Baseerat Online News Portal

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ اور اہل بیت اطہار کا باہمی تعلق(۲)

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے خواہش کی کہ وہ ان کے پاس آیا کریں، میں ایک دن گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خلوت میں تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے داخل ہونا چاہتے تھے، مگر ان کو اجازت نہیں ملی؛ اس لئے میں واپس آگیا، پھر ملاقات کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنے کے بارے میں یاد دلایا، تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع کا ذکر کیا اورکہا کہ جب میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہیں واپس ہونا پڑا تو میں بھی واپس ہوگیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ اجازت کے مستحق تھے، پھر اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ اِس میں ایمان کا جو پودا لگا ہے، وہ اللہ کے فضل سے اور پھر تم لوگوں یعنی خانوادۂ نبوت کے ذریعہ سے ہے۔ (الاصابۃ: ۱؍۱۳۵)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خانوادۂ نبوی سے ایسی عقیدت تھی کہ آپ نے عمر کے تفاوت کے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کی اور فرمایا کہ یہ رشتہ میں صرف خانوادۂ نبوت سے نسبت کے لئے چاہتا ہوں؛ کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام خاندانی نسبتیں قیامت میں منقطع ہوجائیںگی سوائے میری نسبت کے؛ اسی لئے میں اس رشتہ کا متمنی ہوں؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی اس خواہش کو قبول کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی کو ان کے نکاح میں دے دیا اور ان ہی سے زید بن عمر بن خطاب پیدا ہوئے، جو فخر کرتے تھے کہ میں دو خلفاء کی اولاد میں ہوں، ایک:حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے: حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اکثر فیصلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر ہوتے تھے، عراق کی مفتوحہ زمین مجاہدین میں تقسیم کی جائیں یا بیت المال کی ملکیت ہو؟ اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے تھی کہ بیت المال کی ملکیت ہو اور اسی پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصلہ کیا، اسلامی کیلنڈر کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے تھی کہ اس کا نقطۂ آغاز واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اسی پر فیصلہ ہو؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض مواقع پر فرمایا کہ اگر علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نہ ہوتے تو عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہلاک ہوجاتا: لو لا علي لہلک عمر(الاستیعاب)
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی اور ان کی لاش کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: اے ابو حفص! آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں کہ جس کے نامۂ اعمال کے ساتھ مجھے اللہ کے یہاں جانا پسند ہو: فواللہ ما بقي بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أحد أحب إليّ أن القی اللہ بصحیفتہ منک (مسند احمد) — حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زار و قطار رورہے تھے، جب ان کے گریہ وزاری کو دیکھ کر لوگوں نے سوال کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ بات کہی،جو ان کی دور رس نظر کی دلیل اور گہری بصیرت کی آئینہ دار ہے، آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت سے ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو قیامت تک پُر نہ ہوسکے گا۔ (دیکھئے: المرتضی، ص: ۱۴۴)، غرض کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان گہری محبت اور باہمی ہمدردی کا تعلق تھا، وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور قدر شناس تھے، ان کی دلوں میں نہ کوئی کینہ تھا، نہ کدورت، وہ ’’أشداء علی الکفار‘‘ اور ’’رحماء بینہم‘‘ کے بہترین مصداق تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کے درمیان دوسری خاندانی نسبتوں سے تو قرابت تھی ہی،ساتھ ہی ساتھ دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل تھا، گویا ان حضرات کی حیثیت ایک گھر کے دو افراد کی سی تھی؛ اسی لئے دونوں میں بڑی محبت اور ایک دوسرے کا پاس ولحاظ تھا، جب فتنہ پر داز سبائیوں نے خلیفۂ مظلوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو مہاجرین وانصار کی بڑی جماعت – جن کی تعداد سات سو کے قریب تھی – حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تحفظ کے لئے ان کے گھر میں فروکش ہوگئی، ان میں حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما بھی تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہتر اصرار کے ساتھ اپنی مدد کو آئے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے گھر چلے جائیں، یہاں تک کہ اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو اپنی تلوار نیام میں رکھ لے، وہ آزاد ہے،بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار کے اصرار پر یہ حضرات وہاں سے واپس ہوئے؛ لیکن سب سے آخر میں جس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کو چھوڑا، وہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے، (البدایہ والنہایۃ لابن کثیر: ۷؍۱۸۱) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دو بار اجازت طلب کی کہ وہ ان کے دفاع کے لئے جنگ کریں؛لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس پر حق ہے اور جس کو اقرار ہو کہ اس پر میرا کوئی حق ہے تو وہ میری خاطر پچھنہ لگانے کے بہ قدر بھی خون نہ بہائے، جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو دو بار اجازت طلب کرنے کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قبول نہیں کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھنے چلے گئے، باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گذارش کی کہ آپ نماز پڑھائیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو اس حال میں نماز نہیں پڑھا سکتا کہ امام المسلمین محصور ہوں؛ بلکہ میں تنہا نماز پڑھوں گا؛ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تنہا نماز ادا فرمائی اور گھر واپس ہوگئے۔ (المرتضی، ص: ۱۳۴)
