کی ذات گرامی بھی ہے۔ آپ حد درجہ صابر و شاکر اور قناعت پسند تھے۔ فقیرانہ طرزِ زندگی کو محبوب رکھتے تھے۔ دنیاوی اسباب و وسائل، ناز و نعم سے دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ گولر کے چند پھل پر گزر بسر کرلیا کرتے تھے۔

پیدائش

آپ کی پیدائش 592 ہجری میں ملتان کے قریب کوتوال نامی علاقہ میں ہوئی، ایک روایت کے مطابق آپ کی جائے پیدائش آپ کا وطن مالوف (ہرات) ہے۔ آپ خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور غوث الثقلین، پیران پیر شیخ المشائخ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے پڑ پوتے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب خواجہ علاؤالدین بن شاہ عبد الرحیم عبد السلام بن شاہ سیف الدین عبد الوہاب بن حضرت شیخ المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی ہے۔ آپ خاندانی حسنی ہیں۔

تعلیم و تربیت

زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ پانچ سال کی عمر میں یتیمی کا بوجھ معصوم کندھے پر آپڑا تھا، کچھ ایام آپ ماں کی تربیت میں رہے اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی تربیت کیلئے اپنے لخت جگر کو اپنے بھائی شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں بھیج دیا۔ شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ تصوف و سلوک کے علاوہ علوم شرعیہ کے مستند و معتبر عالم دین تھے۔ شیخ علاؤالدین علی صابر کی والدہ کے بقول آپ کم گو اور مغلوب الحیا تھے۔ ان امور کے پیش نظر آپ کے ماموں شیخ فرید الدین گنج شکر نے آپ کو گیارہ سال کی عمر میں لنگر خانے کا منتظم بنا دیا۔ تاکہ آپ بسہولت کھانے پینے کا انتظام سنبھال سکیں اور آپ کو بھی کھانے کی پریشانی لاحق نہ ہو۔ بارہ سال تک آپ لنگر خانے کے منتظم رہے، لیکن اذن صریح نہ ہونے کی وجہ سے آپ دن کو روزہ رکھتے اور کچھ اپنا انتظام کرکے رات کو اسی پر گزارا کرلیتے۔

بارہ سال کی طویل مدت بعد جب آپ بہت زیادہ نحیف و لاغر ہوگئے، آپ کی والدہ ملاقات کیلئے تشریف لائیں۔ آپ کی حالت زار کو دیکھ کر بھائی سے شکوہ کناں ہوئی۔ یہ بات شیخ فرید الدین گنج شکر کے علم میں بھی نہیں تھی، ضعف و نقاہت کی وجہ دریافت کی گئی تب یہ بارہ سال کا چھپا ہوا راز افشاں ہوا کہ، اذن صریح نہ ہونے کی بنا پر آپ نے انتظام تو ضرور سنبھالا لیکن کبھی خود اس سے مستفید نہیں ہوئے۔ اس جواب سے خوش ہوکر آپ کے ماموں اور شیخ نے آپ کو (صابر) کا لقب عطا فرمایا۔

بیعت و خلافت

آپ نے شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی جہد مسلسل، جفا کشی، زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت اور فنا فی اللہ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 650 ہجری میں آپ کو شیخ کی جانب سے خلعت خلافت سے نوازا گیا۔ اسی اثناء میں آپ کی والدہ کے اصرار کے پیشِ نظر آپ کی شادی ماموں زاد بہن سے کی گئی۔ شادی کی پہلی رات ہی آپ نے بیوی کو اپنی طرح فنا فی اللہ بنا دیا، آپ کی نظر اور توجہ خاص کا نتیجہ تھا کہ بعد ازاں دونوں نے پوری زندگی یاد الٰہی میں مشغول رہ کر گزارا ہے۔

مسلسل روزے، عبادت، ریاضت اور جذب کی کیفیت میں مبتلا رہا کرتے تھے۔ آپ کے خادم خاص اور اجل خلیفہ شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کو بھی بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وضو کا پانی اور افطار کیلئے گولر پس پشت رکھ دیا کرتے تھے۔

