Baseerat Online News Portal

صاحب شمشیر، امیر احرار ہند حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ

 

از قلم :آفتاب اظہر صدیقی

حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ کے پوتے تھے، اسی لیے وہ اپنے نام کے ساتھ ثانی کا لاحقہ لگایا کرتے تھے، آپ کے دادا رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمٰن صاحب (ولادت: 1892ء – وفات: 1956ء) ایک باصلاحیت تحریک ساز عالم دین تھے۔

آپ لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ احرار کے سرگرم رکن تھے۔ ان کے والد حضرت مولانا زکریا ایک ممتاز عالم دین تھے۔ مولانا حبیب الرحمن نے تحریک خلافت اور بعد میں تحریک احرار میں بڑے انہماک اور تن دہی سے حصہ لیا اور متعدد بار جیل گئے۔ بہت اچھے خطیب اور آزاد خیال رہنما تھے۔

 

تحریک خلافت کے خاتمے کے اعلان کے بعد خلافت پنجاب کے رہنماؤں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ عبد الرحمن غازی اور مولانا مظہر علی اظہر رحمہم اللہ جیسے سر بکف مجاہدوں نے ایک انقلابی جماعت مجلس احرار کی بنیاد رکھی تھی، مجلس کے تاسیسی اجلاس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم نے مجلس احرار کی بنیاد رکھی، اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں نے ہماری آواز کو سنا اور قبول کیا۔ اگر ہم صدق دل سے کام کرتے رہے تو میرا یقین ہے کہ عنقریب ہر گوشے میں مجلس احرار اسلام کا نظام پھیل جائے گا۔

آزادی کے ساتھ ہی پاکستان بنا تو یہ تنظیم دو حصوں میں منقسم ہوگئی، مجلس احرار پاکستان اور مجلس احرار ہند۔

 

مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی جو شیر اسلام، شیر پنجاب اور شاہی امام پنجاب سے جانے جاتے تھے، آپ نے مجلس احرار اسلام ہند کے ذریعے صوبۂ پنجاب میں خوب کام کیا، پنجاب کی درجنوں مساجد کو سکھوں اور غیر مسلموں سے بغیر لڑے جھگڑے آزاد کرایا اور انہیں آباد کیا۔ آپ پنجاب کے مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط قلعہ کی حیثیت رکھتے تھے، پنجاب کی سرکاریں بھی آپ کا لحاظ کرتی تھیں اور آپ کی باتوں پر عمل پیرا ہوتی تھیں۔

مولانا حبیب الرحمٰن ثانی لدھیانوی ہندوستانی سطح پر حکومت کے ہر غلط فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے میں پیش پیش رہتے تھے، آپ نے ہمیشہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا، میڈیا پر مکمل بے باکی سے بیان دینا اور مسلمانوں کے حوصلوں کو بڑھانا ان ہی کی شان تھی۔

آپ کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ آپ ہمیشہ اپنے ساتھ تلوار رکھا کرتے تھے، بیان کرنے بیٹھتے تب بھی تلوار ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی۔

آپ اس مسلمان سے بہت خوش ہوتے تھے جو جری اور بہادر ہوتا نیز جس کے زیادہ بچے ہوتے تھے اس سے بھی بڑے خوش ہوتے تھے اور انعام سے بھی نوازتے تھے۔

 

راقم الحروف کو حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی کے مدرسے (شاہی جامع مسجد لدھیانہ) میں تقریباً ایک سال رہنے کا اتفاق ہوا، جس دوران میں نے قاری عبید اللہ صاحب کے سامنے قرآن پاک کا دور کیا، اکثر ہم لوگ عصر کے بعد مولانا کی خدمت میں بیٹھا کرتے تھے اور قیمتی ارشادات سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اسی سال میں نے حضرت کے یہاں قریب کی مسجد میں جس کے متولی ان کے بھائی صاحب ہیں تراویح سنائی اور تراویح میں قرآن پاک مکمل کیا، ختم قرآن کی شب میں دعا کے لیے حضرت مولانا تشریف لائے اور مجھ سے اپنے سینے پر دم کروایا۔

 

وہاں سے آنے کے بعد بھی جب جب میرا لدھیانہ جانا ہوتا، میں حضرت کی زیارت اور ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔

ایک مرتبہ میں اپنے ایک رفیق درس مولوی عرفان مظفرپوری کے ساتھ حضرت کی خدمت میں پہنچا، حضرت کے لیے دیوبند سے کچھ ہدیہ لے کر گیا تھا سو پیش کیا، حضرت نے اسے بسر و چشم قبول فرمایا اور جوابِ ہدیہ کے طور پر مجھے کلونجی کا تیل عنایت کیا۔ اس موقع سے حضرت نے سفر کے موضوع پر جو میری تربیت فرمائی وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی، ہوا یوں کہ خادم نے میرے پاس ناشتہ لاکر رکھا اور میں نے اس میں سے کھانا شروع کردیا، حضرت نے مجھ سے کہا "تمہارے ساتھ ایک اور ساتھی تھے نا؟ میں نے کہا جی ہاں! وہ وضو کر رہے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہیں ان کا انتظار کرنا چاہیے تھا اور ناشتہ لانے والے سے کہنا چاہیے تھا کہ ہم دو ساتھی ہیں، سفر میں پہلے اپنے ساتھیوں کا خیال کرو، نہ ان کو چھوڑ کر کہیں جاؤ، نہ انہیں چھوڑ کر کچھ کھاؤ۔

 

حضرت کے ہونہار صاحب زادے حضرت مولانا عثمان لدھیانوی نائب شاہی امام پنجاب بھی حضرت کی طرح جری اور بہادر ہیں، مولانا عثمان صاحب ایک باصلاحیت عالم دین اور نیک دل، ملنسار انسان ہیں، انہیں ہم مدرسے میں "عثمان بھائی” سے یاد کرتے تھے، آج بھی ان سے وہی تعلق ہے، کبھی فون کرتا ہوں تو اپنوں کی طرح سے پیش آتے ہیں، اللہ پاک نے انہیں اپنے والد کا ان ہی کی شان کے مطابق نائب بنایا ہے، انہیں اپنے والد کی علمی، تحریکی اور تشجیعی وراثت کو سنبھال کر رکھنے کی بخوبی صلاحیت حاصل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ پاک ان سے خوب کام لے گا۔

 

آج بتاریخ دس ستمبر 2021ء بروز جمعہ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب ثانی لدھیانوی امیر احرار اسلام ہند و شاہی امام پنجاب کا صبح صادق سے قبل لدھیانہ میں انتقال ہوگیا ہے، اللہ پاک ان کی تمام خدمات کو قبول فرمائے، مغفرت فرمائے، جنت میں بلند درجات عطا فرمائے۔ اور ان کے پسماندگان، متعلقین و محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

 

آفتاب اظہر صدیقی

(صوبائی انچارج راشٹریہ علماء کونسل، بہار)

Comments are closed.