جب محاصرہ سخت ہوگیا،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پانی ختم ہوگیا اور آپ نے مسلمانوں سے فریاد کی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باغیوں کے علی الرغم ایک مشکیزہ پانی لے کر بہ مشقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچے اور انہیں پانی مہیا کیا؛ حالاںکہ باغیوں نے انہیں سخت سست بھی کہا اور ان کی سواری کو بھگا دیا۔ (البدایہ والنہایہ: ۷؍۱۸۷)
اہل بیت اور دوسرے صحابہ کے درمیان خوشگوار تعلق کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے درمیان آپس میں کثرت سے رشتہ داریاں تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں رہیں، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی کا نکاح حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض روایات کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا، اہل بیت کی ایک اہم ترین شخصیت امام محمد باقر کا نکاح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے قاسم ابن محمد کی صاحبزادی ام فروہ سے ہوا، اسی سے امام جعفر صادق جیسے فقیہ اور صاحب علم پیدا ہوئے، جن سے امام ابو حنیفہ اور اکثر فقہاء اہل سنت کو تلمذ رہا ہے، امام جعفر صادق کی والدہ ام فروہ ہیں، جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے قاسم کی صاحبزادی ہیں اور ان کی نانی اسماء بنت عبد الرحمن ہیں، جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی ہیں، اسی لئے امام جعفر صادق کہتے تھے: ولدني أبو بکر مرتین، یعنی: ’’میں دو جہت سے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہوں‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں گذر چکا ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ان کا نکاح ہوا، جن سے زید بن عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے، وہ اس بات پر ناز کرتے تھے کہ میں دو خلفاء راشدین کا بیٹا ہوں، یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نواسہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آل کے ساتھ آل علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شادی بیاہ کے رشتہ کثرت سے ہوئے ہیں؛ کیوںکہ زمانہ جاہلیت میں بھی بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیان کثرت سے رشتہ داری تھی، اس سلسلہ میں ’’آل البیت والصحابۃ – صحبۃ وقرابۃ‘‘(جس کا ترجمہ مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ سے شائع ہوچکا ہے) میں اس پہلو پر چارٹ کے ساتھ بڑی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، خاص کر یہ بات بہت اہم ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی جو نسلیں معروف ہیں، وہ زیادہ تر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتیوں، نواسیوں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہوئی ہیں۔
انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے، اس کے نام پر لوگ اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں، اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اہل بیت کے حسنی اور حسینی خانوادہ میں کثرت سے ابو بکر، عمر، عثمان اور عائشہ کے نام ملتے ہیں، خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے کا نام ابو بکر تھا، جو میدان کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے تھے، حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک صاحبزادے کانام بھی ابو بکر تھا، جنہوں نے کربلا میں اپنے چچا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہادت پائی، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے علی زین العابدین ہیں، جن سے آپ کی نسل مبارک چلی، ان کی بھی کنیت ابو بکر تھی، امام جعفر صادق کے پوتے امام علی رضا کے ایک صاحبزادے کا نام بھی ابو بکر تھا، حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے بھی ابو بکر سے موسوم تھے، جنہوں نے کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا۔
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے ’’عمر الأطلف‘‘ تھے، جن کی والدہ کا نام تھا ’’أم حبیب صہباء التغلبی‘‘، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے کا نام عمر تھا جو کربلا میں شہید ہوئے، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت علی زین العابدین کے ایک صاحبزادے کا نام تھا ’’عمر الأشرف‘‘، امام موسیٰ کاظم کے بھی ایک صاحبزادے عمر نام کے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادوں میں ایک کا نام عثمان بھی تھا جو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے، حضرت عقیل بن ابی طالب کے بھی ایک صاحبزادے کا نام عثمان تھا —- اسی طرح اہل بیت اطہار میں بہت سی خواتین عائشہ نام کی ملتی ہیں، جیسے امام موسی کاظم کی صاحبزادی کا نام عائشہ تھا، موسیٰ کاظم کے صاحبزادے جعفر کی بھی ایک بیٹی عائشہ تھیں، علی رضا کی ایک صاحبزادی بھی عائشہ تھیں، علی رضا کے پوتے علی ہادی کی صاحبزادی کا نام بھی عائشہ تھا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے سید ابراہیم بن احمد الکتانی کو کہ انہوں نے ’’الأسماء والمصاہرات بین أہل البیت والصحابۃ‘‘ کے نام سے اس موضوع پر ایک بڑا عمدہ اور چشم کشا رسالہ مرتب کیا ہے، جس کا اردو ترجمہ معروف محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کے زیر اہتمام طبع ہوچکا ہے۔
ظاہر ہے کہ انسان ایسے افراد کے نام پر اپنے بچوں کے نام نہیں رکھتا جن کی شخصیتیں اس کو محبوب نہ ہوں، یا جن سے اسے نفرت ہو؛ لہٰذا ان باہمی رشتہ داریوں اور ایک دوسرے کے نام پر اپنی اولاد کے نام رکھنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان بے حد محبت وخلوص کا تعلق تھا، وہ ایک دوسرے کی عزت کرنے والے اور ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے تھے، دنیا میں بھی ان کے قلوب کینہ و کدورت سے خالی تھے اور آخرت میں بدرجہ اولیٰ رہیںگے، ہمارا بھی رویہ یہی ہونا چاہئے کہ ہم اہل بیت اطہار، ازواج مطہرات اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے محبت کریں اور اپنے دل ان کی طرف سے صاف رکھیں: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (الحشر: ۱۰)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.