ایک خادم نے شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے خلفاء سے ملاقات کرنے کی اجازت طلب کی۔ اور علاؤ الدین علی احمد صابر کی خدمت میں حاضر ہوئے، مسلسل استغراق کی حالت میں رہتے، آنے جانے والوں کی جانب خاص توجہ نہیں ہوتی تھی۔ آپ کے خادم نے بآواز بلند ارشاد فرمایا کہ حضرت شیخ کے دربار سے مہمان آیا ہے۔ آپ نے حضرت شیخ کی طبیعت دریافت کی، گولر میں نمک ملانے کا حکم دیا (باہتمام مہمان نوازی) اور پھر حالت استغراق میں پہنچ گئے۔ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خادم وہاں سے سلطان الاولیاء حضرت نظام الدین اولیاء کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ یہ تو شاہی دربار تھا۔ یہاں ہر وقت لنگر کا بہترین انتظام رہا کرتا تھا۔ حضرت سلطان الاولیاء نے شیخ کی نسبت پر خوب خاطر مدارات کی۔ روانگی کے وقت ہدایا و تحائف پیش کئے۔ جب وہ خادم حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں پہنچا تو آپ نے احوال دریافت کیا۔ خادم نے سلطان الاولیاء کے مہمان نوازی کی خوب تعریف کی جبکہ شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کے متعلق خاموشی اختیار کئے رکھا۔ شیخ کے استفسار پر پیش آئے واقعات کو سنایا، شیخ نے پھر دریافت کیا اور کچھ کہا۔ تب خادم نے بتایا کہ آپ کے احوال دریافت کئے تھے۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا کہ وہ حالت جذب کی اس حالت میں ہے جہاں کسی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ میرے ساتھ کمال محبت ہے کہ مجھے اس حال میں بھی یاد رکھا ہے۔

وفات

13 ربیع الاول 690 ھجری آپ کی تاریخ وفات ہے۔ تاریخ وفات آپ کے مزار پر کندہ ہے۔ آپ نے پوری زندگی عبادت و ریاضت میں بسر کی تھی۔ بعد از وفات، یہ مشہور ہے کہ بعض لوگوں نے آپ کے مزار پر جبرا قبضہ کرلیا اور وہاں صنم خانہ بنانے کا ارادہ کیا۔ خدا کی شان دیکھئے رات کو جنگل کی جانب سے شیر آیا اور بہت سی جانوں کا نقصان کرگیا۔ دیگر بچے کھچے لوگوں نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔

وفات کے بعد طویل زمانہ تک آپ کی قبر پر ایک روشنی نمودار ہوا کرتی تھی۔ لوگوں میں اس کے متعلق حیرت انگیز باتیں پھیلی ہوئی تھی۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب مزار پر تشریف لائے تو انہوں نے التجا اور دعائیں مانگی، جس کے بعد روشنی کا نمودار ہونا بند ہوگیا۔

آپ کے مزار پر نور الدین جہانگیر نے گنبد تعمیر کروایا جبکہ مسجد اور مزار کا احاطہ شہنشاہ ہمایوں کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ دعوت وعزیمت میں لکھا ہے کہ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ ہمارے ان مشائخ عظام کے متعلق کرامات و مکاشفات کا طویل دفتر موجود ہے، لیکن جب تاریخی طور پر تحقیق و جستجو کے بعد ان مشائخ عظام اور علماء کرام کے حالات زندگی کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے تو چھوٹے سے کتابچہ کی ترتیب مشکل ہوجاتی۔

ولایت کا حصول شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اپنے مشائخ عظام کی جانب ایسے واقعات جو شرعاً درست نہیں ہے اور تاریخی طور پر جن کا کوئی ثبوت نہ ہو منسوب کرنا ان کے فضائل و مناقب میں شمار نہیں کئے جاسکتے ہیں-

Comments are closed.